Waldain Ki Taseeren Olad Ka Naseeb Hain
والدین کی تاثیریں اولاد کا نصیب ہیں

بے شمار درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ مبارکہ پر۔
ہر انسان جو اِس دنیا میں آیا ہے وہ ایک روحانی سفر پر ہے، کچھ لوگوں پر اِس باطنی سفر کے پردے آٹھ جاتے ہیں اور وہ اِس کو محسوس کر سکتے ہیں، اِس میں چھپے ہوئے راز اور معجزات و واقعات کو دیکھ سکتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالی کی مشیت اور کبریائی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
یہ مشاہدہ اُتنا ہی ہو سکتا ہے جتنی اُن کو عطا ہو یا جتنی اُن کو اجازت ہو، اِس مشاہدے کے لیے کسی بھی شخص سے محبت، نسبت اور تعلق بہت ضروری ہے، اِس کے بغیر اِس میں داخل نہیں ہوا جا سکتا۔
قدرت کا عجب کھیل ہے اور یہ سب نصیب کی باتیں ہیں کہ آپ کو اپنی زندگی میں کوئی ایسا شخص مل جائے جو کہ آپ کو معرفت کی منزلوں سے روشناس کروا سکے۔
کچھ تاثیریں ایسی ہوتی ہیں جو کہ ہر شخص کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں یہ تاثیریں اُس کا نصیب ہوتی ہیں اور نسل در نسل اُس کے وجود میں سرایت کر جاتی ہیں اور اعمال اُن تاثیروں کے ہی تابع رہتے ہیں۔
ہمارے دین میں ماں باپ کی اطاعت اُن سے محبت اور اُن سے حسن سلوک کا حکم بڑی سختی کے ساتھ آیا ہے اور نماز میں بھی والدین کا ذکر ہے۔ والدین کو وقت کا ولی کہا گیا ہے اور جو اُن کی اطاعت نہیں کر سکتا اس پر دین کے دروازے بند ہیں، کہا جاتا ہے کہ ماں باپ ہی پہلے پیر و مرشد ہیں۔
اولاد ماں باپ کے اعمال کی تاثیروں سے باہر نہیں نکل سکتی، حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ ماں باپ کی تاثیریں اولاد کا نصیب ہیں، ہو سکتا ہے یہ تاثیریں نسل در نسل آگے آرہی ہوں۔
تاثیر مثبت ہوں یا منفی اولاد کے اعمال اُن کے تابع ہی رہتے ہیں اور وہ اِس سے باہر نہیں آ سکتے، اپنے ارد گرد اگر آپ غور فرمائیں تو اس بات کا واضح مشاہدہ ہو جائے گا، ماں باپ کا گستاخ کہیں کا نہیں رہتا جو ماں باپ کا گستاخ ہے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ اُس کی اولاد بھی گستاخ ہوگی، اگر کوئی باپ رشوت کے پیسوں سے اپنی اولاد کو پال رہا ہے تو یہ لازم ہے کہ اُس کی اولاد گستاخ و بے ادب ہوگی، قدرت کا عجب کھیل ہے چاہے باپ لاکھوں میل دور بیٹھا ہو اُس کی تاثیریں اولاد میں آ ہی جاتی ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کوئی باپ انگلینڈ یا امریکہ میں بیٹھا ہے وہ جو اعمال وہاں کر رہا ہوگا اُس کی تاثیریں اولاد میں سرایت کر جائیں گی اور اپنے ملک میں بیٹھی ہوئی اولاد اِن تاثیروں کے تابع ہونگی اور ان کے گناہ و ثواب کا حقدار ٹھہریں گی۔
آج کل نئی نسل کی تربیت کرنے کے لیے لوگ بچوں کو اچھے سکولوں میں داخل کرواتے ہیں اور اِس بات پر بڑا زور ہے کہ بچوں کی اچھی تربیت کی جائے، والدین آج کل یہ بات بہت کرتے ہیں، لیکن انہیں اِس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ جو آپ کے اعمال ہیں بچے اُن کی تاثیروں کے تابع ہیں۔
اس لیے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ بچوں سے زیادہ ماں باپ کو خود کو سمجھنے کی ضرورت ہے، آپ جتنی مرضی نصیحت کر لیں آپ کے بچے اِن تاثیروں سے نہیں بچ سکتے، یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ کے بچے آپ خود ہی ہیں اور بچوں کے لیے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے ماں باپ وہ خود ہی ہیں، اِس بات کو سمجھانے کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بچوں کا ایک حصہ ماں باپ میں موجود ہے اور ماں باپ کا ایک حصہ بچوں میں موجود ہے، سائنس اِس کو ڈی این اے سے تشبیہ دیتی ہے۔
