میڈیا وار میں ہم کہاں کھڑے ہیں ؟
عالمی یوم صحافت کے حوالے سے فکری نشست کا اہتمام ہوا، بزرگ صحافی مسیح اللہ خان جام پوری نے کہا اہم فریضہ صحافیوں کا ہے کہ صحافت کا لفظ صحیفے سے ماخوذہے آج ضرورت خود داری، خود انحصاری اور قومی وقار کے تحفظ کی ہے، جان کے تحفظ کے ساتھ آن کا تحفظ بھی اس سے زیادہ اہم ہے۔ آج صحافی برادری صرف نئی مشینوں اور ٹیکنالوجی کو جدیدیت یا جدید صحافت کا نام نہ دے بلکہ رپورٹنگ اور خبرکی دنیا میں انقلاب لائے۔ میں نے اپنی گذارشات میں کہا کہ اب سوشل میڈیا بھی موثر طاقت کے طورپر سامنے آیا ہے مگر اس کی ساکھ نہیں آج کا سوال یہ ہے کہ میڈیا وار میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اگرچہ آج کی اخباری صحافت اور برقی صحافت میں بہت تبدیلی اور جدت آ گئی ہے تاہم صحافت کا معیار آج بھی انہی اخلاقیات اور اصول و ضوابط کا متقاضی ہے جن کی بنیاد برصغیر کے نامور مسلمان صحافیوں اور اہل قلم نے رکھی تھی۔ اس میں تو کوئی کلام ہی نہیں کہ ہمیں جدید صحافت کے تمام تقاضوں سے ہم آہنگ ہو نا چاہیے لیکن ہمیں اپنی صحافتی روایات کی بھی پاسداری کرنی چاہیے۔
صحافت کو جاننے کے لیے اس کے پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔ قیام پاکستان سے قبل برصغیر کی تاریخ کو صحافت کے تناظر میں دیکھا جائے تو بہت ہی حیران کن واقعات سامنے آتے ہیں۔ 1857ء کی جنگ کے بعد بدیسی حکمرانوں نے حریت پسندوں کے ساتھ ساتھ قلم کی آزادی پر بھی حملہ کیا اور آزادی کیلئے لکھنے والے اخبار اور رسائل بند کر دیئے۔ گو کہ اس زمانے میں اخبار زیادہ شائع نہیں ہوتے تھے لیکن بدیسی حکمرانوں کو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا "فارسی اخبار " بھی برداشت نہ ہوا اور اسے بھی بند کیا جو کہ 1841ء میں شروع ہوا تھا، اور اس میں محض سرکاری نیوز لیٹر وغیرہ جاری ہوتے تھے۔ بند ہونے والے اخبارات میں مولانا حسین احمد آزاد کے والد مولوی محمد باقر کا 1836 میں جاری ہونیوالا اردو اخبار، سرسید احمد خان کے بڑے بھائی سید محمد خان کا 1837 میں جاری ہونے والا " سید الاخبار " بھی شامل تھا۔
1857ء میں آزادی صحافت اور اخبارات پر سب سے بڑا حملہ بدیسی حکمرانوں نے کیا اس کے ٹھیک ایک سو ایک سال بعد یعنی 1958ء میں آزادی صحافت پر اس سے بھی بڑا حملہ ایوب خان کے مارشل لاء کے دور میں کیاگیا جس کے باعث پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات پاکستان ٹائمز، امروز، لیل و نہار اور سپورٹس وغیرہ پر رات کی تاریکی میں کمانڈو ایکشن کے ذریعے قبضہ کر لیا گیا، صحافیوں پر تشدد ہوااور حکومت نے ان اخبارات کو اپنے غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا، جبر کے باعث ان اخبارات اور اداروں کی کیفیت بیگار کیمپ کی مانند ہوگئی، کسی کو کسی بھی طرح کا کوئی حق حاصل نہ تھا، کام کرنے والے صحافیوں کو ڈیلی ویجز مزدورسمجھاجانے لگا۔
