Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Zubair Rehman/
  3. Riyasti Jabar Ki Tareekh

Riyasti Jabar Ki Tareekh

ریاستی جبر کی تاریخ

دنیا میں دریافت ہونے والی تہذیبوں میں موئن جو دڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا، مہرگڑھ اورگجرات (ہندوستان) میں دریافت ہونے والی سب سے قدیم تہذیبیں بتائی جاتی ہیں۔ جان مارشل نے موئن جودڑو پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے اس کی بنیادی باتیں عوام کے سامنے لائی ہیں۔ حال ہی میں یوسف شاہین نے جان مارشل کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے بڑے اہم نکات اٹھائے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ موئن جو دڑو میں کوئی ریاست تھی، حکومت تھی، مذہب تھا، بادشاہت تھی، فوج تھی اور نہ وطنیت کا کوئی تصور۔ یہاں کی دریافتوں میں سب کچھ حاصل ہوا ہے سوائے اسلحہ (ہتھیار) کے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست کو وجود میں آئے ہوئے چند ہزار سال ہوئے جب کہ لاکھوں برس سے دنیا کے لوگ ریاست کے بغیر زندگی بسرکرتے تھے۔ یعنی لوگ انسانی برادری یا نسل انسانی یا آج کی زبان میں کمیون سسٹم میں زندگی بسرکرتے تھے۔

موئن جو دڑو میں سونے کی کوئی عبادت گاہ ملی، بادشاہ کا کوئی محل ملا نہ فوجی بیرکس ملے۔ جب غلامانہ نظام وجود میں آیا تو ریاست قائم ہوئی پھر طبقاتی نظام اور توسیع پسندی میں اضافہ ہوتا گیا۔ پانچ ہزار سال قبل از مسیح جب موئن جو دڑو اور ہڑپہ وغیرہ میں ریاست کا وجود نہیں تھا توکوئی کسی پر حملہ آور ہوتا تھا اور نہ قتل و غارت گری کرتا تھا۔

مل جل کر پیداوار کرتے تھے اور مل جل کر بانٹ لیتے تھے۔ ریاست کے وجود میں آنے کے بعد آج کا انتہائی مہذب علاقہ (اسکینڈینیویا) ناروے اور ڈنمارک کے بحری قذاق، کرائے کے قاتل ناروے اور ڈینمارک کی بادشاہتوں کی سرپرستی میں ہزاروں فوجیوں نے سیکڑوں کشتیوں سے انگلینڈ، پر 825ء میں دھاوا بولا۔ یہ حملے 825ء سے 1173ء تک انگلینڈ، آئر لینڈ اور فرانس پر بارہا ہوتے رہے۔

جب انگلینڈ پر اسکینڈینیوین شاہی حملہ آوروں نے قبضہ کیا تو بیس ہزار حملہ آوروں نے اسی ہزار آبادی کا قتل عام کیا۔ کھلے بندوں لڑکیوں اور عورتوں کی بے حرمتی کی۔ انھیں برسوں برہنہ ہوکر چلنے پھرنے پر مجبور رکھا۔ انگلینڈ، آئرلینڈ اور فرانس کے وسائل کو لوٹا اور اب اسکینڈینیویا دنیا کا مہذب ترین خطہ کہلاتا ہے۔

(حوالہ یوسف شاہین کی کتاب برطانوی بادشاہتوں کے ماتحت غلام قومیں )۔ حال ہی میں ایک رپورٹ آئی ہے کہ کرپشن سے پاک دنیا کا اول ترین ملک ڈنمارک ہے اور بدترین کرپشن والا ملک صومالیہ ہے۔ گزشتہ کئی برسوں تک صومالی بحری قذاق دنیا میں بہت بدنامی کے باعث بنے۔ وہ بڑے بڑے پانی کے جہازوں کو چھوٹی کشتیوں میں سوار ہو کر قبضہ کر لیتے اور تاوان لے کر چھوڑتے تھے۔ نیشنل جیو گرافک میں ایک ڈاکیوم نٹری دکھائی گئی جس میں یہ دکھایا گیا کہ بانس اور لکڑیوں سے بنا ہوا ایک بوسیدہ باڑ نما جیل، جس میں صومالی قذاقوں کو قید رکھا گیا تھا۔

ایک فرانسیسی رپورٹر نے ایک بحری قذاق سے سوال کیا کہ آپ اتنی چھوٹی کشتی کے ذریعے بڑے بڑے جہازوں کو کیسے قبضہ کر لیتے ہیں؟ جس پر قذاق نے جواب دیا کہ "بھائی صاحب! بھوک سب کچھ کروا دیتی ہے۔" پھر دکھایا بھی کہ ایک چھوٹی کشتی جس پر تین چار افراد سوار تھے پانی کے جہازکے قریب گئے اور جہاز پر ایک رسہ پھینکا اور اسے پکڑ کر جہاز میں چڑھ گئے پھر اسلحہ تان کر قبضہ کر لیا۔

انھوں نے فرانسیسی صحافی کو کہا کہ میاں! ہم تو آپ کو بھی اغوا کر سکتے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ اسکینڈینیوین عیاشیوں اور مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے حملہ آور ہوئے اور صومالی قذاق بھوک مٹانے کے لیے۔ ابھی چند دنوں قبل امریکا کی نیشنل سیکیورٹی کورٹ آف جسٹس نے اٹھارہ ملکوں کے اٹھارہ افراد کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کرنے پر ان کے) امریکا سے لین دین) امریکی ویزے اور امریکا میں موجود ان کی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس ضبط کر لیے جائیں گے۔

