Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Zaroorat Ijad Ki Maa Hai

Zaroorat Ijad Ki Maa Hai

ضرورت ایجاد کی ماں ہے

ایک وقت تھا جب فارمی مرغبانی ہمارے ہاں عام نہیں تھی۔ گھروں میں ہی مرغبانی کی جاتی تھی۔ جب کبھی مہمان آتا یا گھر کا کوئی فرد بیمار ہوتا یا مرغی بیمار ہو جاتی تبھی گھر میں مرغی کا گوشت پکایا جاتا تھا۔ شادی وغیرہ پر بڑے جانور کا ہی گوشت پکایا جاتا تھا۔ جو تھوڑے صاحبِ حیثیت ہوتے وہ بکرے کے گوشت کو ترجیح دیتے تھے۔

آبادی کے دباؤ کے پیش نظر گوشت کی ترسیل میں کمی واقع ہوئی تو پولٹری فارم نے اپنی جگہ پکی کر لی۔ ڈاکٹر حضرات نے بھی اس کے گن گائے کہ صحت عامہ کے مفاد میں ہے سفید گوشت۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ انڈسٹری ملک کی اکانومی میں ایک اہم مقام پر آ گئی۔ بہت سے لوگ اس کاروبار سےمنسلک ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت اوپر چلے گئے۔ نت نئی ریسرچ اور فیڈ میں آئے دن تبدیلیوں نے کافی شکوک و شبہات بھی پیدا کئے۔ اسٹیرائیڈ کا بطور خوراک شوشہ بھی سننے کا ملا۔ پھر ڈاکٹر حضرات کی طرف سے یہ بھی سننے میں آیا کہ اس گوشت کے استعمال سے دل کے امراض جنم لے رہے ہیں۔ واللہ عالم

لیکن لوگ ہیں کہ ایسی کسی بھی بات پر کان نہیں دھرتے شادی کے کھانے میں مرغی کا گوشت جزو اعظم ہے۔

جیسے ملک میں دوسرے مافیاز موجود اسی طرح اس میں بھی ایک پورا مافیا ہے۔ جو جب چاہتا ہے اس کی قیمت میں اضافہ کر دیتا ہے۔ اور جس حکومت کو چاہیں بلیک میل کر سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں مرغی کی فیڈ میں جو آئل استعمال ہوتا اس کے مضر صحت ہونے کا انکشاف ہوا۔ جب اس کی امپورٹ پر پابندی لگائی گئی تو آناََ فاناََ مرغی کی قیمت آسمانوں کو چھونے لگی اور ابھی بھی کم ہونے میں نہیں آ رہی۔

کہتے ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ تو کیوں ہم گوشت کے حصول کے لئے دوسرے ذرائع استعمال نہیں کرتے؟ کیوں ہم نیا تجربہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔

میری نظر میں اگر علماء اکرام خرگوش کے گوشت کو جائز اور حلال قرار دیں تو یہ ایک ایسا اچھا شاندار متبادل گوشت کا سورس ہو سکتا ہے۔ کہ ہم اپنی گوشت کی ضروریات بہ احسن طریقے سے پوری کر سکتے ہیں۔ اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہیں۔ آج ہی ایک خبر تھی کہ الجزائر میں خرگوش کے گوشت کی بجائے بلی کا گوشت فروخت کیا جا رہا تھا۔ جس پر حکومت نے یہ شرط لگا دی ہے کہ خرگوش کا سر اور ٹانگیں ساتھ رکھی جائیں تاکہ صارف کو یقین ہو کہ وہ خرگوش کا ہی گوشت لے رہا ہے۔

ہمیں بھی اسطرح کی قانون سازی کرنی چاہئے اور جو بیروزگار نوجوان ہیں ان کی خرگوش فارم بنانے میں تکنیکی اور مالی مدد کی جائے۔ تاکہ ملک میں گوشت کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ اس کی فارمنگ میں خرچہ کم آتا ہے بیماریاں بھی کم پنپتی ہیں۔ اور ان کی پیدائش بھی جلدی اور وافر تعداد میں ہوتی ہے۔ طبی اور سائنسی ماہرین ہی خرگوش کے گوشت پر اپنی رائے بہتر دے سکتے ہیں۔

ہمیں اس نئی مارکیٹ پر سوچنا چاہئے اگر اس کے کوئی مضر اثرات نہیں ہیں تو یہ ایک بہت اچھی کاروباری فیلڈ بن سکتی ہے۔ اور ملک کی اکانومی کو مضبوط کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے باہر سے کوئی امپورٹ بھی نہیں کرنی پڑے گی۔ جس سے ملک کا زرمبادلہ بھی محفوظ رہے گا۔ جو ہم مرغیوں کی فیڈ باہر سے منگواتے ہیں۔ اربوں روپیہ باہر جھونک دیتے ہیں وہ ہم بچا سکتے ہیں۔ اپنی نوجوان نسل کو اس کاروبار سے منسلک کر کے ملک میں بیروزگاری میں کمی لا سکتے ہیں۔ آئے دن مرغی مافیا کے ہاتھوں عوام کا جو استحصال ہوتا اس میں بھی کمی واقع ہوگی۔

Check Also

Agar Kuch Karna Hai To Shor Walon Se Door Rahen

By Azhar Hussain Bhatti