Social Media Ke Mahaz Par Sard Jang
سوشل میڈیا کے محاذ پر سرد جنگ
سوشل میڈیا یوں تو علم، ادب، معلومات تک رسائی اور عوامی رائے کو ہموار کرنے کا زریعہ سمجھا جاتا ہے اور انسانی علم و تربیت اور ترقی میں اس کا نمایاں کردار ہے بشرطیکہ اس کا استعمال صحیح ہو رہا ہو وگرنہ یہ تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے جس کی ایک جھلک ہماری موجودہ سیاسی صورتحال بھی ہے۔
جس کے پیچھے ہماری اپنی ہی دس سالہ محنت کے ثمرات ہیں جس کے تحت ایک خاص سوچ و عمل، رویے اور مزاج کی قومی سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی۔ ریاست کے وسائل اس کی پشت پناہی پر کھڑے رہے، عدالتوں نے اسے صادق و امین کی سند دی صحافت نے اسے واحد نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا اور سوشل میڈیا کی جادوگری نے اسے امت مسلمہ کا لیڈر ڈیکلئیر کر دیا اور قوم نے ریاستی اداروں، انصاف کے عملبرداروں اور نام نہاد مدبروں کے فرمودات کی روشنی میں اسے تسلیم کر لیا۔ جس نے اسکی مخالفت کی اس کو جیلوں میں ڈال دیا گیا اور آج اس کے نتائج ہر کسی کے سامنے ہیں۔
اب اداروں کو جب اس اکھڑ، متکبرانہ اور تضحیک آمیز مزاج کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے اور وہ اس کے خاتمے کے لئے کوشاں بھی ہیں مگر ایک لمبے عرصے پر محیط محنت کے اثرات ختم ہوتے ہوتے بھی وقت درکار ہوگا۔ کیونکہ اس مزاج کی امامت میں اب عوام کی ایک کثیر تعداد لبیک کرتے ہوئے میدان عمل میں اتر چکی ہے جو اُس وقت بچے تھے وہ اب جوان ہو چکے ہیں اور ملک و قوم کا مستقبل ہیں جن میں سے کئی اہم ذمہ داریوں پر بھی فائز ہو چکے ہونگے، جو اس وقت جوان تھے وہ اب کوئی ماں تو کوئی باپ بن کر اگلی نسل کی تربیت کی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں جو سبق ان کو دیا گیا تھا وہ اب اگلی نسلوں کو منتقل کر رہے ہیں اور کئی اپنی بزرگی کے سہارے قبیلوں کی تربیت کے کارنامے سرانجام دے رہے ہونگے۔
ان کو اگلی دہائیوں تک اقتدار کے دکھائے گئے خواب اب ایک ضد بن چکے ہیں اور ان کے نزدیک اب سیاست کی تعریف ہی حصول اقتدار ہے جس پر عملداری میں وہ انتہائی اقدامات اٹھانے سے بھی گریز نہیں کر رہے اور ان کی پیدا کردہ سیاسی تفرقہ بازی، انتشاری پسندی اور عدم استحکام ملک و قوم کی جڑوں کو دیمک کی طرح کھوکلا کرنے پر پورا قابو پا چکی ہیں۔
اس سے متاثر ہونے والوں میں اچھی خاصی تعداد ایسے نام نہاد پڑھے لکھوں کی بھی ہے جو سوشل میڈیا کو آسمانی صحیفہ سمجھ کر اس کے مقدس فرمودات کو اپنے یقین کا حصہ بناتے رہے ان میں استاد، ڈاکٹر اور سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں جو معاشرے کا ایک با اثر طبقہ ہیں جو اس سیاسی تفرقہ بازی اور انتشار کا شکار ہوچکے ہیں۔ جس سے قومی سطح پر ہی نقصانات نہیں ہوئے بلکہ عالمی سطح پر ہمارا قومی تشخص بھی خراب ہوا ہے جس میں ہمارے بیرون ملک مقیم دوستوں کا بھی اچھا خاصہ ہاتھ ہے جس نے ہمارے بین الاقوامی تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔
