Aeen Ki Hukumrani
آئین کی حکمرانی
پاکستان کی تاریخ میں بڑے انتخابات ہوئے، بڑے بڑے اتحاد بنے اور ان کے نتیجے میں حکومتیں بھی بنتی اور گرتی رہیں حتیٰ کہ ملک بھی دو لخت ہوگیا لیکن ہم آج تک اس راہ پر گامزن نہیں ہوسکے جسکا ہم نے متفقہ طور پر 1973 کے آئین میں تعین کیا تھا۔
یوں تو 1973 کے آئین سے قبل بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ قابل فخر نہیں رہی مگر اسکے بعد جو کچھ اس ملک اور آئین کے ساتھ ہوا وہ انتہائی قابل افسوس ہیں۔ تاریخی حقائق تو ہم ہر روز سنتے، پڑھتے اور دیکھتے رہتے ہیں مگر اصل بات تو یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ان تمام مسائل خواہ وہ معیشت کی خرابی ہو، امن عامہ کا مسئلہ، سیاسی عدم استحکام ہو یا بدعنوانی ان کی وجوہات کی بنیاد آئین پاکستان سے روگردانی کرکے ریاست کے ساتھ بے وفائی ہے۔
Article 5 of the constitution of Pakistan reads:
(1) Loyalty to State and obedience to Constitution and law.
(2) Loyalty to the State is the basic duty of every citizen wherever he may be and of every other person for time being within Pakistan.
آئین کا آرٹیکل 5 ہر شہری کو آئین کی فرمانبرداری اور ملک سے وفاداری کا پابند بناتا ہے۔ اور اب میں سمجھتا ہوں کہ اگر تو ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی اس متعین کردہ راہ پر چل کر ملک و قوم کا سر دنیا میں بلند کرنا ہے تو پھر آج سے اسی طرح متفقہ طور پر جیسے یہ آئین کہتا ہے اس کی روح کے مطابق اس کی فرمانبرداری کو یقینی بنانے کا تحیہ کرنا ہوگا۔
اس کے لئے جو آج سازگار ماحول میسر ہے وہ شائد پہلے کبھی نہیں ملا۔ آج ادارے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے ان کا ازالہ کرنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے اندر پہلی بار خود احتسابی کا عمل جاری ہے اور سپریم کورٹ مکمل طور پر انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کا عندیہ دے چکی ہے۔ میڈیا کو ہر طرح کی بے یقینی کی بات کرنے سے منع کیا گیا۔ ماضی کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے تجربات کی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھنے کا عندیہ دیا۔
سپریم کورٹ سے ابھرنے والی آوازیں آئین اور پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے آئین کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ کے راستے کو بند کرنے کا تحیہ کئے ہوئے دکھائی دے رہی ہے جس کی گواہی ان کے فیصلے دے رہے ہیں۔ اگر عدلیہ غیر آئینی اقدامات پر سمجھوتہ نہ کرے تو کوئی بھی ادارہ آئین و قانون سے ہٹ کر نہیں چل سکتا۔
جہاں ادارے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ازالے کے لئے کوشاں ہیں وہاں سیاستدانوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں سے باز رہنے کے لئے کوئی میثاق وحدنیت پر یکجا ہو کر جمہوری اقدار اور اصولی سیاست کو اپنانے کا عہد کریں جس کے تحت وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آج کے بعد وہ کسی طرح کے بھی غیر آئینی اقدمات کو اپنا کندھا مہیا نہیں کریں گے اور جو سیاسی جماعت یا سیاستدان اس معاہدے میں شرکت نہیں کرتا اس کا عوام کو محاسبہ کرنا چاہیے۔
پچھلی دس سالہ سیاست نے تو ہماری آئینی و جمہوری اساس کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس کے نتیجے میں وجود پانے والے سیاسی عدم استحکام نے نہ صرف معیشت اور معاشرت کا ستیاناس کیا بلکہ ہمارے مستقبل کو بھی خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ بڑی مشکل سے حالات قابو میں آئے ہیں اور اس وقت بہتری کے لئے سازگار ماحول پیدا ہوچکا ہے اور فوراً ایک مضبوط جمہوری حکومت کاتقاضہ کر رہا ہے جو اصلاحات سے اس ماحول کو پائیدار اور مضبوط بنائے تاکہ مستقبل کے خطرات سے محفوظ رہا جاسکے۔
