Bepanah Shadmani Ki Mumlikat
بے پناہ شادمانی کی مملکت

نہ میں نے دہلی دیکھی ہے نہ کبھی کشمیر گیا ہوں۔ دہلی سے میرا پہلا تعارف خوشونت سنگھ کے ناول "دہلی" سے ہوا، جو ایک طوائف کی ایک شہر کی کہانی ہے۔ اشرافیہ نے جس طرح طوائف کی حسن و جوانی کے مزے لوٹے، اُسی طرح خوبصورت اور تاریخی شہر کو مسخ کرکے شاپنگ مالز اور بڑے بڑے بنگلوں کے ایک بکسے میں بدل دیا۔ جہاں اس شہر کے باسیوں کے اجداد کی قبریں تھیں اب وہاں بڑے مالز بنے ہیں۔
مگر کشمیر کو جس طرح میں نے اروندھتی رائے کی نظروں سے دیکھا وہ یکسر مختلف تھی۔ ایسا منظر نہ کبھی نام نہاد پاکستانی میڈیا دکھا سکی نہ کنٹرولڈ انڈین میڈیا اور نہ ہی کوئی عالمی میڈیا پلیٹ فارم۔ مظلوم ہی مظلوم کی درد کو سمجھ سکتا ہے۔ جس اذیت سے ہم گزر رہے ہیں ہمیں بخوبی اندازہ ہے کہ کشمیریوں پہ کیا گزری ہوگی، کیونکہ کالونائزڈ قومیں جہاں بھی آباد ہوں ان کی حالت میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ اصل میں کالونائزر کبھی کبھی ایسے اقوم کو انسان ہی نہیں سمجھتے جن کی زندگی اور موت کا فیصلہ اُن کے ہاتھ میں ہو۔
اروندھتی رائے کی کتاب "آزادی" پڑھنے کے بعد میں اُن کا گرویدہ ہوگیا مگر مجھے پتہ نہیں تھا کہ وہ اس قسم کی عظیم فکشن نگار بھی ہیں۔ جب ان کا ناول "بے پناہ شادمانی کی مملکت" پڑھنا شروع کیا تو اس کہانی کی سحر نے مجھے ایسے جکڑ رکھا جیسے میرے پاؤں میں بیڑیاں پڑگئے۔ فکشن تو بہت پڑھا ہے مگر اس معیار اس طرح کے احساسات کی ترجمانی کرتی کہانیاں بہت کم لوگ ہی لکھ پاتے ہیں، جس کے لئے دل بڑا کرنا پڑتا ہے اور یہ جرات اروندھتی میں ہے۔
کہانی کو مختلف بابوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں پہلا باب "بوڑھی چڑیاں مرنے کے لئے کہاں جاتی ہیں؟" انسانی المیے کو بیان کرتا ہے کہ اتنا مہذب ہونے کے بعد بھی جب انسان خود کو تہذیب کی چوٹی پہ پاتا ہے تو نیچے دیکھتے ہی اسے یہ تہذیب پتھر کے دور سے بھی زیادہ پسماندہ لگتی ہے۔ تہذیب کا نقاب اوڑھے جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی نے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچایا ہے، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہزاروں لوگ رات کو فٹ پاتھ پہ سوتے ہیں، ہزاروں لوگ روزانہ بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں، ہزاروں لوگ بے گھر ہو رہے ہیں، قتل ہو رہے ہیں، لڑ رہے ہیں، اغوا ہو رہے ہیں، نعرے لگا رہے ہیں، جو آج بھی آزادی جیسی نعمت سے محروم ہیں، کیا یہ سب انسان نہیں ہیں؟ یا کسی اور سیارے سے اُتاری گئی کوئی دوسری مخلوق ہے۔ مگر اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں خود اس کرب سے گزرے ہوں۔ شاندار محلوں کے باسی یہ سوچ کر حیران ہونگے کہ یہ لوگ کیسے زندہ بچ گئے ہیں۔