اب انتخابات کو جس طرح سے متنازع بنا کر ایک نہ ختم ہونے والی انتشاری سیاست کو مزید طول دیا جارہے ہے جس کا آغاز یوں تو 2014 سے ہی شروع ہوگیا تھا مگر موجودہ منظرنامے کا 10 اپریل 2022 کو ایک آئینی طریقے سے ختم کی جانے والی حکومت کے بعد چند ووٹوں کے فرق والی قومی اسمبلی میں بیٹھنے کی بجائے چوک چوراہوں کی سیاست کو ترجیح دینے سے ہوا اور اپنی ہی صوبائی حکومتوں کو ختم کرکے جیلوں میں پہنچنے سے اب تک کا ہے۔
اگر ہم سمجھیں تو ہمارے لئے اس کے اندر ایک بہت بڑا سبق موجود ہے کہ کیسے اداروں اور ریاست کی باگ ڈور غلط سوچوں کے ہاتھوں میں آ جانے سے قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اس طرح کا مزاج قوموں کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے اور ان کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ جس کی مثال 9 مئی ہے جو ایک لیبیا ماڈل کی سازش تھی جس میں اِسی طرح سوشل میڈیا سے عوامی ذہنوں کو سیاسی شعور کے نام پر انسانی حقوق اور جمہوریت کے جھانسے میں نظام کے خلاف ورغلا کر آزادی کی تحریک شروع کروا کر عوام کو ریاست کے خلاف کھڑا کر دیا گیا جس کو کنٹرول کرنے کے لئے ریاست کو سخت اقدامات اٹھانے پڑے اور جانی نقصانات سے ابھرنے والے عوامی اشتعال پر حکومت کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا۔ اب 13 سال ہونے والے ہیں اور ملک خانہ جنگی کی حالت میں ہے۔ اس انتشار پسندانہ جمہوریت نے لوگوں کا جینا محال بنا دیا ہوا ہے۔
ہماری فوج کی اعلیٰ صلاحیتیوں، بروقت اقدامات اور کامیاب حکمت عملی سے 9 مئی کے فسادات پر قابو پا لیا گیا وگرنہ اگر تھوڑی سی بھی دیر ہوجاتی تو اس انتشاری سیاست کی تباہیاں جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل جاتیں اور مشتعل عوام کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا۔ ریاست کے اداروں نے اس نام نہاد شعور، جنون، آزادی اور مقبولیت کے غبارے سے موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو بروقت بند کرکے ہوا نکال دی اور ان سازشیوں کے آپس کے روابط اور نیٹ ورک کو توڑ کر ان کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ، جاہلانہ اور تباہ کن استعمال کا ظلم دیکھئے کہ کہا جاتا ہے یہ سب کچھ فوج نے خود کروایا۔ اب اس طرح کے مزاج سے عوام کے ذہنوں میں گھولے گئے زہر کا اندازہ لگا لیجئے کہ یہ کتنا خطرناک ہے اور ان کے ہم مزاج لوگ اس پر یقین کئے بیٹھے ہیں۔
کیمرے کی آنکھ نے جو شواہد اکٹھے کئے ہوئے ہیں وہ تو جھوٹ نہیں بولتے۔ جو لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنی وڈیوز وائرل کرتے رہے ان کے اپنے اکاونٹس کا ریکارڈ اور ان کے سیاسی الحاق کے شواہد موجود ہیں جن میں کوئی بھی نامعلوم نہیں بلکہ درجہ اول کی قیادت کی راہنمائی میں کارواں رواں دواں دیکھے جاسکتے ہیں۔
پھر سادہ لوح لوگوں کو دھوکہ دینے اور اپنے جرموں پر پردہ ڈالنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ مظاہرین ٹریپ ہوگئے تھے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو کس نے ٹریپ کیا؟ ان کے ٹریپ ہونے کا سبب کیا بنا؟ ان کی قیادت کس نے کی؟ ان کو یہ سوچ کسی نے دی؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جو بھی جواب تلاش کرے گا اس کو حقائق معلوم ہوجائیں گے۔
