Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home
  2. Zahida Hina
  3. Wo Waqt Na Aaye

Wo Waqt Na Aaye

وہ وقت نہ آئے

انسان کا عجب عذاب ہے، اسے ہر لمحہ آگے ہی بڑھتے رہنا ہے، وہ کہیں رک نہیں سکتا، خود تبدیل ہوتا ہے اور اپنے سماج کو بھی تبدیل کرتا ہے۔ ارتقا کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اس کے فائدے زیادہ ہیں لیکن نقصانات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔

انسان ہزاروں سال خانہ بدوشی کی زندگی گزارتا رہا۔ جو پھل زمین پر گرا دیکھا اٹھا لیا اور جو پھل اسے درختوں پر لگا نظر آیا اسے توڑ کر کھا لیا۔ وہ فطرت کے سامنے بالکل بے بس تھا، آندھی، طوفان، بارش، برف باری اور دھوپ کا سامنا کرنا اس کے لیے بہت مشکل تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ ہر طاقت ور چیز سے خوف زدہ ہوکر اس کو دیوتا مان لیتا تھا، مظاہر فطرت اور جنگلی جانوروں کا مقابلہ کرنے اور بے بسی کے عالم میں اس نے کئی ہزار سال کا سفر طے کرلیا۔ پھر 10، 000 سال پہلے اس نے ایک جگہ رہنااور کھیتی باڑی کرنا سیکھا، اس طرح بستیاں آباد ہونے لگیں، آپس میں لڑائی اور جھگڑے شروع ہوگئے، زندہ رہنے کا حق اسے تھا جو سب سے زیادہ طاقتور تھا۔

سماجی زندگی نے خانہ بدوش انسان کو ایک جگہ جم کر رہنے کا موقع فراہم کیا اور دو وقت کی خوراک کے لیے اسے بھٹکتے رہنے کا عذاب بھی ختم ہوگیا، لیکن انسان کو بھلا کیا معلوم تھا کہ اب اسے نئے طرح کے عذابوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے سے کئی طرح کی بیماریاں پھیلنے لگیں، یہ متعددی اور چھوت کی بیماریاں تھیں جو ایک انسان سے دوسرے انسان کو لگتی تھیں۔ تپ دق، ملیریا، جذام، چیچک اور انفلوائنزا جیسی ہولناک بیماریاں اس 10 ہزار سال کے دوران انسانوں پر حملہ آور ہوئیں اور کروڑوں لوگوں کو ہلاک کرگئیں۔

ہم یونان سے بہت متاثر ہیں، قدیم یونان اور اس کا شہر ایتھنز علم و فن کا عظیم مرکز تھا۔ دنیا میں غالباً سب سے پہلی وبا کا سامنا بھی ایتھنز کو ہی کرنا پڑا تھا۔ 430قبل مسیح میں ایک بیماری لیبیا، ایتھوپیا اور مصر میں پیدا ہوئی اور ایتھنز پر حملہ آور ہوگئی۔ اس بدنصیب شہر کے لوگ پہلے سے ہی اسپارٹن لشکر کے محاصرے میں تھے، وبا کے باعث لوگ تیز بخار اور دیگر مسائل کا شکار ہوجاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وبا، آج کل کے ٹائیفائیڈ کی طرح کی ہی کوئی بیماری تھی اس کے کوئی 700 سال بعد چیچک نمودار ہوئی اور اس نے جرمنی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جرمنوں سے چیچک رومن ایمپائر میں پھیل گئی۔

100 سال بعد طاعون کی وبا انسانوں پر قہر بن کر ٹوٹی۔ اگلی تین صدیوں تک طاعون کی وبا آنے کا سلسلہ وقفے وفقے سے جاری رہا۔ جس میں اس وقت کی دنیا کی 26 فیصد آبادی لقمہ اجل بن گئی۔ وبائوں کا عذاب ختم نہیں ہوا، بلکہ جاری رہا۔ 11 ویں صدی میں جذام کی وبا یورپ میں تیزی سے پھیل گئی۔ اس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ کس قدر تکلیف دہ بیماری ہوا کرتی تھی مریض طویل عرصے تک تکلیف برداشت کرنے کے بعد دم توڑتا تھا۔ جذام کے مریضوں کو شہر سے دور الگ تھلگ ڈال دیا جاتا تھا۔ اس کے گھر والے دور سے ہی کھانا پھینک کر چلے جایا کرتے تھے۔ جذام بھی ہزاروں سال تک لاعلاج مرض رہا۔

14 ویں صدی میں طاعون کی وبا ایک بار پھر یورپ پر حملہ آور ہوئی اور محض 4 برسوں میں 20 کروڑ لوگوں کی زندگیوں کا چراغ گل کرگئی۔ پرانے دور میں چیچک صدیوں تک یورپ اور ایشیا میں انسانوں کو ہلاک کرتی رہی لیکن 15 ویں صدی میں وبا یورپی مہم جوئوں کے ذریعے آج کے میکسیکو اور امریکا کے علاقوں میں پہنچی۔ جہاں کے مقامی افراد کے جسم میں اس بیماری کا دفاع کرنے کی صلاحیت موجود نہیں تھی۔ لہٰذا کروڑوں مقامی باشندے چیچک کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے۔ اس وقت اس خطے میں 2 کروڑ 50لاکھ مقامی لوگ آباد تھے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے کیجیے صرف دو برسوں کے اندر اندر 50 سے 80 لاکھ مقامی افراد ہلاک ہوگئے۔

