Shehar Ki Deewaron Pe Ashaar Mere Reh Jayen Ge
شہر کی دیواروں پہ اشعار میرے رہ جائیں گے
موجودہ دور میں بہت کم زبانیں ایسی رہ گئی ہیں جن کے بولنے والے اپنی صلاحیتوں کا اظہار انہی زبانوں میں کریں۔ بڑی زبانیں جیسے انگری، مینڈریڈ یا ہندی و اردو وغیرہ چھوٹی زبانوں کے لئے خطرہ ثابت ہورہے ہیں۔ ایسی زبانوں کے قاری بڑی تعداد میں موجود ہیں اس لئے اکثر لکھاری انہی بڑی زبانوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ مگر جو مٹھاس مادری زبان میں موجود ہے اور ایک لکھاری جس طرح اپنی مادری زبان میں اپنے خیالات کا اظہار بہترین انداز میں کرسکتاہے، جس طرح مادری زبان کسی کے جذبات کی نمائندگی کرسکتی ہے کوئی دوسری زبان نہیں کرسکتی۔
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اپنی مادری زبان میں لکھتے ہیں ان کو لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں بھلا ان کے قاری کم ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی طرح بلوچی زبان بھی ایک چھوٹی سی زبان ہے جس کے بولنے والے تو زیادہ ہیں مگر پڑھنے والے بہت ہی کم ہیں۔ پھر بھی اکثر بلوچ شاعری اور موسیقی سنتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بلوچ شعرا سے بلوچوں کی اکثریت واقف ہے۔ اگر یہی شعرا ان کے مسائل کی نشاندہی کریں، اسی عام زبان میں شاعری کریں جو مزدور، کسان، اور عام آدمی کی زبان ہو تو بلوچ ایسے شعراء کو اپنی دل میں جگہ دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شاعر مبارک قاضی تھے۔
مبارک قاضی بحیثیتِ شاعر ایک عوامی اور مزاحمتی شاعر تھے۔ ان کے اشعار میں ہر بلوچ اپنا درد محسوس کرتا ہے۔ وہ ایسے دور سے گزرے ہیں کہ جب پورا بلوچ معاشرہ شکست و ریخت کا شکار تھا۔ کبھی بھٹو کے مظالم تو کبھی ضیائی آمریت کے اثرات بلوچ معاشرے پہ نظر آتے۔ اس ملک میں جو بھی برسرِاقتدار آیا اس کی یہی کوشش تھی کہ اس چھوٹی سی قوم کو ہمیشہ کے لئے کچل کر اس سے چٹھکارا پا لیا جائے۔ کون یہ برداشت کر سکتا ہے کہ بلوچستان جیسی امیر سرزمین کے وارث یہ جاہل بلوچ ہوں۔
پھر جب پرویز مشرّف کی باری آئی تو انہوں نے سلگتی آگ کو مزید بڑھاوا دیا۔ نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کیا جو بلوچ مزاحمتی تحریک کو لیڈ کر رہے تھے۔ نواب صاحب سے مبارک قاضی کو دلی وابستگی تھی۔ وہ اس واقعہ سے کافی دل برداشتہ ہوگئے۔ اپنی دوسری کتاب "شاگ ماں سبزیں ساوڑءَ" میں لکھتے ہیں کہ "نواب بگٹی بلوچوں کے چشم و چراغ ہیں۔ میرے لئے یہی کافی ہے کہ میری کتاب ان کے ہاتھوں میں ہو"۔ ان کو نواب صاحب سے اس لئے اتنی عقیدت تھی کہ وہ انہیں بلوچ کا مسیحا سمجھتے تھے۔ ان کی موت پہ جو شعر انہوں نے لکھی اس کا پہلا مصرعہ کچھ اس طرح ہے: (ترجمہ)
جب تک میدانوں میں آگ سلگتی ہے آپ زندہ ہیں
جب تک اوپر ایک ستارہ چمکتا ہے آپ زندہ ہیں
نواب صاحب کی شہادت کے بعد بلوچستان کے حالات یکسر بدل گئے۔ نوجوانوں نے بڑی تعداد میں پہاڑوں کا رُخ کیا تو دوسری طرف ریاستی ظلم و بربریت بھی اپنے عروج کو پہنچی۔ انہی حالات نے قاضی کی شاعری کا انداز بھی بدل دیا۔