اسی لیے جب بچوں کو تکلیف ہو تو ماں باپ بھی تکلیف میں آ جاتے ہیں اور جب ماں باپ کو تکلیف ہو تو بچوں میں اس تکلیف کا انا ایک قدرتی امر ہے۔
تو ضرورت اِس بات کی ہے کہ آپ نصیحتوں سے نکل کے باہر آ جائیں، کیونکہ آپ کے بچے بات نہیں سن رہے اِن کو عمل کرکے دکھائیں، نصیحت سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے، لاکھ بچوں کو کہیں کہ نماز پڑھا کرو لیکن اِس کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوگا لیکن جب آپ خود نماز پڑھتے ہیں تو بچے آپ کی اس روش کو اپنائیں گے اور وہ بھی عبادت کی طرف آئیں گے۔
اگر گھر میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑے رہتے ہیں یہ لازم ہے کہ اُن کا اثر بچوں پر بھی آئے گا کیونکہ اِن میں ماں باپ روحانی طور پر موجود ہیں، اسی لیے بزرگ کہتے ہیں کہ گھر میں جھگڑا بربادی ہے، اِس گھر کی، اگر میاں بیوی ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے تو اِس گھر کی بربادی لکھی جا چکی ہے۔
اگر آپ اِن باتوں کو قبول کر رہے ہیں تو پھر اگلا سوال ذہن میں آتا ہے کہ اِن سے کیسے بچا جائے، یہ منفی تاثیریں جو کہ ماں باپ میں در آئی ہیں ہو سکتا ہے اُن کے بزرگوں سے آئی ہوں اور بزرگوں میں اُن کے بزرگوں سے آئی ہوں، تو یہ ایک سلسلہ وار چین ری ایکشن بن جاتا ہے، جو کہ نسل در نسل چلتا ہے۔
اس سلسلے کو توڑنے کی ضرورت ہے، اِس کے کچھ طریقے بزرگوں نے بتائے ہیں، پہلا طریقہ یہ ہے کہ رات کے پچھلے پہر یعنی دو بجے کے بعد اپنے بچوں کے بستر کے پاس کھڑے ہو کر یہ دعا کیا کریں کہ اللہ پاک میرے گناہوں کی تاثیروں سے میرے بچوں کو بچا، یہ دعا کا بڑا موثر طریقہ ہے اور جو لوگ کوئی غلطی کوتاہی کر چکے ہیں اپنے ماں باپ کے ساتھ اُن کو چاہیے کہ جائیں اور ان کی قبر پر معافی مانگیں اور یہ عرض کریں کہ ہمارے گناہوں کے اثرات ہمارے بچوں تک نہ آئیں، یہ طریقہ بھی بزرگوں نے بتایا ہے۔
قبر پر فاتحہ کہنا یا معافی مانگنا عبادت ہے، یہی ایک طریقہ ہے اِس نسل در نسل ربط و سلسلےکو توڑنے کے لیے جو کہ منفی تاثیروں نے آپ کے اور آپ کے خاندان کے ارد گرد بن دیا ہے، نہیں تو اس کا نتیجہ بہت ہی بھیانک نکل سکتا ہے۔
پچھلے دنوں ہمارے لاہور میں ایک واقعہ ہوا ہے جہاں پہ ایک خاتون کے کچھ تعلقات تھے کسی مرد کے ساتھ اور جب اُس کے خاوند کو یہ پتہ چلا تو مل کے دونوں نے اس کو مار دیا، دورانِ تفتیش میڈیا والوں نے مختلف انٹرویوز کیے اِس خاتون کے، کچھ انٹرویوز میری نظر سے بھی گزرے ہیں تو ایسے ہی انٹرویو دیکھتے ہوئے ایک انٹرویو میں وہ خاتون فرماتی ہیں کہ اُن کی والدہ اُن پہ بڑا ظلم کرتی تھیں اور انہیں بہت مارتی تھی بلا وجہ ایک غصہ، فرسٹریشن اُن کی والدہ میں موجود تھی، یہ وہی تاثیریں ہیں جو کہ پچھلی نسل سے آگے آئی ہیں اور اِن کی غلطیاں گناہ ان کی اولاد پہ آ کے کھلے ہیں، جس کا نہ اپنا گھر رہا نہ دین رہا نہ دنیا رہی۔
تو اِن اثرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے اِن کو دیکھنے کی ضرورت ہے، محبتیں نسبتیں، تعلقات تو دور کی بات، اگر آپ یہ چیزیں خود میں ٹھیک نہیں کر سکیں گے تو پھر آپ اپنے خاندان کو درست نہیں رکھ سکیں گے۔
اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