Nirale Log, Nirali Kahanian
نرائے لوگ، نرالی کہانیاں

کل لاہور کتاب میلہ میں دوسری بار گیا۔ وقت کم تھا، چکر ہی لگایا مگر خوش قسمتی سے بک کارنر جہلم سے رئوف کلاسرہ کی تازہ کتاب نرالے لوگ، نرالی کہانیاں مل گئیں۔ بہت دلچسپ کتاب ہے۔ اسے پڑھنا شروع کر دیا ہے اور بیشتر حصہ پڑھ بھی لیا۔ ایسی رواں، دلچسپ اور متنوع واقعات سے بھرپور کتاب آپ لوگوں کو بھی ضرور پڑھنی چاہیے۔ کلاسرہ نے اپنے محترم دوست ابراہیم جنید مہار کی بیان کردہ چار پانچ کہانیاں بیان کی ہیں، کتاب کے آخری حصے میں یہ ہیں۔ وہ پہلے پڑھ ڈالیں۔ اس کتاب کی چند کہانیاں پہلے کالم کی شکل میں یا فیس بک پوسٹ کی صورت میں پڑھی تھیں، مگر زیادہ تر نئی اور غیر مطبوعہ ہیں۔
کتاب پڑھتے ہوئے عجیب حالت ہوئی۔ کئی ایسے چہرے نظر کے سامنے گھوم گئے جن سے میں لاہور میں ہوتے ہوئے بھی اپنے تساہل یا نجانے کس وجہ سے نہ مل سکا۔ شائد ہم سب کا اپنا ایک خاص دائرہ ہوتا ہے اور اسی دائرے میں ہم حرکت کرتے رہتے ہیں، کوئی خاص واقعہ، اتفاق یا پھر کسی دوست کی وجہ سے اپنے دائرے سے باہر نکل کر دوسرے دائرے میں داخل ہونے کا موقعہ مل جاتا ہے۔
ایکسپریس اخبار کا دفتر ڈان کے دفتر کے قریب رہا، کئی برسوں تک۔ ظفر اقبال مرزا جو زم کے نام سے مشہور تھے، ان کے بارے میں بہت سنا، ڈان کے دفتر وہ روز آتے تھے مگر کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ رئوف کلاسرا نے ان کا خوبصورت تذکرہ کیا۔ ویسے تو میں حسین نقی، سلیم الرحمن صاحب سے بھی ابھی تک نہیں مل سکتا، حالانکہ چھوٹے بھائیوں سے جیسے پیارے محمود الحسن کا ان سے بہت قریبی اور گہرا تعلق ہے۔
کتاب پڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جب لاہور آیا تو آج والا حال نہیں تھا، ابھی شہر میں بہت سے نامور، قدآور لوگ موجود تھے، ان میں سے بعض سے رابطہ اور تعلق رہا اور کئی لیجنڈز سے میں ملنے جا ہی نہیں سکا۔ اب اس کی وجہ اپنی سستی تھی، ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا تھا (میں نے بائیک بہت بعد میں سیکھی اور گاڑی چلانا تو ابھی پانچ سات سال پہلے)۔ بہرحال یہ کتاب پڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ بہت کچھ مس کر دیا۔ شائد یہ مقسوم تھا۔
رئوف کلاسرا کی کتاب پڑھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ اب ان کا حلقہ اب بتدریج محدود ہورہا ہے، مختلف وجوہات کی بنا پر یا شائد بعض تلخ تجربات کے باعث اب ان کا حلقہ بھی شائد سکڑ گیا ہے۔ یہ ہم سب کا معاملہ ہے شائد، خاص کر پچاس سال کے بعد بہت سوں سے ملنے کا جی ہی نہیں چاہتا، آدمی کے اندر ایک خاص قسم کی مردم بیزاری کہیں یا درویشی یا قناعت یا جو بھی اسے کہیں در آتی ہے۔
بہرحال کتاب میلہ کا چکر لگے تو یہ کتاب ضرور پڑھئیے گا۔ یہ اس قابل ہے کہ اسے اپنی لائبریری کا حصہ بنایا جائے۔
کتاب میلہ کے پہلے دن گیا تو روف کلاسرا کی کتاب کشمیر کہانی لے آیا۔ یہ سیریز روزنامہ دنیا میں شائع ہوئی تھی۔ پچیس یا شائد چھبیس ستائیس کالم تھے۔ یہ سیریز جب چھپ رہی تھی تو میں نے بڑے تحمل اور ضبط سے کام لیا۔ کئی بار چاہا کہ اس کے جواب میں لکھا جائے۔ دراصل اس کتاب کو لکھتے ہوئے جن سورسز سے استفادہ کیا گیا، اس پر ہمیں تحفظات تھے اور کچھ اعتراضات بھی۔ میں نے پھر یہی فیصلہ کیا کہ جواب دینا اہم نہیں۔ اپنا نقطہ نظر تو کسی بھی وقت پیش کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر کوئی پیارا دوست اتنی کمٹمنٹ سے سیریز لکھ رہا ہے تو اس کا ردھم نہیں توڑنا چاہیے، جواب لاجواب کے چکر میں نہیں پڑھنا چاہئیے۔
میں نے اس موضوع پر بعد میں بھی نہیں لکھا۔ چیزوں کو دیکھنے کے مختلف زاویے ہیں، ہم اپنے زاویے سے دیکھتے ہیں، مگر ضروری نہیں کہ صرف وہی واحد اینگل ہو۔ دوسرا اینگل بھی درست ہوسکتا ہے۔ یہ بات اب عمر کے ساتھ سمجھ لی ہے۔
خیر کشمیر کہانی اسی رات پھر سے پڑھ لی تھی۔ دلچسپ کتاب ہے، کشمیر اور تقسیم کے حوالے سے کئی نئی باتیں سامنے لاتی ہے، قابل بحث باتیں۔
آج کتاب میلہ کا پھر سے چکر لگے گا ان شااللہ۔ شام چار سے چھ سات بجے تک ادھر ہی ہوں گا۔