آج ہم اداروں کے سربراہان کی سوچوں میں جو ذہانت کی جھلک، عمل میں قوم و ملک کی فلاح کا درد اور آنکھوں میں امیدوں کی کرن دیکھ رہے ہیں اس کی قدر ہونی چاہیے۔ خدشات کی راہوں کو بند کرنا ہوگا۔ اداروں سے نفرت پیدا کرکے ریاست کو مضبوط نہیں بنایا جاسکتا۔ اداروں کو پختہ سوچوں کی سپردگی کے اس ماحول کو جاری رکھنے کے لئے عوام، اداروں اور سیاستدانون میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ماضی کی قومی بیوقوفیوں سے باز رہتے ہوئے اپنے اندر یہ احساس جگانا ہوگا کہ ہم سب کو میسر سہولتیں اس ریاست کے وسائل اور آزادی سے مشروط ہیں جن کے استعمال کا اختیار ہماری اجتماعی فلاح سے منسوب ہے اور اگر ہم اس کو پھر سے ماضی کی طرح ذاتی مفادات پر وارنے لگ گئے تو پھر اسی پرانے گڑھے میں جا گریں گے۔
ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے حالات ہماری تربیت و معاشرت کے عکاس ہیں۔ کوئی جس بھی عہدے پر بیٹھا ہے، وہ خواہ چیف جسٹس کا ہو، چیف آف آرمی سٹاف کا ہو، وزیر اعظم کا ہو یا صدر پاکستان کا وہ کوئی غیر نہیں ہم میں سے ہی ہے اور ہمارے اچھے اور برے حالات کا سبب ہماری سوچیں ہیں۔ جب ان عہدوں پر اچھی سوچ براجمان ہوتی ہیں تو اچھے نتائج آنا شروع ہوجاتے ہیں اور جب ذاتی مفادات کو ترجیح دینےوالی سوچ براجماں ہوتی ہے تو تباہی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ لہذا ہمیں بحثیت قوم اس پر غور وفکر کرکے اس کی وجوہات کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پراعلیٰ اخلاقیات اور سیاسی شعور کو اجاگر کرکے یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہےکہ ریاست کے وسائل، مراعات اور سہولتیں ملک و قوم کی ملکیت ہیں اور ان کا مقصد ذاتی مفادات کا حصول نہیں بلکہ آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور ملک و قوم کی خوشحالی ہے اور ان میں کسی بھی طرح کی کوتاہی ایک قومی جرم ہے۔
صحافت کے شعبہ کو ایک واچ ڈاگ کا کردار ادا کرتے ہوئے عوام، سیاستدانوں اور اداروں کو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی ہر پل یاد دہانی کروانے کی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔ ریاستی اداروں کو آئینی طور پر فعال بنانے اور آئین پر عمل درآمد کروانے کے لئے اخلاقی دباؤ بڑھانا ہوگا۔ جہاں جہاں بھی کمزوریاں نظرآئیں انکی اچھے انداز میں نشاندہی کرکے درستگی کی کوشش کی جائے۔
صحافت ایک بہت ہی ذمہ دارانہ شعبہ ہے۔ میں مانتا ہوں کہ کبھی کبھی ان کو حالات سے مجبور شکوک و شبہات اور خدشات کا سہارا لیتے ہوئے بہتری کی راہیں تلاش کرنی پڑتی ہیں مگر ان خدشات کی کوئی ٹھوس بنیاد اور اس کے پیچھے اصلاح کا پہلو ہونا چاہیے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ صحافت کا شعبہ پیشہ وارانہ ماہرین کی بجائے مفاد پرست کاروباری لوگوں کے ہتھے چڑھ چکا ہے اور خدشات کا جو طویل سلسلہ شروع ہے اس سے تو انتخابات انعقاد سے پہلے ہی متازع ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جس سے ان کا اصل مقصد ہی اپنی افادیت کھوتا چلا جارہا ہے۔
جس کی وجوہات میں سے ایک وجہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی طرف سے خاموشی بھی ہے جس سے نہ صرف ایسے بیانیے کو تقویت مل رہی ہے بلکہ مشتبہ سازشوں کی حوصلہ افزائی بھی ہورہی ہے۔ جن میں انتخابات کو ملتوی کروانے کی کوششیں بھی جاری ہیں جن میں سے ایک کو کل سپریم کورٹ نے ناکام بنا کر انتخابات کا شیڈیول بھی جاری کروادیا ہے۔ جمہوریت کو ڈیل ریل کرنے والے چاہتے ہیں کہ اس ماحول کو خواہ مخواہ کے بکھیڑوں میں ڈال کر وقت ضائع کر دیا جائے اور بہتری کا عمل شروع ہی نہ ہو پائے۔
لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے بیانیوں کی تحقیقات کروایں اور متعلقہ اداروں کو حرکت میں لا کر ضابطہ اخلاق کی پابندی کروائیں تاکہ صحافت کو ریگولرائز کرکے ذمہ دارانہ رویوں کو یقینی بنایا جاسکے اور اگر کسی سازشی تھیوری کے ثبوت ملیں تو ان پر ایکشن لیا جانا چاہیے۔
