Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Ali Durrani/
  4. Galam Galoch Ka Culture Aur Tehreek e Insaf

Galam Galoch Ka Culture Aur Tehreek e Insaf

گالم گلوچ کا کلچر اور تحریک انصاف

اگر آپ پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور پاکستان کی مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے کوئی کام شروع کرتے ہیں یا پاکستان کی موجودہ حالات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں یا سپورٹر سے بات کریں وہ جو بھی مشورہ آپ کو دیں آپ اس مشورے کے خلاف کام شروع کریں اس طرح پاکستان کے حالات بہتر ہونگے۔ ورنہ کبھی بھی نہیں۔

تحریک انصاف جب سے سیاست میں آئی ہے اس نے پاکستان کی سیاست کو تباہ و برباد کر دیا۔ یہ بات بالکل بھی غیر مناسب نہیں ہے۔ تحریک انصاف نے پاکستان سے سیاست کا جنازہ نکال دیا۔ تحریک انصاف جب حکومت میں نہیں تھی تو اس وقت سیاست میں گالم گلوچ کا کلچر بھی نہیں تھا۔ اس زمانے میں سیاستدان ایک دوسرے کو گالیاں نہیں دیتے تھے اور نہ سیاسی پارٹیوں کے لوگ ایک دوسرے کو گالی دیتے تھے۔ تحریک انصاف حکومت سے پہلے ملک میں امن اور خوشحالی تھی۔

لوگ ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے صحافی حضرات بھی صحافت کرتے تھے۔ اور بھی بہت سی چیزیں جو درست سمت میں گامزن تھیں ایسے میں پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار مل گیا۔ جس دن تحریک انصاف کی حکومت شروع ہوئی اس دن پاکستان سے عزت و احترام، سیاست، جمہوریت، ترقی و خوشحالی کا جنازہ نکل گیا۔ عمران خان دور حکومت سے پہلے ملک میں امن تھا سب خوش تھے مہنگائی نہیں تھی۔

آٹے، بجلی، گیس اور اشیاء خوردونوش کا بحران نہیں تھا لیکن عمران خان کو بہت شوق تھا کہ میں بھی وزیراعظم بن جاؤں تو عمران خان میدان میں نکلا، ہر جگہ اس نے جلسے شروع کیے ان جلسوں میں انہوں نے نوجوان نسل کو ٹارگٹ کیا خاص کر ٹین ایجرز کو انہوں نے ٹارگٹ کیا۔ عمران خان نے ساری عمر کرکٹ میں گزاری ہے تو اس کا مائنڈ سیٹ بھی ایک کھلاڑی جیسا تھا اور ہے۔ مطلب سیاست سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے اور اس نے سیاست کو کرکٹ سمجھ کر اپنا منصوبہ شروع کیا۔

ٹین ایجرز کو اس نے اس لیے ٹارگٹ کیا کہ اس عمر کے لڑکے اور لڑکیاں ذہنی طور پر مضبوط نہیں ہوتے بہت آسانی کے ساتھ ان کا ذہن و سوچ تبدیل ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس عمر میں شعور کمزور ہوتا ہے اور ایک جذباتی تقریر سے بھی اس عمر کے لوگوں کا ذہن تبدیل ہو جاتا ہے تو عمران خان نے اس مخصوص عمر کے لوگوں کا انتخاب اس لیے کیا تھا۔ عمران خان سٹیج پر یہ دو باتیں کرتے تھے ایک یہ کہ میں نے ورلڈ کپ جیتا ہے دوسری بات میں نے شوکت خانم ہسپتال بنایا ہے۔

اس کے علاوہ وہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو گالیاں دیتے تھے اس کو غدار اور ملک دشمن قرار دیتے تھے اور بہت جذبے کے ساتھ سٹیج پر کھڑے ہو کر یہ بات کرتے تھے کہ جب بھی میری حکومت آۓ گی میں سب سے پہلے ملک سےکرپشن ختم کر دونگا اور مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے جو چوری کی ہے ان دونوں سے وہ پیسہ واپس لونگا ان باتوں کو سننے کے لیے نوجوان جلسوں میں آتے تھے۔ وقت گزرتا گیا اور سنہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں تحریک انصاف کو اقتدار ملا۔

حکومت میں آنے کے بعد عمران خان نے ہر جگہ پر یوٹرن لیا اور کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا بلکہ اپنے وعدوں کے خلاف کام شروع کیا اس طرح تحریک انصاف دور میں مہنگائی بھی بڑھ گئی اور آئی ایم ایف سے عمران خان نے اتنے قرضے لیے جتنے ستر سال میں کسی دوسرے وزیراعظم نے نہیں لیے تھے۔ پھر عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو گھر بھیج دیا اور پی ڈی ایم کی حکومت آئی۔ تب سے عمران خان روز کوئی نہ کوئی ڈرامہ کرتا ہے کبھی کہتا ہے میری جان کو خطرہ ہے کبھی کیا کہتا ہے کبھی کیا۔

