Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Zubair Rehman/
  3. Ye Kaisay Kaisay Log Thay Jo Guzar Gaye

Ye Kaisay Kaisay Log Thay Jo Guzar Gaye

یہ کیسے کیسے لوگ تھے جو گزر گئے

عزیزاللہ 1918 میں پیلی بھیت، یوپی، بھارت میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان حقیقتاً دہلی کا تھا۔ چونکہ ان کے دادا سمیع اللہ فریڈم فائٹر تھے، اس لیے انگریز استعمار نے انھیں پھانسی دے دی تھی۔

بعدازاں ان کے خاندان کو سامراجی کارندوں نے تنگ کرنا شروع کیا، اس لیے ان کا خاندان مرادآباد منتقل ہو گیا۔ جب وہاں بھی کارندے انھیں پریشان کرنے لگے تو پھر ان کا خاندان پیلی بھیت ہجرت کرگیا، وہیں عزیزاللہ کی پیدائش ہوئی، اسکول لائف میں ہی اردو کے مایہ ناز ادیب کرشن چندرکی ساری کتابیں پڑھ چکے تھے۔

اسکول کی تعلیم سے فارغ ہوکر علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں سائنس گریجویشن کیا۔ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران طلبہ تحریک سے وابستہ رہے اور بھارتیہ نوجوان سبھا کے رکن بنے جس کے بانی بھگت سنگھ تھے۔ عزیزاللہ سبھاش چندر بوس سے متاثر تھے اور ان سے ملاقات بھی کی۔ بعد میں خود نیشنل کانگریس پارٹی کے رکن بن گئے۔ کانگریس میں اس وقت دو دھڑے تھے، ایک نرم پنتھی اور دوسرا گرم پنتھی۔ نرم پنتھی کا مطلب سرمایہ دارانہ نظام کا رجحان اور گرم پنتھی کا مطلب کمیونسٹ۔ تقسیم ہند کے فیصلے کے بعد جواہر لعل نہرو پیلی بھیت کے دورے پر اس لیے آئے تھے کہ عوام کو تقسیم پر آمادہ کریں۔ اس جلسے میں عزیزاللہ بھی شریک تھے، وہ تقسیم ہند کے خلاف تھے۔ انھوں جواہر لعل نہرو سے سوال کیا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں، تقسیم ہند سے ہندوستان دو سو سال پیچھے چلا جائے گا۔ جس پر جواہر لعل نہرو کا چہرہ لال پیلا ہوگیا۔

انھوں نے بھارت میں زیادہ کام کسانوں میں کیا، اس تنظیم کا نام بھارتیہ کسان سبھا تھا۔ انیس سو پچاس میں وہ اپنے خاندان سمیت جیکب آباد، پاکستان آگئے۔ یہاں آکر کمیونسٹ پاٹی آف پاکستان اور سندھ ہاری کمیٹی میں شامل ہو کر کام کرنے لگے۔ جیکب آباد میں انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کی تین رکنی ایک سیل تشکیل دیا، جس میں بدرالدین، انتظار حسین اور برکت علی آزاد شامل تھے، بعدازاں برکت علی آزاد کو ہاری کمیٹی اور کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے صوبائی الیکشن لڑایا اور وہ جیت گیے۔ ریڈیو پاکستان سے غیر سرکاری اعلان میں ان کی جیت کی تصدیق بھی ہوئی لیکن بعد میں ری کاؤنٹنگ کرکے سرکاری اعلان میں ہارنے کی تصدیق کی گئی۔ انیس سو اکاون میں وہ کراچی آگئے۔ یہاں ڈاکٹر اعزاز نذیر کے ساتھ مل کر مزدوروں کو منظم کیا۔

عزیزاللہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی مرکزی کمیٹی کے رکن، پولٹ بیورو اور سیکریٹریٹ کے رکن تھے۔ انیس سوا کاون میں پارٹی کے فیصلے کے مطابق عزیزاللہ کو بلوچستان میں پارٹی کی تشکیل کے لیے بھیجا گیا۔ انھوں نے وہاں تین رکنی ایک پارٹی سیل تشکیل دیا۔ انیس سو اکاون میں کوئٹہ میں پارٹی سیل تشکیل دینے کے بعد سائیں کو پشاور بھیجا گیا۔ وہاں انھوں نے کاکا صنوبر خان، کاکا خوشحال خان اور افضل بنگش پر مشتمل تین رکنی سیل قائم کیا۔ اس سیل کے سیکریٹری افضل بنگش تھے اور انچارج عزیزاللہ ہوا کرتے تھے۔

پارٹی نے عزیزاللہ کو عوامی لیگ میں کام کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے وہ پاکستان کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کے دست وبازو بنے۔ جب سہروردی صاحب وزیراعظم بنے تو ماڑی پورایئرپورٹ پر جہاز سے اترتے ہی ان سے کہا کہ " بتاؤ تمھیں پاکستان میں کیا چاہیے؟ جس پر انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ " ہمارے چار ساتھی امام علی نازش، کاوش رضوی وغیرہ جیل میں قید ہیں انھیں رہا کردیں۔" سہروردی صاحب جہاز سے اترنے والی سیڑھی پر کھڑے ہو کر حکم لکھا کہ انھیں فوراً رہا کیا جائے۔ اسی دن شام چھ بجے ان سب کی رہائی عمل میں آئی۔ جب کہ عزیزاللہ اس وقت شاہ فیصل کالونی تین نمبر میں چار بیٹوں اور دو بیٹیوں سمیت انتہائی غربت اور نیم فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے تھے۔ شہید سہروردی صاحب کی وزارت عظمی کے سال میں برطانیہ اور فرانس نے مصر پر حملہ کردیا۔