قاضی جو پہلے اپنے رومانوی انداز میں وطن کی محبت، یا اپنے محبوب کے خوبصورتی کی تعریف یا درد و الم کا اظہار کرتے تھے اب یکسر انقلابی شاعر بن گئے۔ اب وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ ان کی شاعری کس طرح ریاستی اداروں کے آنکھوں میں کھٹکتی ہے بلکہ وہ جو محسوس کرتا وہی لکھتا۔ بلوچ وطن اور بلوچ قوم پہ جو بھی ظلم و زیادتی کے واقعات ہوتے ان کے درد کو وہ الفاظ کا جامہ پہنا کر ایسے اشعار ترتیب دیتے جن کو ہر بلوچ اپنے جذبات کی نمائندگی سمجھتا تھا۔
بلوچ بحیثیتِ قوم اس وقت جن حالات سے گزر رہی ہے ایسے حالات میں قاضی جیسے بہادر اور ملنگ شاعر جسے نہ کبھی اپنی زندگی کی پرواہ تھی اور نہ ہی موت کی پرواہ، وہی اس قوم کے قومی جذبات کی نمائندگی کرسکتا تھا۔ وہ خود اپنی کردار سے مطمئن تھے۔ انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ وہ رہے نہ رہے مگر ان کی شاعری بلوچ سرزمین پہ ہمیشہ گونجتی رہے گی۔ ان کا اپنا ایک شعر ہے:
میں اگر مر بھی جاؤں، پر وثوق سے کہہ سکتا ہوں
شہر کے دیواروں پہ اشعار میرے رہ جائیں گے!
اور اب ان کی موت پہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان کے اشعار دیواروں پہ رہ گئے۔ ان کی موت پر پورے بلوچستان میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے انہیں خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ ہر جگہ بازاروں میں، تعلیمی اداروں میں یا چوراہوں پر غرض ہرجگہ لوگ موم بتی جلا کر ان کہ یاد میں کینڈل واک کر رہے ہیں۔ بلوچستان سے باہر بھی جہاں بلوچ بستے ہیں وہاں بھی ان کو خراجِ عقیدت پیش کی جارہی ہے۔ ایک مزاحمتی شاعر کی یہی نشانی ہے، جسے پوری قوم اپنے جذبات کی نمائندہ شاعر سمجھے۔
یہ درجہ قاضی کو اتنی آسانی سے نہیں ملا ہے۔ انہوں نے اسی شاعری کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں سہی ہیں، اپنے اکلوتے بیٹے کو اپنی وطن پہ قربان کردیا ہے۔ کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکا ہے اور نہ ہی کبھی کسی لالچ میں آکر اپنی قلم بیچا ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ: (ترجمہ)
قاضی وطن کی خاطر پھانسی ہی سونے سے بہتر ہے
کون جانے کس کے نصیب میں ہو یہ پھندا اندھیری راتوں میں
قاضی یہی سمجھتے ہیں کہ بلوچ جنگ زدہ ہے، وہ اس وقت بس اپنی بقاء کی ہی سوچ سکتا ہے۔ وہ اپنی زمین کا درد محسوس کرتا ہے۔ ان حالات میں انہیں بس " بندوق" کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اسی لئے اب وہ اپنے محبوب کی زلفوں کی تعریف کی بجائے ہمیشہ جنگ زدہ قوم کی آواز بننے کی کوشش کرتا رہا مگر وہ ہمیشہ خود کو تنہا پاتا تھا۔ کوئی ایسا نہیں تھا جو اس کی طرح ہو۔ وہ لکھتے ہیں:
(ترجمہ)
میں نے جو نظر دوڑائی سامنے دروازے کی طرف
کوئی منظر پہلے جیسا نہ تھا
طاق تھا ایک طرف
مٹی ایک طرف
کانچ تھی ایک طرف
زندگی ایک طرف
موت تھی ایک طرف
زندگی کے جوتے پہن نہ پایا کوئی
کیا کریں اب!
آدمی کے بدل کانچ و کاغذ نہیں!
(مبارک قاضی)
یہی تھے مبارک قاضی جو پوری زندگی شعلہ بار اشعار اگلتے رہے اور ان کے اشعار نے یہ ثابت کردیا کہ وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے مزاحمتی شاعر تھے۔