Har Ustad Ustad Nahi Hota
ہر استاد، استاد نہیں ہوتا
بچپن سے ہمارا خواب ٹیچر بننا تھا۔ جب ایم۔ اے کیا تو دوستوں نے پوچھا کہ اب آگے کا کیا سوچا ہے؟ میرا بس ایک ہی جواب تھا کہ ٹیچر ہی بننا ہے اور کیا۔ اس بات پہ میری ایک سہیلی ہمیشہ میرا مزاق اُڑاتی تھی کہ آپ اِتنا پڑھتے ہیں، لکھتے بھی ہیں اور ایک معمولی سا ماسٹر بن کے خود کو ضائع کرتے ہو؟
پھر کلاس روم میں بیٹھ کر چھوٹے چھوٹے بچّوں کو آستینوں سے جب ناک کا بہتا ہوا پانی پونچتا دیکھوگے تو تب سمجھ آئے گی کہ آپ کو کرنا کیا تھا اور آپ کہاں پھنس گئے۔ خیر یہ باتیں اپنی جگہ، مگر میں نے میٹرک کے بعد پڑھانا شروع کیا اور آج تک پڑھا رہا ہوں۔ اس دوران پرائیوٹ سکولوں سے لے کر سرکاری سکول، کالج اور یونیورسٹی تک ہر لیول میں پڑھاتا رہا۔ نہ پہلے کبھی پشیمانی ہوئی اور نہ اب میں یہ سوچتا ہوں کہ میں نے جو کیا ہے غلط کیا ہے۔ بلکہ میں یہی محسوس کرتا ہوں کہ مجھے یہیں ہونا چاہیے جہاں میں ہوں۔
اتنا عرصہ درس و تدریس سے جڑے رہنے کے باوجود بھی میں خود یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں ٹیچر کہلانے کے قابل نہیں ہوں۔ ہمیشہ یہی کوشش رہا کہ کیسے ایک اچھا استاد بن سکوں۔ کیونکہ میری نظر میں جو "استاد" ہوتا ہے ہر استاد کے لئے اس لفظ کا استعمال اس لفظ کی توہین ہے۔
پورے تعلیمی سفر میں بہت کم ایسے اساتذہ سے واسطہ پڑا ہے جن کو آج میں استاد کہہ سکتا ہوں، جن کے لئے آج بھی میرے دل میں وہی عزت و احترام موجود ہے۔ یہ وہی مخصوص اساتذہ ہیں کہ ان کی صحبت میں مجھے ہمیشہ یہی محسوس ہوتا تھا کہ میں اپنے کسی فیملی ممبر کے ساتھ ہوں۔ لیکن استاد کی شفقت ہی کافی نہیں ہے اور نہ ہی ایک بندہ جو اپنی مضمون پہ دسترس رکھتا ہو وہی حقیقی استاد ہے۔ استاد کے درجے تک پہنچنے کے لئے انسان کو بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔
سب سے پہلے ایک استاد کو اپنی معاشرتی، سیاسی و مذہبی نظریات کی قید و بند سے خود کو آزاد کرانا ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک استاد جو اپنے مذہبی خیالات طلباء کے ذہنوں میں ٹھونسنے کی کوشش کرے تو ایسا استاد نوکلیئر ہتھیاروں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس کا بچّوں پہ یہ اثر ہوگا کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں اور ہر چیز کو قدرت کی مرضی سمجھنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ عملی زندگی سے کوسوں دور ہوجاتے ہیں۔ ان سب کا ذمّہ دار وہی استاد ہے جو اپنے سٹوڈنٹس کو پڑھانے کی بجائے، ان کے ذہن میں سوالات اُٹھانے کی بجائے، ان کو اپنی معاشرتی و سماجی ذمّہ داریوں کا احساس دلانے کی بجائے، انہیں صرف اپنی ذاتی نظریات کا پابند بنا کر رٹّو طوطا بنا لے۔
دوسری بات یہ کہ ہر استاد کو پہلے پڑھانے کا ہنر سیکھنا چاہیے کیونکہ بیک وقت اس کا سامنا کئی اذہان سے ہوتا ہے جو ایک ہی وقت میں مختلف باتیں سوچ رہی ہوتی ہیں۔ جب کسی کے پاس یہ فن ہو کہ وہ اپنی بات بیک وقت مختلف طلباء کو سمجھا سکے اور ان کے خیالات کو چیلنج کر سکے تو وہی شخص استاد کہلانے کے قابل ہے۔ مگر یہ تب ہو سکتا ہے کہ اپنے مضمون کے علاوہ ایک استاد کو اپنے گرد و پیش میں رونما ہونے والے علاقائی، قومی اور بین الاقوامی معاملات کی خبر ہو۔ اسے تاریخ، سیاست، فلسفہ، نفسیات، ادب اور ایسی دوسرے علوم کے بارے میں بنیادی معلومات ہو۔ تاکہ وہ ہر زاویے سے اپنے طلباء کا ذہنی مشاہدہ کرسکے اور ان کی ذہنی تربیت میں معاون ثابت ہو سکے۔
جب یہ سب خوبیاں ایک استاد میں موجود ہوں تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اپنے طلباء کی ذہنی تربیت کرنے میں اور ان کا سوشل بیہیویئر تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ مگر اساتذہ کی اکثریت ایک تنخواہ دار ٹولہ ہے جو اپنی ذات و نسل، اپنی قبائلیت اور مذہبی تعصب کی وجہ سے نسلوں کو تباہ کر رہی ہے۔ ایک شخص جب تک ان تعصبات سے بالاتر ہو کر نہ سوچے قومی تعمیر میں اس کا کردار مثبت کی بجائے ہمیشہ منفی ہی ہوگا۔ ایسے اساتذہ کے لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ قوم کے معمار ہیں بلکہ قوم کی تباہی میں سب سے زیادہ کردار انہی کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر استاد، استاد کہلانے کے قابل نہیں ہے۔