دوسرا باب "خواب گاہ" ہے جس میں آپ پرانی دہلی کی خوبصورتی کو دیکھتے ہیں مگر کوئی بھی خوبصورت چیز بے عیب نہیں ہوتی۔ ایسا ہی کچھ دہلی میں بھی ہوتا ہے جو قدیم زمانے سے ہندوستان کا مرکز رہا ہے، جہاں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی ہیجڑوں کے "خواب گاہ" کی طرح ایک ساتھ رہتے تھے اب اجڑ چکی ہے۔ اب بھی اگر کوئی ایسی جگہ ہے جہاں ہر انسان کو صرف انسان کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے تو وہ ہے ہیجڑوں کا ٹھکانہ جسے وہ اپنی زبان میں خواب گاہ کہتے ہیں۔ جہاں کا ہر رہائشی خود کو دنیا کی تمام پابندیوں سے آزاد سمجھتا ہے اور بننا چاہتا ہے وہی بننے کی کوشش کرتا یا کرتی ہے۔ اگر تہذیب کی بات کی جائے تو "سویلائزڈ" لوگ بس یہی ہیجڑے ہی رہ گئے ہیں۔
انہی میں سے ایک ہہجڑہ انجم ہے جو کبھی آفتاب تھا۔ آفتاب ملاقات علی خان کا بیٹا/بیٹی ہے جو مسلسل لڑکیوں کی پیدائش کے بعد اپنی ماں مانگی گئی منّتوں کا ثمر ہے۔ ملاقات علی جو ایک عزت دار آدمی ہیں وہ بیٹے کی پیدائش پہ پھولے نہیں سماتا مگر اس کی بیگم کو پتہ ہے کہ اس کا لختِ جگر نہ بچّہ ہے نہ بچّی ہے بلکہ درمیانی کوئی ہستی ہے جسے "ہیجڑا" کہا جاتا ہے۔ اس بات سے وہ کافی غمزدہ ہوتی ہے اور اسے چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ مشک کو چپھایا جایا جاسکتا ہے مگر اس کی خوشبو کو نہیں۔ تو آفتاب (ملاقات علی کا بیٹا) کو انجم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ فطرت کے سامنے کوئی کھڑا ہوسکتا ہے بھلا۔
کافی عرصے بعد آفتاب محسوس کرتا ہے کہ اصل میں جو وہ ہے، وہ نہیں ہے۔ وہ آفتاب سے انجم بن جاتی ہے اور "خواب گاہ" کا رُخ کرتی ہے، جہاں وہ خواب گاہ کے استاد کلثوم بی کی زیرِ نگرانی ہیجڑوں کا گروہ باقاعدہ جوائن کرتی ہے۔ اس دوران وہ جو کچھ کرنا چاہتی ہے وہی کرتی ہے، پھر بھی ایک فطری جبلت جسے وہ کبھی دبانے میں کامیاب نہیں ہوتی، اس کی ماں بننے کے خواہش ہے۔ آخر اُسے ایک بچّہ مل جاتا ہے جس کا کوئی وارث نہیں اور انجم ہی اُس کی ماں بن جاتی ہے۔
