Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Abrar Majid
  4. Makhdoom Javed Hashmi Se Modbana Iltemas

Makhdoom Javed Hashmi Se Modbana Iltemas

مخدوم جاوید ہاشمی سے مودبانہ التماس

ہمیں آپ کی جمہوریت کے لئے قربانیوں اور خدمت سے انکار اور آپ کے نقظہ نظر پر بھی اعتراض نہیں مگر آپ کے بیانیے کا متن تو ایسا ہونا چاہیے جس کا وزن اگر اسٹیبلشمنت اپنے اوپر تنقید کی وجہ سے نہ بھی برداشت کر سکے تو کم از کم سیاسی حلقے تو اسے اٹھانے اور برداشت کرنے کے قابل ہوں۔ تب ہی اس پر غور اور اس سے کسی اصلاح کے پہلو کی توقع کی جاسکتی ہے۔

سیاست اور جمہوریت کی بہتری کے لئے آپکی جرات مندانہ سوچ و عمل اور آپکے سیاسی تجربے کا بھی موجودہ سیاسی قیادت میں کوئی ثانی نہیں ہوگا۔ آپ نے پوری زندگی سیاسی جدوجہد میں گزاری۔ سیاست کا آغاز طالب علمی کے زمانے سے کیا اور آمریت کو ہر دور میں للکارتے رہے جس کی پاداش میں تکلیفیں اٹھائیں اور جیلیوں کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

لیکن اتنی زیادہ محنت کے بعد آج بھی آپ اپنی اس آواز میں تنہا نہیں بھی تو کوئی ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہونے کی طاقت یا توانائی شائد نہیں رکھتا۔ لوگ آپ کے نظریات کی تائید کرتے ہیں مگر ساتھ کھڑے ہونے کی کوئی سعی اس لئے نہیں کر سکتا کہ آپ کے سخت بیانیے کے ساتھ چلنے میں بہت ساری مشکلات ہیں۔

آپ کی باتیں حقائق پر مبنی ہیں مگر ہمارا ان حقائق کو بیان کرنے کا اصل مطمع نظر تو ان مسائل کا حل ہے جس کو اصلاح کے زریعے سے ہی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ مگر اس کا اثر یوں مشوروں سے ہوتا ہوا اس لئے دکھائی نہیں دیتا کہ اس کے لئے حالات سازگار نہیں۔

اصلاح کے احوال تب ہی پیدا ہوسکتے ہیں جب کوئی ان مشوروں پر کان دھرے گا تو اس کے لئے ہمیں حالات کے اندر رہ کر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک جمہوری ہونے کے ناطے پہلی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ سیاسی حلقوں کے اندر وہ صلاحیت پیدا کی جائے۔ سیاستدانوں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جس سے اتفاق، محبت اور یکسوئی سے اصولی سیاست پر چلتے ہوئے جمہوریت کو مضبوط کیا جاسکے۔ اس کے لئے سیاسی جماعتوں کے اندر موجود اچھی سوچ والے لوگوں کو ساتھ ملا کر پر امن طور پر آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے کوشش کی ضرورت ہے۔

مثلاً جب آپ مسلم لیگ کو چھوڑ کر جمہوریت کی خاطر تحریک انصاف کے ساتھ ملے تھے تو وہاں بھی ان کی طرز سیاست نے آپ کو مایوس کیا جس سے آپ کو وہاں سے بھی کنارہ کرنا پڑا جس کی وجہ یہ تھی کہ اس جماعت کا ماحول ابھی اصولی سیاست کو قبول کرنے کے قابل نہیں تھا تو اس کے لئے ضرورت اس امر کی تھی کہ وہاں کے ماحول کو اس قابل بنایا جاتا جو اصولی سیاست اور جمہوری اقدار کو اپنے اندر پنپنے کے قابل بن جاتا اور ایسا کردار اس ماحول کے اندر رہ کر ہی ادا کیا جاسکتا تھا جو نہ ہوسکا۔ تو اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مسائل کے بارے سوچا جائے جو جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اداروں کی مداخلت کا پہلو بھی بہت اہم ہے اور یہ بیانیہ بھی درست ہے کہ جمہوریت کو چلنے نہیں دیا گیا اور سیاستدانوں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا مگر جب مد مقابل کے آمنے سامنے کھڑے ہوں تو اس طرح کے جواز اور اعتراضات کوئی وزن نہیں رکھتے بلکہ حکمت عملی سے مد مقابل کے تدبیروں پر حاوی ہوکر جیت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

