Deen Mein Dard Ki Ahmiyat
دین میں درد دل کی اہمیت

لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذات اقدس پر۔
دین میں درد دل کی کیا اہمیت ہے، سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ درد دل کیا ہے، اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ درد دل شاعری میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ شاعر حضرات یہ اصطلاح اکثر استعمال کرتے ہیں۔ میرے نزدیک درد دل ایک روحانی اور احساسی نقطہ نظر ہے، اس کے ذریعے آپ کائنات کو دیکھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں۔
حضرت اقبال نے ارشاد فرمایا ہے کہ "درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو" حضرت انسان کا وجود درد دل، سوز و غم کے بغیر نامکمل ہے۔
قران کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ "اگر ہم قران کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ یہ پہاڑ جھکا جا رہا ہے اور پھٹا پڑا ہے اللہ تعالی کی مشیت سے اور ہم یہ مثالیں اس لیے بیان کرتے ہیں کہ لوگ غور و فکر سے کام لیں"۔
اللہ کریم نے انسان کے دل کا انتخاب کیا کہ قران کریم کو اس پر اتارا جائے۔ کیونکہ یہ دل ہی ہے جو کہ اس قدر درد و غم کو سمیٹے ہے کہ کلام پاک کو سنبھال سکے اور اس کو غور و فکر کی منزل تک پہنچائے۔
انسانی دل ایک راز ہے جس میں اللہ تعالی نے اتنی قوت اور طاقت باہم کی ہے کہ کلام پاک کو قبول کر سکے اور معرفت کی منزل تک پہنچائے۔ انسان کو ہی درد و فراق اور تڑپ عطا کی گئی ہے جو کہ انسانی وجود کا خاصہ ہے۔
یہ درد و غم حاصل ہے محبت کا اور احساس کا، محبت کس سے آپ سرکار ﷺ کی ذات اقدس سے اور ان کے وسیلے سے اللہ تبارک و تعالی کی ذات سے۔ یہ سوز و غم فرشتوں کو عطا نہیں ہے یہ حضرت انسان کے نصیب میں ہی ہیں۔ فرشتے محبت و عشق سے بے نیاز ہیں یہ انعام حضرت انسان کو ہی ودیعت کیا گیا ہے۔
اس لیے انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب دیا گیا ہے، کیونکہ وہ درد و غم سے اشنا ہے۔ "اماں عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپ سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عائشہ کدو پکایا کرو کہ درد مند دل کو تقویت پہنچاتا ہے" گویا مومن کے وجود کا خاصہ درد مند دل ہے۔
درد مند دل کے بغیر مومن مکمل نہیں ہو سکتا ایک درد مند دل رکھنے والا انسان مشیت الہی کی طرف سفر کرنے لگتا ہے اور اس کا راستہ انسانوں سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔ ایک درد رکھنے والا انسان کسی دوسرے انسان کے غم اور مصیبت کو اپنا درد محسوس کرتا ہے۔
انسانی آنکھ کو اتنی طاقت عطا نہیں کی گئی کہ وہ اللہ تبارک و تعالی کو دیکھ سکے۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ اللہ اور اللہ کے محبوب کی یاد میں آنسوؤں کا آنا یا رقت طاری ہونا دراصل ملاقات ہی ہے یہ احساس یہ آنسو خود خدا ہیں خود رسول ہیں، اللہ ایک احساس ہی تو ہے جو کہ خیال کے راستے آپ کے دل کی زمین پر اترتا ہے اور آنسوؤں کی شکل میں آنکھ سے ٹپک پڑتا ہے۔
اس لیے کہتے ہیں درد ہی اللہ ہے اور درد ہی رسول ھیں۔