اس دوران وہ پرانے شہر کو نئے شہر میں بدلتے دیکھتی ہے۔ انسانی تہذیب کی شکست و ریخت کا نظارہ کرتی ہے۔ فرقہ واریت کے نام پر لوگوں کو مویشیوں کی طرح کاٹتے، کچلتے دیکھتی ہے اور آخر انسانی تہذیب کی اِن پیچیدگیوں سے تھک ہار کر قبرستان کا رُخ کرتی ہے اور وہیں پہ اپنا "جنّت گیسٹ ہاؤس اور کفن دفن مرکز" قائم کرتی ہے۔ اس دور میں واقعی میں قبرستان کے علاوہ کوئی دوسری جگہ ایسی نہیں بچی ہے جو تعصب، سماجی رتبے کی ڈھونگ، ذات پات، مذہب اور قومیت کی تفریق سے پاک ہو۔ یوں انجم ایک ایسا جہان آباد کرتی ہے جہاں سب برابر کے شہری ہیں، نہ کوئی برہمن ہے، نہ دلت ہے، نہ ہندو ہے، نہ مسلمان ہے، نہ مولوی ہے اور نہ ہی کوئی مرد، عورت یا ہیجڑا ہے، بلکہ سب انسان ہیں۔
آگے کے ابواب نئے ہندوستان کی سیاسی تحریک کو بیان کرتے ہیں جہاں روز نئے تماشے ہوتے ہیں۔ اندرا گاندھی کو قتل کیا جاتا ہے تو سکھوں کا قتلِ عام شروع ہوتا ہے۔ کسی گائے کو ذبح کیا جاتا ہے تو گجرات کو للّہ چیخ اُٹھتا ہے جو یہ نعرہ لگاتا ہے کہ
مسلمانوں کا ایک ہی استان
پاکستان یا قبرستان
کہیں کسی گائے کی کھال اُتارنے پہ معقول بھتّہ نہ دینے کے جرم میں اچھوتوں کا خون سڑکوں پہ بہایا جاتا ہے۔ ان بنیاد پرست سیاسی تحریکوں سے سیکولر ہندوستان کو چہرہ بُری طرح مسخ ہوجاتا ہے۔ جس ملک کے خواب انگریزوں کی غلامی کے دور میں لوگوں نے دیکھے تھے یہ اب وہ ملک نہیں رہا۔ جس طرح ہم سمجھتے ہیں کہ بنیاد پرستی اور فرقہ واریت جو پاکستان میں ہے وہ ہندوستان میں نہیں تو ہم غلطی پر ہیں۔ اس پورے خطے کا یہی حال ہے۔ یہاں کوئی بھی فرد انسان کی حیثیت سے زندگی نہیں گزار سکتا، اسے لازم کچھ نہ کچھ ہونا پڑتا ہے، کچھ اور نہیں تو کم از کم ہیجڑا۔
ہندوستان کے اندونی حالات، فرقہ واریت کی تباہ کاریوں اور سیاسی اُلٹ پھیر کی قصّے کے بعد مصنف کہانی کا رُخ کشمیر کی طرف موڑتی ہے۔ کشمیر جس میں جنگ کے نام پر اربوں ڈالر بٹورے گئے، جہاں لاکھوں انسانوں کا خون بہایا گیا، جو کبھی پاکستان کی شہ رگ تو کبھی ہندوستان کی ریڑھ کی ہڈّی ہے، پھر کشمیری کس کے ہیں؟ اُن کا کوئی نہیں پوچھتا۔ یہاں پہ جو لوگ آباد ہیں کیا یہ "جنّت کے ٹکڑے" پر اُن کا حق نہیں ہے؟ کیا اُن کے خون کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ کیا وہ انسان نہیں ہیں؟ ہو سکتا ہے وہ ہیجڑے ہوں، کیونکہ اس خطے میں یہی ایک طبقہ ہے جن کی کوئی پہچان نہیں، جن کا کوئی وطن نہیں، جن کا کوئی گھر نہیں۔
کشمیر کی کہانی بیان کرتے ہوئے وہ چار دوستوں کا کردار شامل کرتے ہیں۔ موسیٰ، ناگا، ہوبارٹ اور تِلوتما جو کالج کے دوران دوست بن جاتے ہیں اور پھر عملی زندگی میں بالکل الگ الگ راہوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ موسیٰ کشمیر کی آزادی کی جنگ میں مصروف ہے، ہوبارٹ آئی بی کے ساتھ کام کر رہا ہے، ناگا جرنلسٹ ہے اور تِلوتما (جو ان چاروں میں واحد عورت ہے اور کالج کے زمانے میں یہ تینوں اس کے دیوانے ہوتے ہیں) آرکیٹیکٹ ہے۔
