Sunday, 15 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Abrar Majid
  4. Mubahse Ka Challenge

Mubahse Ka Challenge

مباحثے کا چیلنج

انتخابات میں ایک عشرہ باقی ہے اور انتخابات کو متنازع بنانے کے خدشات سے لے کر ایک دوسرے پر سہولت کاری اور لاڈلے پن تک کے الزامات کی بھرمار ہے اور ایسے میں انتخابات سے ممکنہ مفادات کے حصول کی کوششں پوری طرح سے کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی جس سے نہ صرف عوامی مینڈیٹ مشکوک ہوگا بلکہ ریاست کے وسائل اور مستقبل کے ترقیاتی منصوبے بھی متاثر ہونگے جو کسی بھی طرح سے ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔

میں نے بلاول بھٹو کو اپنے 3 دسمبر کے کالم میں اس طرف اشارہ دیتے ہوئے لکھا تھا "جدید جمہوری ریاستوں کا انداز سیاست اپنانا ہوگا جس میں سیاسی جماعتوں کی قیادتیں اپنے منشور اور کارکردگی کے ساتھ میڈیا پر براہ راست عوام کے سامنے پیش ہوتی ہیں اور ان کے درمیان مکالمہ بھی ہوتا ہے جسے پوری قوم سن رہی ہوتی ہے" اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کی طرف سے مسلم لیگ نون کی قیادت کو یہ چیلنج جدید مثبت جمہوری سیاست کی ترویج کی طرف بڑھتا ہوا ایک مثبت قدم ہے اور اس سے یقیناً اچھے نتائج مرتب ہونگے مگر اس میں قومی اقدار ادب، احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے۔

اب تک ساری جماعتیں اپنا منشور پیش کر چکی ہیں۔ اس براہ راست نشریات کے زریعے سے مکالمے کی سہولت سے سیاسی جماعتوں کو اپنا منشور عوام تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان پر اٹھنے والے سوالوں پر اپنے دفاع اور ان کے حقائق سے مطابقت رکھنے پر دلائل کا بھی موقعہ ملے گا اور جو جماعیتں لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کی شکائتیں کر رہی ہیں ان کا بھی شکوہ دور ہو جائے گا اور عوام کو اس سے رائے قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اعتماد بھی ملے گا۔

ویسے تو یہ سیاسی جماعتوں کو چاہیے تھا کہ وہ آپس میں مل کر کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب دیتیں جس سے آئین و قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاسکتا یا پھر عملی طور پر وہ الزامات کی سیاست کو چھوڑ کر کارکردگی کے بیانیے کے ساتھ عوام میں جاتے اور تمام سیاسی جماعتوں کے لئے لیول پلینگ فیلڈ کے لئے وہ اپنے اپنے کردار کو واضح کرتے ہوئے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کا جواب دیتیں اور سب حکومت سے یک زبان شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا کیونکہ ان کے اپنے اندر بھی ابھی تک وہ اصولی اور جمہوری اقدار والی سیاست پروان نہیں چڑھ سکی جو صحیح معنوں میں جمہوریت کی بنیاد ہوتی ہے جن کی سیاسی شعور اور اعلیٰ اخلاقیات پہلی شرط ہیں جو ہمارے اندر بحیثیت قوم ابھی یہ حل ڈھونڈنے سے قاصر ہیں۔

لہذا ایسے وقت میں جو فوری طور پر قابل عمل اور نتائج کے لحاظ سے کامیاب حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے وہ حکومت کی طرف سے قومی نشریاتی ادارے پر براہ راست تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان مکالمے کی سہولت کی فراہمی کا انتظام ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کو ہدایات چاری کرنی چاہییں کہ وہ ان خدشات کو دور کرنے کی غرض سے اپنے موقف کو دلائل کے ساتھ واضح کرنے کے لئے اپنے اپنے منشور اور سابقہ کردار و کارکردگی کی روشنی میں اپنی مستقبل کی حکمت عملی کو عوام کے سامنے رکھیں اور سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین کے درمیان مکالمہ ہوتاکہ نہ صرف ان کے اپنے خدشات دور ہوں بلکہ عوام پر ان کے جھوٹ پر مبنی سیاسی بیانیے بھی بے نقاب ہوں اور ان کے ایک دوسرے پر الزامات کے جوابات بھی ایک ہی نشست میں سننے کو ملیں تاکہ عوام حقائق کو سمجھتے ہوئے اپنے ووٹ کے حق کے زریعے سے رائے کا صحیح استعمال کر سکیں۔