جس کے لئے پہلے اپنی صفوں میں اتحاد پید کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے، اداروں میں بیٹھے ہوئے صاحب اختیار لوگوں سے، زیادہ وہ سیاستدان قصور وار ہیں جنہوں نے جمہوریت کے ساتھ غداری کی۔

ریاست کا سب سے بالادست ادارہ پارلیمان ہے جو ریاست کے معاملات کا ضابطہ ترتیب دینے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس کو چاہیے کہ وہ پہلے ایسی اصلاحات لائے جن سے جمہوریت کو مضبوط بننے کا بندوبست کیا جاسکے اور ان مسائل کا حل ڈھونڈا جائے جو جمہوریت کی مضبوطی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اس کے لئے سیاستدانون کی صلاحیتوں کو بڑھانے کی ساتھ ساتھ اس بارے کردار ادا کرنے والے اداروں کو مضبوط بنانے کی بھی ضرورت ہے جو جمہوریت کو مضبوط بنانے میں سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو یقینی بنائیں۔

اس کے لئے اداروں سے بڑھ کر کردار ہر جماعت کے اندر موجود قیادت اور ارکان کا بھی ہے کہ وہ اپنی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں جو اس جماعت کا حصہ رہ کر ہی بہتر ادا کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح سے ایس بابر تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ کے خلاف ایکشن لینے کے لئے ڈٹے رہے اور آخر بارہ سال کے بعد ان کو انصاف ملا اور اب وہ انٹرا پارٹی انتخابات کو بھی الیکشن کمیشن میں چیلنج کرکے اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ اس سے ان کو کسی عہدہ کے حصول کی کوئی امید تو نہیں مگر اس سے وہ جماعت کے اندر جمہوریت لانے میں اپنی حیثیت کے مطابق اپنا کردار تو ادا کر سکتے ہیں جس کے یقیناً مثبت اثرات مرتب ہونگے اور ان کو دیکھ کر دوسری جماعتوں کے اندر بھی شعور اجاگر ہوگا اور باقی سیاسی جماعتوں کے ارکان بھی جماعتی قیادت کو جمہوریت سے ہم آہنگ بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے میں ترغیب حاصل کریں گے۔

لہذا ہمیں محض اداروں کے سربراہاں پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اسباب کو ٹھیک کرنے پر محنت کرنے کی ضرورت ہے اور جس بھی ادارے کے اندر کوئی جس بھی عہدے پر بیٹھا ہوا ہے وہ اسی دھرتی کا سپوت ہے اور اس کی تربیت ہمارے ہی ملک و قوم کے کسی خاندان، معاشرے، تعلیمی ادارے یا اس کی پیشہ وارانہ تربیت کے ادارے نے کی ہوئی ہے۔ جو ان کے اندر یہ احساس پیدا کرنے یں ناکام رہے ہیں کہ ہم سب اسی ریاست کے وسائل کی بدولت اختیارات کی طاقت کے مالک ہیں جن کو فراہم کرنے کا مقصد ملک و قوم کی فلاح کے لئے اپنے فرائض کی ادائیگی ہے نہ کہ ذاتی مفادات کی تکمیل۔

مگر مسئلہ تب بنتا ہے جب ان اختیارات اور وسائل کا استعمال غلطی سے یا جان بوجھ کر نقصان کا سبب بنتا ہے۔ اس میں زیادہ تر کردار ہماری ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے والی سوچ و عمل کا بنتا ہے جس سے بچنے کی تدبیر ایک تو صحیح تربیت سے کی جا سکتی ہے اور دوسری احتساب کے عمل سے۔ پہلی تدبیر کی ذمہ دار پوری قوم ہے اور دوسری کی ذمہ دار ریاست ہے۔ جس کو بنانے اور لاگو کرنے کی ذمہ داری، جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا، پارلیمان کی ہے۔