کچھ سیاسی جماعتیں محض جھوٹے بیانیے سے عوامی نفسیات کو ٹارگٹ کرکے مظلومیت کی ہمدردیوں سے عوامی سوچوں کو یرغمال بنانا اپنی کامیاب سیاسی حکمت عملی سمجھتی ہیں جس کا شکار ہوکر عوام سوشل خانہ جنگی میں مبتلا ہو جاتی ہے اور عالمی سیاست میں ایسے ہتھکنڈوں سےتیسری دنیا کو بے وقوف بنا کر جغرافیائی تبدیلیاں لائی جاتی ہیں جس کی مثال دہشتگرد تنظیمیں ہیں جو علیحدگی کی تحریکوں کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں
اب اس بیانیے کے غلط ہونے پر کوئی شک نہیں مگر ان سادہ ذہنوں کو کون یقین دلائے اور ان کو ان ملک دشمنوں کے چنگل سے نکال کر آزاد کروائے۔ اس سوشل میڈیا نے ہماری قوم کو غلام بنا لیا ہوا ہے جس کا انکو شعور کے گھمنڈ میں احساس نہیں ہو رہا اور کئی اینکرز بھی اپنی ریٹنگ کے چکر میں اس جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں جو مقبولیت کے لئے اس بے راہ روی کا شکا ہو رہے ہیں۔ ایسے نام نہاد صحافی اور سیاستدان اپنی صحافت اور سیاست کو جن خطوط پر چلا رہے ہیں اس کے نتائج انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
ایسی سوچوں کو پہچاننے کا آسان سا حل ہے کہ دیکھا جائے جب پاکستان کی سالمیت اور ساکھ کو خراب کیا جارہا ہو یا پاکستانی اداروں پر بے جا الزامات لگائے جارہے ہوں تو خوشی کا اظہار کون کرتا ہے اور ایسے لوگوں کا تعلق کن سیاسی دھڑوں سے ہے۔ ایسی سوچیں کہیں بھی پائی جاسکتی ہیں۔ ان کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ مثلاً دو دن قبل ایران کی طرف سے حملہ ہوا تو اس سے ایسی سوچیں بے نقاب ہونے لگیں جن کو پہچاننے کے لئے قوم کو شعور دینے کی ضرورت ہے اور ایسی سوچ و عمل کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسی سوچوں کے علاج کے لئے ان کی وجوہات کے گہرے مطالعہ کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان کے پیچھے کون سے اندرونی و بیرونی عوامل کارفرما ہیں۔
ایسی سوچوں سے سادہ لوح عوام تو اپنی سادگی سے یرغمال بنے ہی مگر جو اس کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئے وہ ایسا طبقہ ہے جس کو ریاست کے وسائل سے آسودہ اور خوشحال زندگی میسر تھی جن کا مسئلہ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری تھا ہی نہیں بلکہ وہ ایسے ماحول کی پیداوار تھے جن کا اس ملک کے اندر رہتے ہوئے بھی جہاں ہی اور ہے ان کی سوچیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے مزید وسائل کی تاک میں ذہنی محرومیوں کا شکار تھیں اور عوامی طاقت کے بلبوتے پروسائل پر قابض ہونے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان میں غلط معلومات کی شکار بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے جنہیں پاکستان کے حالات بارے معلومات تک رسائی میڈیا کے زریعے سے ہوتی رہی ہے۔
اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ریاست اور عوام کی سوچوں میں یکسوئی لانے کے لئے ریاستی وسائل سے مہیا تنخواہوں، وظائف اور مراعات میں امتیازی سلوک کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سب کو ایک جیسے مسائل سے واسطہ پڑے اور ان کو معلوم ہو کہ ایک عام آدمی کی زندگی کیسی ہے؟ وہ تب ہی ممکن ہے جب ان کو عام آدمی جیسی زندگی بسر کرنی پڑے گی تو۔