صحافیوں اور ملازمین نے اس پر احتجاج کیا، ان کے دباؤ پر 1964 میں ایک خودمختار ادارہ " نیشنل پریس ٹرسٹ " قائم کیا گیا، اس میں ملازمتوں کے رولز تو طے ہوئے ملازمین کے معاشی مسئلے بھی حل ہوئے لیکن آزادی صحافت عنقا رہی، ایوب خان کے دور میں بھٹو تحریک کے خلاف سب سے زیادہ " نیشنل پریس ٹرسٹ " کے اخبارات نے لکھا، بھٹو صاحب بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے بھی اس ادارے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیا الحق آئے، صحافیوں نے ضیا کے مارشل کو خوش آمدید نہ کہا اور پھر انتقامی کارروائیاں شروع ہوئیں۔ یہ ادارے بہت کمزور اور قریب المرگ ہو گئے۔ جنرل ضیا الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میاں نواز شریف نے 1997ء میں ٹرسٹ کے اخبارات کو پرائیوٹیائز کر دیا، لیکن ٹرسٹ کے مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی قانون سازی نہ کی گئی جس کے باعث کھربوں کی جائیداد ضائع ہوگئی اور آج بھی ہو رہی ہے اور ملازمین بھی رُل گئے البتہ امروز لاہور اورپاکستان ٹائمز کے ملازمین گولڈن بینڈ شیک کر دیا گیا مگر سرائیکی وسیب سے امتیازی سلوک ہوا اور امروز ملتان کے ملازمین آج بھی دھکے کھا رہے ہیں اور بہت سے ملازمین بیماری، بوڑھاپا اور غربت کے باعث بغیر علاج سسک سسک کر مر گئے۔ پہلے وقتوں کے صحافی بہت اچھے ادیب بھی ہوتے تھے۔ شعرو شاعری سے بھی ان کو بہت شغف اور دلچسپی ہوتی تھی، آج ایسی صورتحال دیکھنے کو نہیں آتی، پہلے صورتحال ٹھیک تھی، آج ہر جگہ میڈیا ٹرائل کر تا نظر آ تا ہے۔ بعض اینکرز بعض سیاستدانوں کو نشانہ بناتے ہیں لیکن خود انہیں بھی ایسی ہی صورت حال کا سا منا ہے۔
پہلے وقتوں میں اخبار یا رسالے مختصر چھپتے تھے، آج کی ٹیکنالوجی کی سہولتیں حاصل نہ تھیں، ان دنوں ہاتھ کی کتابت کیلئے مسطر ہو تے تھے، پیلے رنگ کی سیاسی سے خطاط ہاتھ سے کتابت کرتے، لیتھ مشین پر چھپائی ہوتی، سیاہی بننے میں کوئی کمی رہ جاتی یا پھر پلیٹ میکر پیلٹ میکنگ میں کوئی غلطی کر دیتا تو پھر کتابت بھی ضائع، پلیٹ بھی ضائع، نئے سرے سے کتابت اور نئے سرے سے پلیٹ میکنگ، بہت مشکل دور تھا، پھر ٹریڈل مشینوں پر نسخ رسم الخط میں کمپوزنگ کا دور آیا، کتابیں وغیرہ اس میں شائع ہونے لگیں، کچھ اخبار اور رسالے بھی شائع ہوئے، رومن کیلئے تو یہ سسٹم ٹھیک تھا مگر نستعلیق اردو قاری کی نظروں میں اس کی جگہ نہ بن سکی، اس کے بعد آفسٹ مشینوں کا دور آیا، بڑے اخباروں میں خطاط شفٹوں میں کام کرتے تھے، پھر دور تبدیل ہوا، پاکستانی اخباری صنعت میں کمپیوٹر پروگرام نوری نسعلیق متعارف کرایا، آج نت نئی ٹیکنالوجی، سبک رفتار 4 کلر مشینیں، کلر پرنٹر اور کلر سیکنرز غرض آج پاکستانی صحافت ترقی یافتہ ممالک کے ہمقدم ہے، لیکن اخبارات کا بلیک اینڈ وہائٹ سے رنگین ہو جانا جدیدیت نہیں، اصل جدیدیت رحجانات کا نام ہے۔ آج جہاں صحافیوں کو کام کرنے کی سہولتیں ہیں، آنے والے کل میں وہ مشینیں بھی آر ہی ہیں جو محض کمپیوٹر کے آرڈر پر طباعت کے تمام مرحلے خود کار سسٹم کے تحت طے کردیں گی۔