ان مکالموں میں اگر ممکن ہو تو اداروں کے نمائندے بھی موجود ہوں جو سیاسی جماعتوں کے خدشات اور ان کے لئے لیول پلینگ فیلڈ کے لئے قانونی طور پر اٹھائے جانے والے اقدامات اور اس پر ادارے کی کاروائی کو بھی عوام کے سامنے رکھیں تاکہ عوامی اور سیاسی جماعتوں کی غلط فہمیاں بھی دور کی جاسکیں۔ اس سے عوام کو سیاسی جماعتوں کے قائدین کی علمی، ادبی، آئینی و قانونی، سیاسی اخلاقی سوجھ بوجھ کا بھی اندازہ ہوگا جو ہماری بہتری میں رکاوٹ کے اسباب میں سے ایک ہے۔

اس سے سوشل میڈیا کی تباہی کے نقصانات کو بھی کافی حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی اور عوام پر واضح ہو جائے گا کہ کون سی سیاسی جماعت ملک و قوم کے لئے مخلص، ان کے لئے خیر خواہ اور مستقبل کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ عوام کو اچھے اور برے میں تمیز کرنے کے لئے ماحول کی فراہمی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر ان کو سوشل میڈیا کی جادوگری والی تباہی کے نقصانات کا نشانہ بننے کا مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

جب تک عوام کو ہر طرف کے موقف تک رسائی نہ ہو ان کی سوچوں کو نیوٹرل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ سوشل میڈیا کا یہ طریقہ واردات ہے کہ اس کو اگر کسی کی دلچسپی معلوم ہو جائے خواہ غلطی سے ہی کیوں نہ ہو، تو وہ اس کی مدد کے لئے اس کو اس سے ملتا جلتا مواد بھیجنا شروع کر دیتا ہے اور اس کی سوچوں کو یقین کی حد تک پہنچا کر چھوڑتا ہے جس سے حق کو جاننے کی راہیں ہی بند ہوجاتی ہیں۔

ان خدشات، تحفظات اور شکوک و شبہات پر حکومت اور ادارے اپنا موقف بھی گاہے بگاہے دے رہے ہیں اور ان پر لگائے جانے والے الزامات کو دور کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے مگر اس کے باوجود ان سے مکمل طور پر چھٹکارہ ممکن نظر نہیں آرہا۔ بین الاقوامی جریدوں کی رپورٹس بھی حقائق کو واضح کر رہی ہیں مگر ان تک عوام کی اتنی رسائی نہیں جتنی انکی سوشل میڈیا کے زریعے سے پھیلائی جانے والے پراپیگنڈے تک ہے جس کی وجوہات میں دولت کا کمال، تکینکی مہارتیں اور کم شرح خواندگی شامل ہیں جن کے توڑ کے لئے لمبا وقت اور تحقیقی مہارتیں درکار ہے۔

اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مفرور ملزموں کے انتخابات میں حصہ لینے میں کوئی قانونی قدغن نہیں تو پھر جو جیلوں میں قید ہیں ان کو اگلے دس دنوں کے لئے پیرول پر رہائی دے دینی چاہیے تاکہ وہ اپنی انتخابی کمپین چلا سکیں اور اس سے بھی انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ کا شکوہ دور کرنے میں مدد ملے گی۔

Check Also

Khula Tazad

By Dr. Ijaz Ahmad