Depression
ڈیپریشن
اکثر و بیشتر ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں وقتاََ فوقتاََ کسی وجہ کے یا بلاوجہ اداسی، مایوسی اور بے زاری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عموماََ ہم اداسی کا خودی سے مقابلہ کر لیتے ہیں کسی دوست سے بات کر کے، سوشل میڈیا پہ وقت گزار کر، کسی اپنے کے ساتھ ایک کپ چائے پی کر دل کا بوجھ ہلکا کر کے ہم بالکل خود کو نارمل محسوس کرنے لگتے ہیں۔
اگر اس اداسی کا دورانیہ دن بدن بڑھتا ہی جائے دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں اس اداسی کی لپیٹ میں رہے تو یہ ڈیپریشن ہو سکتا ہے۔ آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ اگر اداسی کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کے روزمرہ کے معمولات اس سے متاثر ہونے لگیں۔ تو یہ آپ کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
محسوسات:
اس دوران ہمارے کیا احساسات ہوتے ہیں؟
ڈیپریشن میں اداسی کی شدت عام اداسی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ اور اس کا دورانیہ بھی مہینوں پر محیط ہوتا ہے۔ انسان خود کو بے کار سمجھنے لگتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں وہ فضول زندگی گزار رہا ہے۔
علامات:
درج ذیل ًعلامات ڈپریشن کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر مریض میں تمام علامات موجود ہوں لیکن اگر آپ میں ان میں سے کم از کم چار علامات موجود ہوں تو اس بات کا امکان ہے کہ آپ ڈپریشن کے مرض کا شکار ہوں۔
1۔ ہر وقت یا زیادہ تر وقت اداس اور افسردہ رہنا۔
2۔ جن چیزوں اور کاموں میں پہلے دلچسپی ہو ان میں دل نہ لگنا، کسی چیز میں مزا نہ آنا۔
3۔ جسمانی یا ذہنی کمزوری محسوس کرنا، بہت زیادہ تھکا محسوس کرنا۔
4۔ روزمرہ کے کاموں یا باتوں پہ توجہ نہ دے پانا۔
5۔ اپنے آپ کو اوروں سے کمتر سمجھنے لگنا، خود اعتمادی کم ہو جانا۔
6۔ ماضی کی چھوٹی باتوں کے لیے اپنے آپ کو الزام دیتے رہنا، اپنے آپ کو فضول اور ناکارہ سمجھنا۔
7۔ مستقبل سے مایوس ہو جانا۔
8۔ خودکشی کے خیالات آنا یا خودکشی کی کوشش کرنا۔
9۔ نیند خراب ہو جانا۔
10۔ بھوک خراب ہو جانا۔
وجوہات:
بعض لوگوں میں ڈیپریشن کی کوئی حاص وجہ ہوتی ہے اور بعض لوگ بلاوجہ ہی اداس رہنے لگتے ہیں اور ان کی یہ اداسی اس حد تک شدت اختیار کر جاتی ہے کہ انہیں مدد اور علاج کی ضرورت ہوتی ہیں۔
ہم اداس کیوں ہوتے ہیں؟
ہماری زندگیوں میں کچھ تکلیف دہ واقعات جنھیں ہم فراموش نہیں کر پاتے مثال کے طور پر کسی قریبی شخص یا رشتے کا انتقال ہو جانا، نوکری کا حتم ہو جانا، انسان کا لاشعور ان واقعات کو قبول ہی نہیں کر پا رہا ہوتا۔ نارمل لوگ ایک دو ہفتے تک اس اداسی سے باہر آ جاتے ہیں اور حقیقت کو قبول کر لیتے ہیں۔ مگر بعض لوگ اس اداسی سے باہر نہیں نکل پاتے اور ڈپریشن کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہم تنہا ہوں، ہمارے آس پاس کوئی دوست نہ ہوں، ہم ذہنی دباؤ کا شکار ہوں، یا ہم بہت زیادہ جسمانی تھکن کا شکار ہوں، ان صورتوں میں ڈپریشن کی بیماری ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ڈپریشن کی بیماری بعض خاندانوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے والدین میں سے کسی ایک کو ڈپریشن کی بیماری ہے تو آپ کو ڈپریشن ہونے کا خطرہ اور لوگوں کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ ہے۔
علاج:
1: سب سے پہلے ہمیں سائیکو ایجوکیشن یعنی نفسیاتی مسائل کیا ہیں ان کے بارے میں آگاہی ہونی چاہئے۔
آج کل یہ عام چیز ہو گئی ہے کہ لوگ تھوڑا سا اداس ہوتے ہیں تو کہنا شروع کر دیتے ہیں میں ڈیپریس ہو گیا ہوں۔ اور یہ بالکل غلط بات ہے۔ کیونکہ اداسی صرف اور صرف ایک نارمل ایموشن ہے۔ نیگیٹو ایموشن ہم کہ سکتے ہیں کیونکہ اس میں کوئی اچھی فیلینگ نہیں ہوتی۔ یہ کسی طرح بھی ابنارمل ایموشن نہیں ہے کیونکہ یہ انسان کی زندگی کا حصہ ہے جہاں خوشی ہوتی ہے وہاں اداسی بھی ہے۔ اس لئے یہ کہنا بند کر دے کہ میں ڈیپریس ہوں، کیونکہ اداسی ڈیپریشن نہیں ہے۔