جس کے ممبران بھی اسی دھرتی کے سپوت ہیں اور ان کی تربیت کا عمل بھی وہیں ہوا ہے جہاں دوسرے اداروں کے سربراہاں یا اہلکاروں کا ہوا ہے۔ تو پھر پہلی صورت تو یہاں بھی یہی بنتی ہے کہ ان کی تربیت ہو اور ان کے اندر ایسی صلاحیتیں پیدا کی جاسکیں کہ وہ ایسے مسائل کا حل ڈھونڈنے کے قابل ہوجائیں جس میں ہمارے گھر سے لے کر سیاسی جماعتوں تک کا کردار ہے۔

اب اسی بحث کو سمجھنے کے لئے ایک سیاسی کیس سٹڈی پر بات کر لیتے ہیں۔ اگر ہم پچھلی ایک دہائی کے سیاسی احوال کا جائزہ لیں جس کا اختتام ایک سیاسی جماعت کا پارلیمان سے فرار ہوکر چوک چوراہوں کی سیاست سے ہوتا ہوا سیاسی عدم استحکام پیدا کرتے ہوئے آخری منزل جیل پر ہوتا ہے اور اب وہ برابری کی بنیاد پر انتخابات میں شرکت کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جبکہ وہ پچھلے دس سالوں میں سیاست میں اپنے کردار کی بے اصولیاں اور اپنے ذمہ جمہوری جرائم بھول چکے ہیں۔ تو کیا اس سارے منظرنامے میں ان کو ان کی غلطیوں کا احساس دلانے اور سمجھانے میں کوئی کسر کسی نے چھوڑی ہے مگر آخر نتائج نے کیا صورتحال اختیار کی اور ان کا حل کیا ہوا یا ابھی جاری ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے ابھی تک بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ کیا ایسی ہی غلطیوں سے پہلے ملک دو لخت نہیں ہوا مگر اس سے ہمیں کوئی سبق نہیں ملا تو اس کا حل کیسے اور کہاں سے تلاش کیا جاسکتا ہے؟ کیا اس میں اوپر کی گئی بحث کے علاوہ کوئی اور چارہ جوئی یا اس کے علاوہ کوئی اور منطق بھی ہے؟

جب قوموں کے اندر جہالت اس قدر بڑھ جائے کہ وہ اس کے بگاڑ کا اندازہ لگانے سے بھی قاصر ہوں بلکہ اس کو عقلمندی سمجھ رہی ہوں تو پھر ایسی قوموں کے بحرانوں کا حل سختی کے سوال کوئی اور نہیں رہتا جس کے لئے پھر ریاست کو علمی طرز اصلاح کے ساتھ ساتھ عملی طور پر باز رکھنے کے لئے اقدامات اٹھانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور جب اس سے بھی اطوار میں فرق پڑنے کی بجائے یہ خطرہ محسوس ہورہا ہوکہ جب بھی آزادانہ چھوڑا گیا تو وہی عدم استحکام کے حالات پھر سے پلٹنے کا ڈر ہے تو پھر ایسے میں ان اقدامات کے تسلسل کو جاری رکھنا بھی مجبوری بن جاتا ہے۔ جس کا کسی کو شوق بھلے نہ ہو مگر اس کے بغیر کوئی اور چارہ بھی تو نہیں رہتا۔

جب مذاکرات کی بجائے انتشار اور مکالمے کی بجائے گریبان تک آنے کی نوبت آجائے اور جمہوریت کو آئین و قانون کے مد مقابل اور قوم کو ریاست کے مد مقابل کھڑا کرنے تک حالات پہنچ جائیں تو پھر ریاستی اداروں اور قانون کے حرکت میں لانے کی قومی و ریاستی ذمہ داری بن جاتی ہے۔

Check Also

Muasharti Zawal

By Salman Aslam