17 ویں صدی تک ہم ذرا توقف کرتے ہیں۔ یہ صنعتی انقلاب سے پہلے کی دنیا ہے یہ زرعی دور تھا، اضافی پیداوار کی تجارت ہوا کرتی تھی اور چھوٹے چھوٹے کاروباری شہر آباد ہونے لگے تھے، زرعی دور کی زیادہ ترآبادی دیہاتوں میں رہتی تھی۔ لوگ دیہاتوں سے باہر بہت کم سفر کیا کرتے تھے اس لیے چھوت کی بیماریاں کسی مخصوص شہر، علاقے کا خطے کو اپنا نشانہ بنایا کرتی تھیں۔ تاہم صنعتی انقلاب کے بعد صورتحال یکساں تبدیل ہوگئی۔ یورپ کے صنعتی ملکوں میں بڑے اور گنجان آبادی والے شہر وجود میں آگئے۔ منڈیوں اور خام مال کی تلاش میں ان یورپی ملکوں نے ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے ملکوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا اور ایک دوسرے سے منڈیاں چھیننے کے لیے جنگوں کا آغاز ہوگیا۔

پہلی جنگ عظیم اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ان جنگوں کے ذریعے متعدی بیماریاں بھی دنیا میں پھیلنے لگیں۔ 1918کے اسپینش فلو سے دنیا میں 5 کروڑ افراد لقمہ اجل بنے جب کہ امریکا میں 6 لاکھ 75 ہزار افراد اس وبا کے باعث مارے گئے تھے۔ انگریز فوجیوں کی آمدو رفت کے باعث یہ وبا ہندوستان پر حملہ آور ہوئی اور ایک کروڑ سے زیادہ انسانوں کی جان لے گئی۔ 1952میں پولیو کی وبا پھیلی لیکن صرف 3سال کے اندر اس کی مدافعتی دوا ایجاد کرلی گئی 1984 میں صنعتی دور کی ایک بڑی وبا ایڈز یا HIV نے دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ اب تک اس بیماری سے ڈھائی کروڑ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور اب دنیا کے 3 کروڑ 50 لاکھ افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں۔

21 ویں صدی کا آغاز ہوتے ہی سارس نامی وائرس سامنے آیا اس کا پہلا مریض 2003 کے چین میں سامنے آیا تھا۔ سارس کی وبا کو آئے ابھی 6 سال ہی گزرے تھے کہ 2009ء میں HINI فلو کی وبا نے دنیا پر حملہ کیا، اسے سوائن فلو بھی کہا جاتا ہے۔ اس جان لیوا وائرس کے بعد 2012 میں خسرہ کا وائرس سامنے آیا اور اس کے 2 برس بعد 2014 میں ایبولا نامی وائرس نے بالخصوص مغربی افریقا میں بڑی تباہی پھیلائی۔ ایبولا کا خاتمہ 201 میں ہوا لیکن اسی سال ذیکا (ZIKA) نامی وائرس سامنے آگیا جسے عالمی ادارہ صحت نے انتہائی خطرناک قرار دیا تھا۔ مذکورہ بالا تفصیلات سے چند بڑے اہم حقائق سامنے آتے ہیں جو یہ ہیں :

-1 جب تک انسان خانہ بدوشی کی زندگی گزارتارہا اس وقت تک چھوت کی بیماری وبائی شکل اختیار نہیں کرتی تھی۔

-2 جب زرعی دور آیا اور لوگوں نے بستیاں آباد کیں تو وبائی امراض سے لوگوں کی بڑی تعداد ہلاک ہونے لگی، چونکہ زیادہ تر لوگ دیہاتوں میں رہتے تھے۔ لہٰذا یہ وبائیں چھوٹے شہروں اور علاقوں تک محدود تھیں۔

-3 جب زراعت کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوا وبائیں زیادہ بڑے علاقوں تک پھیلنے لگیں۔

-4 جب صنعتی دور آیا، جنگوں کاآغاز ہوااور نوآبادیاں قائم کی جانے لگیں تو وبائیں بین الاقوامی سطح پر پھیلنے لگیں۔

-5 پرانے صنعتی دور کے خاتمے اور جدید ٹیکنالوجی کے نظام کی آمد سے محض 30 برسوں کے اندر اندر دنیا کی کایا پلٹ گئی اور وہ واقعی ایک عالمی گائوں میں بدل گئی لہٰذا اس عرصے کے دوران وبائوں کے آنے کا دورانیہ بھی کم سے کم تر ہوتا چلا گیا۔ اب 2019 کے کورونا وائرس سے دنیا اپنا بچائو کررہی ہے۔

جدید ترین ٹیکنالوجی اور سائنس کی بنیاد پر بے مثال معاشی ترقی ضرور حاصل کی جاسکتی ہے لیکن کیا یہ ترقی وبائوں کے تیزی سے بار بار آنے اورلاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی ہلاکتوں کو روک سکتی ہے؟ اس کی کیا ضمانت ہے کہ کورونا سے جولوگ زندہ بچ جائیں گے وہ اگلے آنے والے کسی مہلک وائرس کی بھینٹ نہیں چڑھیں گے؟ کیا وقت نہیں آگیا ہے کہ ریاستیں پہلے سے کہیں زیادہ سرمایہ صحت عامہ، ریسرچ، حفاظی ادویات کی تیاریوں اور ماحولیاتی تحفظ پر خرچ کریں اور لوگوں کو بلا امتیاز صحت کی اعلیٰ ترین خدمات فراہم کریں، اگر ریاستوں اور حکومتوں نے یہ نہیں کیا تو وائرس آتے رہیں گے اور لوگ مرتے رہیں گے اور معیشتیں تباہ ہوتی رہیں گی۔ وہ وقت نہ آئے کہ نہ لوگ رہیں اور نہ معیشت۔

About Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.

Check Also

Koi Laash Gire, Koi Khoon Bahe, Koi Baat Bane

By Irfan Siddiqui