Corona Aur Kisan
کرونا اور کسان
موجودہ حکومت کے 2018 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان کی زرعی معیشت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ناقص حکمرانی، آب و ہوا میں تبدیلی کے اثرات، جدید ٹیکنالوجی کی کمی، چھوٹے زمیندار اور مالیاتی شعبے تک رسائی نہ ہونے کے سبب زراعت کے شعبے کی جان نکال لی ہے۔ اب ایک اور خطرہ قریب ہے، یعنی پاکستان میں کورونا وائرس۔
اگر کوویڈ 19 ہماری معیشت اور معمولات میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے تو خوراک کی پیداوار خطرے میں پڑ جائے گی۔ حالیہ برسوں میں، ایبولا، سارس، میرس جیسے عالمی وبائی امراض نے خاص طور پر کمزور طبقات کے لئے کھانے کی رسد پر منفی اثر پیدا کیا ہے۔
کاشتکار پاکستان میں تین بڑی فصلوں کی کٹائی کے لئے تیار ہیں۔ سب سے پہلے، گندم، جو ایک پاکستانی شہری کی روزانہ خوراک کا 60 فیصد ہے۔ گندم کی فصل اب تیاری کے حتمی مراحل میں ہے اور کچھ ہفتوں کے بعد وہ مارکیٹ میں آجائے گی۔ پیداوار میں کمی آرہی ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو چند ماہ قبل 300,000 ٹن کی درآمد منظور کرنے پر مجبور کہوئی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حالیہ مون سون بارشوں نے طوفانی آندھی اور تیز ہواؤں کے ساتھ مل کر پیداوار کے ہدف کو متاثر کیا۔
دوسرے، آلو اب بھی کھیتوں میں نشونما پا رہے ہیں اور بارش کی وجہ سے دیر سے فصل کاٹنے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخر میں، مکئی اب بھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اگلے 90 دنوں میں بیماریوں پر قابو پانے کے لئے کیمیکل اور فصل کی نشونما کی ضرورت ہوگی۔
چونکہ حکومت ملک بھر میں ممکنہ طور پر لاک ڈاؤن کی تیاری کر رہی ہے، لہذا یہ صورتحال شہریوں خصوصا شہری دیہاڑی دار مزدوروں اور دیہی غریبوں کے لئے مشکل بن سکتی ہے۔ کاشتکار برادری اور کسان بھی متاثر ہوں گے۔ لاک ڈاؤن کے بعد بین اضلاعی سفر روکا جاسکتا ہے، جس کی وجہ سے گندم کی کٹائی کرنے والی مشینیں دستیاب نہیں ہوں گی۔ مزید یہ کہ موجودہ فصلوں کے لئے کیمیکلز اور بیج کی ترسیل متاثر ہوسکتی ہے جس سے بیماری کا خطرہ بڑھ جائے گا اور فصلوں کی آمدنی میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اور اگلی چاول کی فصل کو بونے کیلئے مشکلات پیدا ہوں گی۔
گندم کی موجودہ فصل کی کٹائی ملک میں غذائی ترسیل کو یقینی بنانے کے لئے بہت ضروری ہے۔ چاول کی فصل کی بوائی میں تاخیر سے مجموعی رسد بھی متاثر ہوگی۔ آلو کی فصل نے کورونا وائرس پھیلنے سے پہلے مارکیٹ سے اچھی قیمت وصول کی تھی لیکن اب صورتحال مارکیٹ میں محدود خریداروں کی وجہ سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ممکنہ طور پہ مارکیٹوں اور سرحدوں کی بندش وجہ سے شاید ہی متوقع قیمت وصول ہو۔
لاجسٹک پابندی کی وجہ سے بیج، کیمیکل کی عدم دستیابی اور بجلی کے بلوں اور مزدورں کی اجرت سمیت کھیتوں کو چلانے کے لئے باضابطہ قرضوں کی عدم فراہمی زرعی معیشت کو یقینا مشکل کردے گی۔ اس وجہ سے مکئی کی فصل کی کم پیداوار ہوسکتی ہے جو مرغی کی فیڈ کے لئے ایک اہم جز ہے اور دودھ کی صنعت کے لئے چارہ ہے۔ یہ صورتحال روزمرہ کے استعمال کے دودھ، گوشت اور سبزیوں کی پیداوار متاثر کرے کی۔ افرادی قوت کی عدم دستیابی اور لاجسٹک ناکہ بندی کی وجہ سے فوڈ پروسیسنگ بھی مشکل ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے فارم کی آمدنی میں ایک اور کٹوتی ہوگی۔
مقامی سطح پر، لاک ڈاؤن کے دوران، انتظامیہ عوام کی حفاظت کے لئے مارکیٹ آپریشن کو ریگولیٹ کرے گی۔ اگر اناج کی منڈیاں اور سبزی منڈی بند ہوجائیں تو کسان کی پیداوار کہاں جائے گی؟ اور اگر صرف سبزی منڈی کھلی ہے اور دکانداروں کو اپنی دکانیں کھولنے پر پابندی عائد کردی جائے، مارکیٹ میں نیلام ہونے والی پیداوار کون خریدے گا؟ مجموعی طور پر نقصان کاشتکاروں کا ہوگا، جو پہلے ہی مہنگی پیداواری لاگت سے نمٹ رہے ہیں۔
حکومت کا کردار اب اور بھی اہم بن چکا ہے۔ اسے خوراک اور زراعت کے معاملات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ کاشتکار برادری کے لئے مالی اعانت، ٹیکس اور قرض معافی کے ساتھ پالیسیوں نافظ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کھانے اور دودھ کی مصنوعات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ وبائی مرض سے لڑنے کے مشکل وقت میں کم آمدنی کسانوں کے مالی تحفظ کا بندوبست کرنے کی ضرورت ہوگی۔ زیادہ تر کسان موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ حکومت کو سیلولر کمپنیوں سے اس وبا کے دوران سستے انٹرنیٹ کی فراہمی میں مدد کے لئے بات چیت کرنا چاہئے تاکہ وہ اس صورتحال سے باخبر رہ سکیں اور انھیں اس بات سے آگاہ کرسکیں کہ اس بحران سے نمٹنے کے لئے حکومت سے تعاون کرنا کتنا ضروری ہے۔