Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Chota Kisan Beyar O Madadgar

Chota Kisan Beyar O Madadgar

چھوٹا کسان بے یارو مدد گار

کسی بھی ملک کی اکانومی اس کی ایک بڑی پروڈکٹ پر انحصار کرتی ہے اور تمام پالیسیز اس پروڈکٹ کی بہتری کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ جو کہ اس ملک کی اکانومی کا ایک اہم جزو ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں زراعت ایک اہم شعبہ ہے۔ لیکن جتنا استحصال اس شعبے کے ساتھ کیا جاتا ہے شاید ہی کہیں ہوتا ہو۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ہم اس شعبے میں اتنی سرمایہ کاری کرتے یا ایسی پالیسیز بناتے کہ جس سے اس ملک کی اکانومی کو محفوظ بنایا جا سکتا، نہ صرف ہم نے اس زراعت کے شعبے کو نظر انداز کیا بلکہ ہمیشہ اس کے ساتھ سوتیلے پن جیسا سلوک بھی کرتے ہیں۔

چاہے ٹیوب ویل کی بجلی کے ٹیرف کا معاملہ ہو یا ڈیزل کا، بیجوں کی بروقت فراہمی کا ایشو ہو یا ان کی قیمتوں کا معاملہ، اسی طرح کھادوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو یا جعلی ادویات کی بھرمار بالائے ستم مالی اور نہری پٹواری کا ظلم اور ستم، جس کا جس طرح دل چاہتا کسان کو نچوڑ لیا جاتا ہے۔ کسان سے گندم دو ہزار میں خرید کر اب بیج کی شکل میں اسے چار سے پانچ ہزار میں گندم کی دستیابی اس نظام پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہے۔ اگر یہی رقم کسان کو شروع میں دے دی جاتی تو ملک گندم میں خود کفیل ہو سکتا تھا۔ پر ہم اغیار کو اس سے زیادہ قیمت دیں گے اپنے مقامی چھوٹے کسان کو جوتے کی نوک پر نہیں رکھیں گے۔

فصل کے لئے پانی کا حصول بنیادی شرط ہے۔ اب جب گندم بارآور ہونے کے قریب ہے۔ نہری پٹوار سسٹم مافیہ کسانوں پر اپنا شکنجہ کستا ہے۔ تاکہ یہ ایڑیاں رگڑ کر ان سے پانی کے حصول کے لئے ان کے دربار کا پانی بھرتا رہے۔ یہ مافیا کیسےکام کرتا اس کی ایک جھلک آپ کے سامنے لاتا ہوں۔ ملک میں تین طرح کا زرعی رقبہ موجود ہے۔

ایک بارانی جہاں بارش کے سسٹم کے تحت فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔

دوسرا نہری سسٹم نہر کے توسط سے آبپاشی کا نظام ہے۔

تیسرا جدھر نہری پانی کے ساتھ ٹیوب ویل کا استعمال کیا جاتا ہے۔

ٹیوب ویل عموماََ ایسی جگہ لگایا جاتا جدھر کی زمین اچھی ہے نیچےکا پانی بھاری نہیں۔ پہلے اور تیسرے نمبر پر آنے والے کسان کسی طرح سروائیو کر لیتے ہیں۔ لیکن جدھر کی زمین شور ہے کلراٹھی زمین بھی جسے بولا جاتا ہے ان کسانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ مجبوری میں بھاری پانی ٹیوب ویل سے کھینچ کر فصلوں کی پیاس بجھا رہے ہیں۔ ہر سال نہری بندی کی وجہ سے گندم کی فصل کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ جب گندم گوبھ کی شکل میں ہوتی تو اس وقت پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ بروقت پانی نہ ملے تو دانہ باریک رہ جاتا ہے جس سے فی ایکڑ پیداوار کم ہو جاتی ہے۔

نہری پانی کا مافیا نہروں کی بندش کے دوران جو راجباہ نہر سے نکالے ہوتے جدھر سے کسانوں کو پانی دینے کے لئے جو شگاف بنایا جاتا اس کو جان بوجھ کر سیمنٹ لگا کر اتنا تنگ کر دیا جاتا کہ جو کسان کا شیڈول ٹائم ہے اس میں ایک ایکڑ بھی سیراب نہیں ہو پاتا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جو کلراٹھی علاقے نیچے کا پانی کسان اپنی فصل کے لئے استعمال نہیں کر سکتے ان کو بھرپور نہری پانی دیا جائے جن علاقوں میں ٹیوب ویل سے آب پاشی ہو سکتی ان کو مناسب پانی کی فراہمی کی جا سکتی ہے۔

کلراٹھی زمین کا چھوٹا کسان جب عین موقع پر اپنی فصل کی بے توقیری دیکھتا تو اس نہری مافیا کے پاؤں پکڑتا ہے۔ ٹال باش کے نام پر اس مافیا کی جیب گرم کی جاتی ہے۔ تب جا کر اس جگہ کے شگاف کو تھوڑا سا کھول دیا جاتا ہے۔ اور یہ پریکٹس سالوں سال سے چل رہی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی رحم نہیں کھاتا۔ کوئی اس محکمے کا والی وارث نہیں ہے۔ ناخواندہ چھوٹا کسان انان داتاؤں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ خدارا ان پر رحم کریں پانی کا حصول پورے بہاؤ کے ساتھ اور فصلوں کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور زمین کی مجموعی حالت کو دیکھتے ہوئے ہر علاقے کی مناسبت سے پانی کی پوری مقدار اور اس کے بہاؤ کی پالیسی مرتب کرنی چاہئے۔

چھوٹا کسان خوشحال ہوگا تو زراعت میں خوشحالی آئے گی۔ گندم میں خود کفیل نہ ہونے کی وجہ یہی مافیا ذمہ دار ہے جب عین فصل کو پانی کی ضرورت یہ لوگ سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ملک دشمنی کیا ہو سکتی ہے۔ خدارا زراعت کو اہمیت دیں یہی ایک شعبہ ہے جس سے آپ ملک کو بحران سے نکال سکتے ہیں۔ پر موجودہ حکمران جو شوگر انڈسٹری کی پیداوار ہیں کسانان کی ترجیحات میں نہیں آتا۔ نہ ہی ان سے توقع کی جا سکتی ہے۔

Check Also

Ulama Kya Kar Rahe Hain

By Naveed Khalid Tarar