اداسی کے ساتھ ڈسفنکشنل ہونا بھی ضروری ہے۔ روزمرہ کے کاموں کو سر انجام نہیں دے پانا۔ آفس، سکول وغیرہ جانے کو دل نہیں کرنا۔ صرف دل نہ کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ آپ جاتے ہی نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ نہا دھو کہ وقت پہ آفس سکول وغیرہ پہنچ جاتے ہیں پھر یہ ڈیپریشن نہیں ہے۔ مسئلہ تب ہے جب آپ کا دل نہ کرے اور آپ کام پہ نہ جائیں۔ یہ بات سمجھ لیں جہاں آپ کے روزمرہ کے کام اور ریلیشن متاثر ہونا شروع ہو جائیں یہ ڈیپریشن ہے۔
مثال کے طور پر آپ کے کسی عزیز کی ڈیتھ ہو گئی ہے یا پھر کسی کو ڈائیورس ہو جاتی ہے اس وقت آپ ڈیپریس نہیں اداس ہوتے ہیں۔ آپ کسی چیز کو محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ اسے دکھ بھی کہ سکتے ہے۔ صدمہ بھی بول سکتے ہے لیکن پھر بھی وہ ڈیپریشن کے زمرے میں نہیں آتا۔ ڈیپریشن ہم اس وقت کہیں گے جب اسے گزرے ایک سال ہو گیا ہو مگر آپ کی کیفیت پہلے دن جیسی ہو اور روزمرہ کے کام بھی نہ کر سکتے ہوں۔
اب آتے ہیں ایک اہم پہلو کی طرف کہ اکثر لوگ جو ہیں مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔ مذہب کو استعمال کرنا اپنی مدد کے لئے بہت اچھی چیز ہے۔ کیونکہ ہمیں کوئی بھی مسئلہ ہو ہم اللہ سے رجوع کرتے ہیں اور اسی سے دعا کرتے ہیں یا اللہ ہماری مدد فرما اور ہمیں اس پریشانی سے نکال دے۔ لیکن دعا کے ساتھ ہم سے عمل کا بھی تقاضا کیا جاتا ہے۔ ان سب چیزوں کے لیے ہمیں محنت کرنی ہو گی۔
کیونکہ ان مسائل کے حل کیلئے ہمیں دعا کے علاوہ اور بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ جو کہ دنیا میں رہنے کا ایک اصول ہے۔ جو لوگ ڈیپریشن میں ہوتے ہیں انہیں اس وقت تبلیغ کرنے سے درگزر کیا کریں یہ مت کہا کریں نماز پڑھا کرو نماز نہیں پڑھتے اسی لئے ڈیپریشن ہے۔ اس طرح اس کے ڈیپریشن میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ جو ہے شرم محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے خود سے اور خود کو بے بس اور بے کار محسوس کرنے لگتا ہے۔
اب ہم بات کرتے ہیں ڈیپریشن کے علاج کے بارے میں۔ CBT میں ڈیپریشن کے دو بنیادی علاج ہیں جو انسان اپنی مدد آپ کے تحت خود بھی کر سکتا ہے اگر خود میں اتنی اہلیت محسوس نہ کر رہا ہو پھر اسے کسی سائیکالوجسٹ سے رجوع کرنا چاہئے۔
1۔ پہلا بنیادی علاج ہے ایکٹیویشن، ایکٹیویٹی، عمل، حرکت۔
اس میں آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ سے کوئی کام نہیں ہو رہا اور آپ سے کوئی کام نہیں ہو گا اور آپ کا دل بھی نہیں کرے گا کوئی کام کرنے کو۔ اس میں ہوتا کیا ہے کہ آپ کہتے ہیں میرا دل نہیں کر رہا کوئی بھی کام کرنے کو کیونکہ مجھے ڈیپریشن ہے اور ڈیپریشن بڑھ جاتا ہے کام نہ کرنے سے، آپ سارا دن اپنے کمرے میں لیٹے رہتے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں۔ بستر پہ لیٹا رہنے سے ڈیپریشن بڑھ جاتا ہے۔
جب تک آپ بستر پہ لیٹے رہیں گے ایکٹیویٹی نہیں کریں گے، اس سے کیا ہو گا ڈیپریشن بڑھ جائے گا بلکہ مزید خراب ہوتا جائے گا۔ ڈیپریشن کا علاج یہ ہے کہ تھوڑی سی ہمت کر کے اٹھا جائے، یہ بہت ضروری ہے خود کو بستر سے اٹھائے، دانت برش کرے، اپنے بستر کو خود تہہ کرے، نہائے اچھے کپڑے پہنے، خود کو بالکل فریش کرے، اپنی مدد آپ کے تحت اپنے سارے کام خود کرے۔
2۔ دوسری چیز جو ڈیپریشن میں ہوتی ہے وہ ہوتی ہے مایوسی، یعنی ہوپلیسنیس یا نا امیدی۔ یہ سوچنا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا، میرا کچھ نہیں بننے والا، مجھے کچھ نہیں نظر آ رہا، آپ اپنے مستقبل سے نا امید ہو جاتے ہیں۔ جب آپ مستقبل سے نا امید ہو جاتے ہیں تو کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ جب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو زندگی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ جبکہ ہماری زندگی کا مقصد ہی عمل ہے اور عمل مسلسل ہے۔
اس میں ہم امید تلاش کرتے رہیں گے۔ جب تک ہم عمل نہیں کریں گے ہماری زندگی میں کچھ بھی تبدیل نہ ہو گا اچھی زندگی حاصل کرنے کے لئے عمل مسلسل بہت ضروری ہے، اپنی زندگی کا مقصد تلاش کرے اور پروڈیکٹیو لائف شروع کر دے خود کو بے کار محسوس نہیں کرے۔ ہر انسان کا اس دنیا میں آنے کا کوئی نا کوئی مقصد ہے آپ بھی اس مقصد کی تلاش اور عمل کے ذریعے حصول کی جدو جہد آج سے ہی شروع کر دیں اور اللہ کی نعمتوں پر شکر بجا لائیں۔