Faqeeri Ke Liye Qaseeda
فقیری کے لیے قصیدہ

بے شمار درود و سلام سرکار دو عالم ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔
یوں تو فقیری عطا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فقیر پیدائشی ہوتا ہے، یہ بنایا نہیں جا سکتا، طبیعت کے کچھ رجحانات اور میلانات ایسے ہوتے ہیں جو کہ ایک چھوٹے بچے میں ہی نظر آ جاتے ہیں، ایک بے اعتنائی، بے رغبتی طبیعت میں شامل ہوتی ہے، ایک درویشی کیفیت جو کہ اہلِ نظر دیکھ سکتے ہیں کہ اِس بچے میں موجود ہے۔
جوں جوں وقت آگے بڑھتا ہے کچھ حالات و واقعات اِس بچے کے ساتھ ایسے ہو سکتے ہیں جو کہ اُس کی طبیعت میں اور برکت پیدا کریں اور اِن رجحانات اور میلانات کو بڑھائیں۔
کچھ جملے کچھ ورد کچھ قصیدے ایسے ہیں جن سے کہ فقیریاں عطا بھی ہو سکتی ہیں، لیکن اُس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کا دھیان آپ کی طلب ایک اخلاص کے ساتھ رب اور رب کے محبوب کی طرف رہے اور آپ اِن پیغامات کے انتظار میں رہیں جس سے کہ نظرِ کرم ہو سکتی ہے، دل کی دنیا بدل سکتی ہے۔
حضرت امام زین العابدینؑ ایک بہت بڑی شخصیت ہیں عالمِ اسلام کی، اِن پر کچھ لکھنا یا کہنا میری بساط سے تو باہر ہے، حضرت امام زین العابدینؑ جو کہ کربلا میں حصہ نہیں لے سکے تھے، آپ اُس قافلے میں شامل تھے جو کربلا تک پہنچا لیکن بہت بیمار تھے اور بیماری اور نقاہت کی وجہ سے حضرت امام حسینؑ نے آپ کو منع فرمایا تھا جنگ میں حصہ لینے سے۔
کربلا کے واقعے کے بعد آپ کو قیدی بنا لیا گیا، آپ کو اُن کی کیفیات کا اندازہ کرنے کے لیے خیال کی دنیا میں جانا پڑے گا اور اپنے خیال کی طاقت سے اُن کیفیات کو دیکھیں کہ سرکار زین العابدینؑ بیڑیاں پہنے، گلے میں طوق جس سے کہ اُن کی گردن مبارک پہ زخم ہو گئے تھے اور ریگستان میں میلوں پیدل چلایا گیا، سخت گرمی اور دھوپ میں اور جب آپ یزید کے دربار میں پہنچے قیدی کے طور پر تو وہاں انہوں نے کچھ جملے ارشاد فرمائے ہیں، یہ ایسے جملے ہیں کہ اگر کوئی اِن کی تاثیر و معرفت تک پہنچ جائے تو اُس کو فقیری عطا ہو سکتی ہے یہ جملے تھے
ان نلت یا ریح الصبا یوم الی ارض الحرم
بلغ سلامی روضتہ فیھا النبی المحترم
یعنی اے صبا آج سفر کر روزہ رسول کی جانب اور سلام پیش کر اُس دربار میں جہاں نبی محترم ﷺ ہیں۔
ایک تو حضرت امام زین العابدینؑ کی جسمانی کیفیت کے زخموں سے چور پابندِ سلاسل، اپنے پیاروں کی شہادت کا غم اور یاد اور ہر طرح کے غم سہنے کے باوجود اِس حال میں بھی آپ کا خیال دیکھیں، نہ کوئی شکایت، نہ گلا، نہ تکلیف کا اظہار، نہ ہی واسطہ رسول اللہ سے وابستگی کا، صرف سلام پیش کیا ہے آپ نے۔
یہ قصیدہ یا یہ جملے پورے ادب پہ بھاری ہیں اور تمام قسم کے درد و غم، کرب و تکالیف کی کیفیات کے غماز ہیں، بڑے بڑے درویشوں کو اِن قصیدوں سے فقیریاں عطا ہوئی ہیں۔
اگر آپ اِن کی تاثیر و معرفت تک پہنچ جائیں، تو آپ کو کچھ اندازہ ہو سکتا ہے اُس درد و غم کا اُس کیفیت کا کہ جس میں آل رسول ﷺ نے کربلا میں اپنی جان کی قربانی پیش کی۔
یہ جملے غماز ہیں تسلیم و رضا کے کہ جو رب کا حکم جو یار کی مرضی، ہم نے خود کو پیش کر دیا تیری رضا کے لیے، بظاہر جملے بہت سادہ سے ہیں لیکن اِن میں درد و غم کا وہ طوفان موجود ہے جس سے کہ آپ فقیری یا درویشی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔
میری گزارش ہے کہ اِن جملوں کا ورد کیا کریں اُن کیفیات کے خیال کے ساتھ جن سے حضرت امام زین العابدینؑ گزرے۔
اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