کشمیر پہ جو گزرا، وہاں پہ جو ظلم ڈھایا گیا خواہ وہ ہندوستان کی طرف سے ہو یا پاکستان کی طرف سے باڑے پہ گئے مجاہدین کی طرف سے، نقصان ہمیشہ کشمیریوں کا ہوا ہے۔ اس شورش سے جتنا ظلم اس وادی کے باسیوں پہ ہوا ہے ریڈیو اور ٹی وی پہ نشر ہونے والی خبروں پہ اکتفا کرنے والے کبھی اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ کشمیر میں کسی انسان کی جان لینا ایک مرغی کاٹنے سے بھی زیادہ آسان ہے۔ کسی کو گولی مارنا، گھر سے لاپتہ کرنا، بوری میں مسخ شدہ نعش کسی ویرانے میں پھینکنا یہ روز کا معمول ہے اور یہ کام ریاستی ادارے کرتے ہیں، چاہے وہ پاکستان کی طرف سے ہوں یا ہندوستان کی طرف سے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم اس کے تناظر میں محسوس کر سکتے ہیں کہ کشمیریوں پر کیا بیت رہا ہے۔
اروندھتی رائے نے جس حسّاس انداز میں کشمیریوں کے کرب کو بیان کیا ہے شاید ہی کوئی کرپائے۔ کہانی پڑھتے وقت آپ محسوس کرسکتے ہیں کہ آپ "میجر امریک سنگھ" کے ٹارچر سیل میں ہیں جہاں لکڑی کے ڈنڈوں پر لال مرچ مَل کر آپکی مقعد میں داخل کیا جا رہا ہے۔ جہاں پلاس سے آپ کے ناخن نکالے جا رہے ہیں، ایسی سزاؤں کے لئے بس یہی کافی ہے کہ آپ کشمیری ہیں اور اپنی زمین پہ اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں یا صرف دل میں ہی ایسی خواہش رکھتے ہیں۔
یہ ناول اتنا پرسوز، اتنا غمگین، اتنا خوبصور اور اتنا شاندار ہے کہ اس پر مختصر تبصرہ لکھیں بھی وہ کم از کم سو صفحات پر مشتمل ہوگا۔ انسانی جذبات کی ایسی باریکی سے ترجمانی کرنا اروندھتی جیسی ایک حساس اور جرات میں روح ہی کرسکتی ہے جو تمام سماجی درجہ بندیوں سے بالاتر ہوکر ایک انسان کی طرح سوچتی ہے اور عمل کرتی ہے۔ کہانی پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب مصنف ہیجڑوں کی بات کرتی ہے تو لگتا ہے وہ خود ہیجڑا ہیں۔ جب جنگ کی بات کرتی ہے تو جنگجو لگتی ہے، کبھی گُمان ہوتا ہے وہ ڈاکٹر ہے، کبھی گوریلا، کبھی فوجی، کبھی مجاہد، کبھی سیاستدان، کبھی ایک اوباش مرد، کبھی ایک کمیونسٹ جنگجو عورت اور کبھی کبھی اچھوت بن جاتی ہے۔ ایک کہانی میں اتنے کرداروں کی کردار سازی اور پھر موضوع کے اعتبار سے ہرچیز کی جانکاری، یہ بہت ہی صبر آزما کام ہے۔ آخر میں بس یہ کہوں گا کہ میری پسندیدہ ناولوں کی فہرست میں ایک اور کہانی کا اضافہ ہوگیا۔ جس میں کشمیر کو صرف آپ اس شعر میں دیکھ سکتے ہیں:
اب وہاں خاک اُڑاتی ہے خزاں
پھول ہی پھول جہاں تھے پہلے