الیکشن کمیشن کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کی افواہوں، خدشات اور شکوک و شبہات پر ایسے لوگوں سے جاننے کی کوشش کریں اور اگر کہیں تحفظات موجود ہوں تو ان کو دور کیا جائے اور اگر محض الزامات ہوں تو پھر ان کے خاتمے کے لئے حکومت اور متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ ایسے خدشات کا خاتمہ کرکے متنازع بنائے جانے والے عوامل کو ختم کروایں۔
ان خدشات کی بھی بنیاد ہماری سیاست کے اندر ماضی کے واقعات بھی ہیں مگر اب ملک و قوم کی ترقی و فلاح یہ تقاضہ کر رہی ہے کہ ان کو بھلا کر آگے بڑھنے کی نئی راہیں تلاش کی جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں جس نے خوشحالی و ترقی کے لئے محنت کی ہوئی ہو اس کو ضائع ہونے کا افسوس بھی لگتا ہے مگر ان سب کا حل اب آئین کی حکمرانی میں ہی ہے۔ اب ان زیادتیوں اور غلطیوں کا انتقام جمہوریت اور آئینی کی حکمرانی کے ماحول کو یقینی بنا کر ہی لیا جاسکتا ہے۔ اب یہی نعرہ وقت کا تقاضہ بھی ہے اور سارے نقصانوں کا بدل بھی۔
اگلے ایک سے تین سال انتہائی اہم ہیں جن میں نہ صرف سیاسی عدم استحکام کو پابند رکھنے کا ایک خاص بندوبست اور ماحول بلکہ عدلیہ کی طرف سے بھی پارلیمان کی بالا دستی کو تسلیم کئے جانے کا ایک محفوظ آئینی دفاعی حق میسر ہوگا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے مقدمے کی سماعت کے دوران پارلیمان کی بالادستی اور قانون بنانے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس کی پاسداری کے لئے ماحول سے فائدہ اٹھانے کے لئے سیاستدانوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ایسے مواقع بہت کم ملتے ہیں اور اگر اس دفعہ بھی ضائع کر دیا گیا تو پھر اس کے ذمہ دار سیاستدان خود ہونگے۔ آئین سے بے وفائی کے طعنے صرف اسٹیبلشمنٹ کو ہی نہ دئے جائیں بلکہ صحافت، عدالت، سیاست اور بلاغت کہیں بھی ہمیں آئین کی روح مطمئن نظر نہیں آتی۔
سب سے بڑی ذمہ داری سیاسی جماعتوں کی بنتی ہے کہ وہ آپس میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کریں تاکہ نہ صرف انتخابات کے وقت پر انعقاد کو یقینی بنایا جاسکے بلکہ اس کے نتائج کو بھی شفاف اور غیر جانبدارانہ بنا کر متنازع بنانے والی سازشوں کو ناکام بنایا جائے۔
اس کے لئے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو ماضی کے اختلافات پس پشت ڈال کر کوئی ایسا فارمولا بنانا ہوگا جس سے ہر سیاسی جماعت کو اس کے مینڈیٹ کے مطابق عوامی خدمت کے حق کو یقینی بنایا جاسکے تاکہ اقتدار کی جنگ کا خبط ذہنوں سے نکل سکے اور سب ملک و قوم کی فلاح کی خاطر اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر انسانیت کی بقاء اور خدمت کے لئے کمر بستہ ہو سکیں۔
لہذا اس کے لئے ضروری ہے کہ سب مل کر ان انتخابات کو آئین کی حکمرانی کے منشور سے منصوب بنائیں۔ کیونکہ ریاستوں کے اندر امن، ترقی اور خوشحال کا ضمانت آئین کی حکمرانی سے ہی یقینی بنائی جاسکتی ہے اور یہی ایک پائیدار ترقی و خوشحالی کی راہ ہے جسے ہمارا آئین متعین کرتا ہے اور وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے پوری قوم کو متحد ہوکر آگے بڑھنا ہوگا۔ آئین ہی قوموں کے اتحاد اور یگانگت کی علامت ہوتا ہے۔
اس کے لئے نواز شریف کا انتخابی اتحاد کا فارمولا جو سیٹوں کی ایڈ جسٹمنٹ کی بنیاد پر جاری ہے بہترین حکمت عملی ہے اور اس کو انتخابات کے نتائج کی مطابقت سے بھی جوڑا جاسکتا ہے۔ مگر سیاسی حلقوں کو اس عہد پر حلف لینا ہوگا کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرتے ہوئے ملک کو امن و خوشحالی کا گہوارہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور ملک کے آئین کی بالا دستی کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیں گے اور اس میثاق پر بلا تفریق سب جماعتوں کو شرکت کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔
ہمیں اپنی قومی صلاحیتوں کو آپس کی کشمکش میں ضائع کرنے کی بجائے ملک میں امن و خوشحالی کے خواب کو پورا کرنے پر صرف کرنے کا اعادہ کرنا ہوگا۔ ذاتی کشمکش سے نکلنے کا حل یہ ہے کہ ذاتی مفادات اور خواہشات کی سوچوں کےدائرے کو بڑھا کر ملک و قوم اور انسانیت کی فلاح تک وسیع کر لیا جائے۔