ان اٹھارہ افراد میں میانمار (سابقہ برما) کے چیف آف آرمی اسٹاف، صومالیہ کے ایک سنگین قاتل، کانگو (سابقہ زائرے)، سلواکیہ کے ایک قاتل فوجی جنرل اور پاکستان کے ایس ایس پی راؤ انوار جس نے چار سو سے زیادہ افراد کا قتل کیا جن میں نقیب اللہ محسود (جن کے والد کا حال ہی میں انتقال ہوا) بھی شامل ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان لوگوں نے سنگین جرائم اور قتل کیے ہیں۔ مگر معروف امریکی انارکسٹ دانشور اور ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جو کہ اس وقت دنیا کے معروف ترین ماہر لسانیات ہیں کا کہنا ہے کہ " امریکی سامراج نے بلاواسطہ اور بالواسطہ تقریباً نوے ملکوں میں مداخلت کر چکا ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا۔"

یہ قتل عام صدر ابراہم لنکن کے علاوہ ہر دور میں ہوا۔ تو کیا امریکا کے سارے صدور اس کے ذمے دار ہیں؟ اگر ہیں تو نیشنل سیکیورٹی کورٹ آف جسٹس کو کروڑوں لوگوں کے قاتل نظر نہیں آئے۔ 1962ء میں انڈونیشیا میں پندرہ لاکھ کمیونسٹوں، امن پسندوں اور جمہوریت پسندوں کو جنرل سوہارتو نے رجعتی مذہبی جماعت کے ساتھ مل کر قتل عام کیا۔

ویتنام، کمبوڈیا اور لاؤس میں تئیس سال تک امریکا بمباری کرتا رہا جس کے نتیجے میں بائیس لاکھ انسانوں کا قتل ہوا، کوریا میں 1951ء سے 1953ء تک لاکھوں انسانوں کا قتل کیا، افغانستان میں آٹھ لاکھ، عراق میں دس لاکھ، شام میں چھ لاکھ، یمن میں تین لاکھ اور پھر چلی، نکاراگوا، ایکواڈور، گوئٹے مالا، لیبیا اور ایران وغیرہ میں کروڑوں انسانوں کا امریکی حکمرانوں نے قتل عام کیا، اس پر وہ کیوں خاموش ہیں؟ یہی صورتحال برصغیر کی ہے۔ پاک بھارت کی تقسیم میں اٹھائیس لاکھ اور بنگلہ دیش بننے میں تیس لاکھ انسانوں کا قتل ہوا لیکن آج بھی دنیا کی غربت چالیس فیصد برصغیر میں پلتی ہے۔

ہندوستان کی مودی سرکار نے مسلمانوں کے علاوہ ساری اقلیتوں کو شہریت دینے کا بل لوک سبھا میں ایک سو بیس کے مقابلے میں ایک سو پچیس ووٹوں سے منظور کر لیا جس کے خلاف ہندوستان کے لاکھوں شہری سراپا احتجاج ہیں۔

اس احتجاج میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ، طلبا، مزدور، کسان پیش پیش ہیں۔ گوہاٹی تا ممبئی کے عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ پاکستان میں بھی سامراجی اشاروں پہ لاکھوں انسانوں کا خون بہا۔ پاکستان کی سرزمین سے امریکا نے ملاؤں کو فوجی تربیت دے کر افغانستان میں داخل کیا اور سامراج مخالف بائیں بازو کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ آج بھی پاکستان کی تاریخ کا بدترین سانحہ رونما ہوا۔ وکلا نے لاہور میں دل کے اسپتال پر ایک معمولی جھگڑے پر دھاوا بولا۔ اسپتال پر پتھراؤ کیا، معالجوں پر حملہ آور ہوئے، مریضوں کے ناک سے آکسیجن ماسک نکال دیا، ان کے تیمار داروں پر تشدد کیا، گاڑیوں، کھڑکیوں، دروازوں اور اثاثوں کی توڑ پھوڑ کی۔ اس حملے میں تین مریض جن کی دیکھ بھال سے جان بچائی جا سکتی تھی، وہ جان سے جاتے رہے۔

اور ستم ظریفی یہ کہ ملک بھر کے کسی بھی بار کے ذمے داران نے اس واقعے کی مذمت تک نہیں کی۔ وکلا نے صحافیوں کو بھی نہیں بخشا، ان کو بھی مارا پیٹا اور کیمرہ چھینا، گولیاں برسائیں، جن میں وزیر اعظم کے بھانجے بھی شریک تھے، انھوں نے پولیس وین کو آگ لگائی۔ ان سارے واقعات پر ریاستی آلہ کار منہ کھولے دیکھتے رہے۔ اس سے کیا یہ ثابت نہیں ہوا کہ ریاست عوام کی محافظ نہیں بلکہ صاحب جائیداد طبقات کی محافظ ہے۔ لہٰذا عوام کے مسائل مکمل طور پہ تب حل ہوں گے جب ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا۔ دنیا ایک ہو جائے گی، پھر دنیا کے سارے وسائل کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔

Check Also

Brahui Zaban CSS Nisab Mein

By Asadullah Raisani