اس مزاج کو بدلنے کے لئے قوم کو ان بنیادی سنہری اصولوں سے متعارف کروانے کی ضرورت ہے جن سے ان کو یہ ادراک ہو کہ کبھی بد اخلاقی کو شعور، کارکردگی سے خالی نعروں کے حامل کو نجات دہندہ اور قول و فعل میں تضاد رکھنے والے کو صادق و امین نہیں کہا جسکتا۔
سیاستدانوں کو اگر اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا ہے تو پھر ان کو اپنے رویوں سے اس کا ثبوت دینا ہوگا اور اپنا قبلہ درست کرکے پختہ اور سنجیدہ سیاست کی سمت بڑھنا ہوگا۔
اس میں قصور سوشل میڈیا کا نہیں بلکہ ان کا ہے جنہوں نے سوشل میڈیا کے استعمال سے ایسی سوچوں کو اس طرف موڑا اور شعور کے نام پر جہالت کو رواج دیا اور سوشل میڈیا پر ایک ایسا محاذ کھولا جس نے پاکستان کو ایک سرد جنگ کی طرف دھکیل دیا جو انتہائی خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ قصور ہمارا بحثیت قوم بھی ہے جن کے شعور کی بنیاد قومیت نہیں بلکہ شخصیتت پرستی ہے، جس کی بنیاد عقل و دانش نہیں بلکہ مسحور کن سبز باغات ہیں جن کا حقائق سے دور دور تک کا بھی تعلق نہیں، کردار و کارکردگی نہیں بلکہ دھوکے پر مبنی وعدے اور دعوے ہیں جن کی ماضی سے کوئی مطابقت ہی نہیں۔ ہم نے سوشل میڈیا سے دھوکہ کھانے کی راہ کا انتخاب خود کیا۔ ہم نے کبھی دیکھا ہی نہیں کہ ہمیں معلومات دینے والے کی تعلیم، تجربہ یا معلومات کا زریعہ کیا ہے؟
سوشل میڈیا سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے ہماری ذہنی صلاحیتوں کا وہ معیار ہی نہیں تھا جو مثبت تبدیلی کا موجب بنتا اور کچھ اس میں کردار ہماری تعلیم و تربیت کی بنیاد پر وجود پانے والے ہمارے مزاج بھی ہیں جن کو اپنے ہم خیال مزاج کی طرف کشش محسوس ہوئی۔ جس میں دوسری جماعتوں سے مایوسی بھی ہوسکتی ہے اور کچھ نفسیاتی مسائل بھی ہیں جو ان کی محرومی کا سبب بنے ہوئے تھے اور ان کو جیسے ہی اپنی ہم مزاج سوچ ملی تو وہ کھچے چلے گئے۔
جس کا حل اب انتہائی محتاط مگر پائیدار خطوط پر ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اور اسے ٹیکنالوجی کے ماہرین کی مہارتوں سے ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اس جنگ کو سوشل میڈیا کے محاذ پر ہی لڑنا ہوگا۔ قوانین اور اختیارات کے استعمال کے ساتھ ساتھ جھوٹ، تشدد اور فسادات کے سوچ و عمل کو بے نقاب کرکے معصوم ذہنوں میں بنائے ہوئے خاکے کے بناوٹی رنگوں کو مٹا کر ان میں نئے رنگوں کو بھر کر حقیقی نقوش ابھارنا ہوں گے جس کے لئے عقل و دانش اور عوامی نفسیات کا سہارا لینے کی ضرورت ہوگی۔
وہ لوگ جو ان حقائق کو سمجھتے ہیں ان کو ریاست اور ریاست کے اداروں کا ساتھ دینا ہوگا اس وقت ان کی سربراہی ذمہ دار اور مضبوط ہاتھوں میں ہے ان کے لئے معاملات کو سنبھالنا کوئی مشکل کام نہیں لیکن وقت درکار ہے۔ ماضی میں وہ غلط سوچوں کے زیر سایہ تھے اور قومی صلاحیتوں کا استعمال غلط ہوتا رہا لیکن اب بہتر کارکردگی حالات کے بارے مثبت اشارے دی رہی ہے۔