جن کو درد و غم عطا ہو چکے ہوتے ہیں وہ اس تڑپ کا سودا نہیں کرتے۔ آپ سرکار ﷺ ایک راستے سے گزر رہے تھے کہ کچھ صحابہ کرام اونچی آواز میں ہنس رہے تھے آپ سرکار نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو تم زیادہ روتے اور کم ہنستے۔
غم ایک مستقل کیفیت کا نام ہے یہ نہیں ہو سکتا آپ سال میں ایک دن رکھ لیں جس میں آپ غم کو منائیں، غم ہے تو یہ مستقل ہے تا ابد ہے اس غم سے باہر آنا ممکن نہیں، یہ آپ کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے اور تمام اعمال اسی درد و غم کی ردا میں گزرتے ہیں۔
کربلا والوں کا غم ہے تو یہ مستقل ہے یہ صرف 9 یا 10 محرم کو نہیں ابھرتا جن کو غم حسین ہے تو یہ مستقل ہے تمام عمر اسی غم میں گزر جاتی ہے اور حسنین کریمین کا غم لینے والے کو ولی بنا دیا جاتا ہے۔
درد و غم والوں کو بہت سے معجزات عطا ہوتے ہیں اس کا حاصل بے حد حساس طبیعت ہے، حساسیت ہی روحانیت ہے جس میں بزرگان دین سفر کرتے ہیں۔
آج کل دین کو مکینیکل بنا دیا گیا ہے اور بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ دین کے ماخذ یعنی احساس اور درد پہ زور دیا جائے اور اس کو سمجھا جائے۔
اگر ہم اپنے اندر یہ احساس پیدا نہیں کر سکتے تو ہم دین سے بہت دور ہیں اور صحیح معنوں میں قران اور حدیث کو سمجھ نہیں سکتے اور نہ ہی عمل میں داخل ہو سکتے ہیں۔ میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں اور سنے بھی ہیں جو سرکار ﷺ کے غم میں روتے ہیں، درد و غم ان کی ذات کا پہناوا بن جاتا ہے وہ دنیاوی الائشوں سے پاک ہو چکے ہوتے ہیں اور احساس اور درد کے اعلی درجے پر فائز نظر آتے ہیں۔
عارفانہ کلام سنتے ہوئے یا نعت شریف سنتے ہوئے رقت طاری ہو جاتی ہے اور آنسو حسن خیال کا زاد راہ ٹھہرتے ہیں۔ اس کیفیت میں دنیا سے بے رغبتی غالب آ جاتی ہے بلکہ دنیا کو چھوڑ کر ہی آپ اس کیفیت میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ اللہ تعالی کا خاص کرم اور فضل ہوتا ہے یہ ہر آدمی کا نصیب نہیں۔ ایسی محفل میں بیٹھنے والے بھی با نصیب کر دیے جاتے ہیں۔ پارس کے پاس بیٹھنے والا پتھر بھی پارس ہی کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے تو کہتے ہیں کہ محبتوں والے بھی محبت عطا کر سکتے ہیں۔
ہمارے خاندان میں ایک نوجوان بچہ تھا نوجوان بچے جیسے لا ابالی سے ہوتے ہیں غم و فکر سے آزاد اور نہ آشنا، اس کے والد اس کو ایک محبتوں والے بزرگ کی محفل میں لے گئے اور وہ بچہ بیان کرتا ہے کہ میں بزرگ کے دیدار میں مصروف تھا کہ انہوں نے نعت شریف کے کچھ اشعار پڑھے اور رونے لگے رقت طاری ہوگئی یہ دیکھتے دیکھتے میری کیفیت بھی بدل گئی اور میں بھی زار و قطار رونا شروع ہوگیا، آپ یہ دیکھیں کہ ایک نوجوان بچہ جس کو کہ کوئی تعارف ہی نہیں ہے ان کیفیات سے کیسے اس کا دل بدل گیا اور وہ درد و غم کی دنیا میں داخل کر دیا گیا یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔
اللہ پاک ہمیں درد و غم سے آشنا فرمائے اور حقیقتوں کی طرف سفر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