Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Hazrat Imam Ghazali Ai Taaruf

Hazrat Imam Ghazali Ai Taaruf

حضرت امام غزالی رحمہ اللہ ایک تعارف

لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذات اقدس پر۔

حضرت امام غزالیؒ پر کچھ لکھنا وہ بھی مجھ جیسے حقیر فقیر کے لیے جس کا نہ تو اتنا مطالعہ ہے اور نہ ہی مشاہدہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ مگر ان کی شخصیت کے کچھ پہلو جو کہ میری نظر سے گزرے ہیں اور میرے ذہن کی دسترس تک آئے ہیں ان پہ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

حضرت امام غزالیؒ تقریباً بائیس سال کی عمر میں بغداد میں مدرسہ نظامیہ کے سربراہ ٹھہرے، آپ مدرسہ نظامیہ سے فارغ التحصیل نہیں تھے، یعنی آپ مدرسہ نظامیہ کا پھل نہیں تھے جو کہ مدرسہ نظامیہ کی جھولی میں ہی گر گیا، آپ کا تقرر بیرونی تھا۔

مدرسہ نظامیہ عالم اسلام کا سب سے بڑا مدرسہ اور مرکز تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بغداد میں 200 کے قریب امام تھے اور بغداد دنیا میں ایک اسلامی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس میں آئے روز علمی اور ادبی محافل اور مباحثے ہوتے رہتے تھے۔

مدرسہ نظامیہ کے سربراہ ہونے کے بعد کچھ ہی عرصے میں آپ کو ایک بحران کا سامنا کرنا پڑا جو کہ ہر بڑے آدمی کے لیے سنّت انبیاء ہے، وہ بحران یہ تھا کہ موجودہ حالات پہ قانع نہ رہنا اور مطمئن نہ ہونا، آپ نے کچھ ہی عرصے میں محسوس کیا کہ موجودہ نظام تعلیم اس قابل نہیں ہے کہ طالب علموں میں وہ حقیقت پیدا کر سکے جو کہ دین کی بنیاد ہے۔

یعنی دین کی حقیقت دین کی تعلیم سے خارج ہو چکی ہے اور نہ ہی اساتذہ اس تعلیمی اور باطنی قابلیت کے اہل ہیں کہ وہ اس درجہ پہ جا کے طالب علموں کو تعلیم کہ زیور سے آراستہ کر سکیں، یعنی اب ہم دین کی صرف صورت پہنچا رہے ہیں دین کی حقیقت نہ معلم کے پاس ہے اور نہ ہی طالب علم کے پاس۔

اس کرپشن کے ساتھ دین کو منتقل کر دینا کہیں آخرت میں میرے لیے عذاب نہ بن جائے اور یہ کہ میں اب دین کو دنیا کے لیے استعمال نہیں کروں گا، یہ تھا مکمل بحران۔

چنانچہ آپ نے سربراہ مدرسہ کے طور پر استعفی دیا اور اپنے آبائی گاؤں طوس چلے گئے جہاں آپ نے قریباً ایک سال تک چھوٹے بچوں کو قران پاک ناظرہ پڑھایا اور اپنے چھوٹے بھائی حضرت ابو حامد غزالیؒ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور ان کو مرشد مانا۔

آپ یہ تصور کریں امام غزالیؒ جیسی شخصیت چھوٹے بچوں کو ناظرہ قران پاک پڑھا رہی ہے صرف اسی لیے کہ وہ اپنے وجود و باطن میں وہ حقیقت اور وہ تڑپ پیدا کرنا چاہتے تھے جو کہ ایک مومن کا خاصہ ہونی چاہیے، ایک سال کے بعد آپ دوبارہ کسی بشارت کے تحت واپس آئے اور پھر مدرسہ نظامیہ کے سربراہ کی حیثیت سے کام شروع کیا۔

آپ کی تمام معرکۃ الارا تصانیف صحیفے اور مضامین اسی دور کے بعد کے ہیں۔ اوپر کی گئی تحریر کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو اس بات تک لے کے آیا جائے کہ کس باطنی حقیقت کے ساتھ اُنہوں نے واپسی کی۔

حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں محبوب نے پسند کر لیا تو تم پہ علم کی بارش ہو جائے گی ورنہ کہاں تک پڑھو گے، حضرت امام غزالی نے اتنا تعلق اور نسبت سرکار ﷺ سے پیدا کی کہ آپ کو محبت عطا ہوگئی، وہ سرکار ﷺ کو پسند آگئے اور پھر علم کے در کھل گئے اور آج تک اس علم سے دنیا فیض یاب ہو رہی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔

امام غزالیؒ کو گزرے ہوئے تقریباََ 900 سال ہو چکے ہیں لیکن آج بھی اُن کے علمی نظریات کو مانا اور پڑھایا جاتا ہے اور اُن کا کام بہت سی تھیوریز کی بنیاد ہے، اس کالم کا دامن اتنا نہیں ہے کہ اُن کے علمی کام پر بات کی جائے اور نہ ہی میری بساط، صرف مثال کے طور پر کچھ پیش کرنا چاہوں گا۔

اپ کی معرکۃ الارا تصنیف تخافۃ الفلاسفہ صرف 18 گھنٹے میں مکمل ہوئی، جس میں کہ آپ نے 20 نکات پیش کیے جو کہ یونانیوں کے فلسفہ فکر کی تکفیر میں لکھے گئے، اس وقت یونانیوں کا فلسفہ دین اسلام پہ غالب آ رہا تھا ان 20 نکات میں سے چار نکات ایسے تھے جن پہ آپ نے فتویٰ صادر فرمایا کہ ان کو ماننے والا دین سے خارج اور واجب القتل ہے، یہ چار نکات ایسے تھے جو کہ باقی 16 نکات کی بنیاد تھے بلکہ یونانیوں کے سارے فلسفے کی بنیاد سمجھے جا سکتے ہیں۔

مختصراً یہ سمجھ لیں کہ یونانی عقل پرست تھے اور عقل کو وحی پر فوقیت دیتے تھے، یہ صرف ایک کام کا واجبی سا تعارف پیش کیا ہے، یہی ایک کام ہر مسلمان پر رہتی دنیا تک احسانِ عظیم ہے کہ حضرت امام غزالیؒ کی بدولت دین اسلام یونانی فلسفے کے اثرات سے محفوظ رہا۔

حضرت امام غزالیؒ کا فلسفہ علم اور دوسری تصنیفات پر اپنی عرضداشت پھر کبھی پیش کروں گا۔

اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Jang Ke Almiye

By Mubashir Ali Zaidi