لیکن وہ نوجوان جو عمران خان کی گالم گلوچ والی تقاریر سنتے تھے، اب وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کیا برا ہے اور کیا اچھا بس روز سوشل میڈیا پر صحافیوں اور حکومت کو صرف گالیاں دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے ذہن میں وہ دس سالہ پرانی عمران خان کی باتیں موجود ہیں اور وہ فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ عمران خان ایک اچھا اور ذہین سیاستدان اور باقی سیاست دان چور ڈاکو ہیں۔ سوشل میڈیا کے علاوہ بھی وہ عام زندگی، غم، خوشی، بازاروں اور یونیورسٹی میں یہی باتیں کرتے ہیں باتیں نہیں بلکہ حکومت کو گالیاں دیتے ہیں۔

حتیٰ کہ ان تحریک انصاف کے کارکنوں نے فوج اور جرنیلوں کو بھی نہیں چھوڑا، سرعام بازاروں میں دوران احتجاج ان کو گالیاں دیتے ہیں ان جرنیلوں کو غلط القابات سے پکارتے ہیں۔ ہر احتجاج میں یہ لوگ اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف حکومت سے پہلے صحافی صرف صحافت کرتے تھے کسی سیاسی جماعت کے حق میں نہیں لکھتے اور نہ ٹیلی ویژن ٹاک شو میں بات کرتے بلکہ حقیقت بیان کرتے۔

آج کے دور میں صحافت بہت کم ہے اس کا کریڈیٹ بھی عمران خان کو جاتا ہے کیونکہ عمران خان دور حکومت میں صحافت میں ایسے بندے آۓ تھے جو صحافت کی الف ب تک نہیں جانتے تھے اور سارا دن عمران خان کے حق میں باتیں کرتے تھے۔ بغیر کسی ثبوت کے یہ لوگ ٹی وی پر بیٹھ کے عجیب و غریب قسم کی باتیں کرتے تھے اس وقت جب کوئی سیاسی جماعت تحریک انصاف حکومت پر تنقید کرتی تو یہ براۓ نام صحافی ان سیاست دانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ان پر بے بنیاد الزامات لگاتے تھے۔

آج ملک میں پی ڈی ایم کی حکومت ہے اور وہی برائے نام صحافی ٹی وی پر عمران خان کی حق میں باتیں کرتے ہیں اس کے علاوہ ان براۓ نام صحافیوں کے اپنے یوٹیوب چینلز بھی ہیں اور ان کے ذریعے وہ نوجوانوں کی برین واشنگ کرتے ہیں کسی طریقے سے ان کو غلط انفارمیشن دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج کے دور میں ہر بندے کے پاس گالیاں دینے کے سوا کچھ نہیں ہے اگر کوئی بندہ ثبوت کے ساتھ ان نوجوانوں سے گفتگو کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ان لوگوں کے پاس گالیوں کے سوا کچھ ہوتا نہیں تو یہ لوگ گالیاں دینے پر اتر آتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو گالم گلوچ والا کلچر تحریک انصاف نے بنایا تھا اس کو کیسے ختم کیا جائے؟ کیونکہ اگر یہ کلچر ختم نہیں ہوگا اور روز بروز یہ اور بھی زیادہ وسیع ہوگا جس طرح آج کے دور میں ہو رہا ہے تو ہمارے معاشرے میں جو عزت و احترام باقی رہ گیا ہے وہ بھی ختم کر دے گا۔ اس کلچر میں جو جو افراد شامل ہیں وہ ذہنی طور پر پختہ نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں کا شعور پختہ نہیں ان لوگوں کو اگر ذہنی و شعوری طور پر پختہ کیا جائے اور ان کو صحیح اور غلط کا فرق بتا دیا جائے تو یہ کلچر کچھ حد تک ختم ہوسکتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے اس کہ جو لوگ اس کلچر کو پروموٹ کر رہے ہیں اور ان کو معلوم بھی ہے مطلب وہ صحیح و غلط میں تمیز کر سکتے ہیں سب سے پہلے ان لوگوں درمیان سے ہٹانا ضروری ہے۔ ان میں اگر کوئی ایسے بندے شامل ہے جو میڈیا کے ذریعے اس کو پروموٹ کر رہے ہیں اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں یا کوئی سیاسی بندہ اس کلچر کو فروغ دینے میں کردار ادا کر رہا ہے اس کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرنا ضروری ہے۔ جب یہ دو لوگ ختم ہونگے تب یہ کلچر بھی ختم ہوگا۔

Check Also

Faizabad Ka Stop

By Naveed Khalid Tarar