جس پر شہید حسین سہروردی نے مذمتی بیان بھی جاری کیا۔ بعدازاں انھیں شاہ ایران کے دعوت پر ایران جانا پڑا، وہاں ان کے ساتھ پاکستان میں متعین امریکی سفیر بھی کیے گئے تھے، نہ جانے وہاں کیا بات ہوئی۔ واپسی میں سہروردی صاحب کچھ اعلان کرنے والے تھے کہ اس سے قبل عزیزاللہ نے سہروردی کے ساتھ کھڑے نیپ کے سیکریٹری جنرل محمود الحق عثمانی کو نیچے سے ایک پرچی بھجوائی، جس میں یہ درج تھا کہ " یہ اعلان آپ نہ کریں، سہروردی صاحب کو خود کرنے دیں۔" سہروردی نے یہ اعلان کیا کہ فرانس اور برطانیہ کے مصر پر حملے کی جو مخالفت کرتے ہیں وہ کمیونسٹ ہیں یا پھر انڈین ایجنٹ ہیں، پھر عزیز اللہ وہاں سے غائب ہوگئے۔

سی پی کی رہنمائی میں سندھ ہاری کمیٹی نے ہاری الاٹی تحریک چلائی۔ اس وقت سندھ کی کمیونسٹ پاٹی ہی پاکستان کی پارٹی تصور کی جاتی تھی۔ ہاری الاٹی تحریک کے دیگر مطالبات میں اہم دو مطالبات تھے۔ ایک یہ کہ ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کو پچیس نہیں پچاس ہزار روپے براہ راست دینے کی بجائے ان رقوم سے انھیں حکومت خود کوئی کاروبار مہیا کرے۔ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ ہاریوں کو پچیس ایکڑ زمین دینے کے بجائے پچاس ایکڑ زمین دی جائے۔

ان دونوں مطالبات پر ہاری اور ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین خوش تھے۔ ان دونوں مطالبات کو پارٹی اور ہاری کمیٹی نے منوا لیا۔ اس تحریک کے شروع ہونے سے قبل ہاریوں کی رہنمائی کے لیے کراچی سے دو افراد کو پارٹی نے بھیجنے کی تجویز دی۔ جس پر کچھ نے جانے سے منع کردیا۔ جب کہ عزیزاللہ اور عزیز سلام بخاری نے ہاریوں کی تحریک میں شریک ہونے کی تجویز دی۔ چونکہ عزیزاللہ اردو بولنے والے اور عزیز سلام بخاری گجراتی بولنے والے تھے اس لیے دیگر ساتھیوں نے یہ کہا کہ آپ دونوں کو سندھی سیکھنی ہے۔ جس پر دونوں نے ہامی بھری اور سندھی سیکھی۔ پھر عزیزاللہ سندھی میں تقریر کرنے لگے، اس لیے جب کراچی لوٹتے تھے تو دوستوں نے انھیں سائیں کہنا شروع کر دیا۔ انھوں نے شاہ فیصل کالونی میں سو کوارٹر کو مستقل کروانے کی تحریک چلائی اور بارہ نکاتی مطالبات منوایا۔ انھوں نے کراچی میں خاک روبوں، بھکاریوں اورطوائفوں کی بھی یونین تشکیل دی تھی۔ سیکیورٹی پریس یونین کی اسماعیل یوسف کے ذریعے رہنمائی کرتے تھے۔

عزیز اللہ ہندوستان سے جیکب آباد آنے کے بعد اسکول میں سائنس کے استاد تھے، بعدازاں وہ نیوی میں افسر کی نوکری پہ لگے۔ بعدازاں یہ نوکری چھوڑکر پارٹی کے کل وقتی رہنما بن گئے۔ ایک بار کوہ قاف کے ایک اسکول میں عزیز اللہ کو دعوت دی گئی۔ ان کے بولنے کی باری آئی تو انھوں نے کہا کہ آپ لوگوں کے بارے میں مجھے زیادہ کچھ نہیں معلوم۔ اسکول کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ کوہ قاف کی پریاں ہوتی ہیں۔ اس پرصدر تقریب اسکول کی پرنسپل جو موٹی سی تھیں نے کہا کہ "یہ پری آپ کے سامنے کھڑی ہے۔"مذاق کے بعد پرنسپل نے کہا کہ "یہ ہماری خوش قسمتی ہے یا بدقسمتی کہ ہم خوب صورت ہیں۔ لوگ باہرسے آتے تھے اورہماری غربت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیسے دیکرہماری لڑکیوں کو بیاہ کرلے جاتے تھے۔ اب انقلاب کے بعد ہمارے ہاں سو ڈاکٹروں میں سے ساٹھ خواتین ہیں اور پچاس انجینئرز۔"یہ ہیں انقلاب کے برکات۔ عزیزاللہ چارسال افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کے مہمان رہے۔ اس طرح وہ کمیونسٹ سماج کے قیام کے لیے تادم مرگ جدو جہد کرتے ہوئے اکیس جون دوہزار دومیں شاہ فیصل کالونی نمبر تین رات کو ہم سے جسمانی طورپہ جدا ہوگئے۔

Check Also

Nat House Mein Jashn Aur Abid Raza Kotla Ki Khamoshi

By Gul Bakhshalvi