ایک لڑکی بگھارتی ہے دال
ہمارے یہاں دال کو بہت حقیر سمجھا جاتا ہے، اگرکسی کی توہین کرنی ہو توکہا جاتا ہے کہ "دال چپاتی"کھانے والے۔ ادھر میں ہوں کہ دال کی عاشق۔ دوپہرکوکبھی کبھار لیکن رات کو پیالہ بھر دال پیتی ہوں اور خوش رہتی ہوں۔
ادھر خبر آئی ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے یہ اطلاع دی ہے کہ دنیا میں 270 ملین افراد فاقہ کشی سے دوچار ہونے والے ہیں۔
غریب کو دو وقت کی دال روٹی یا دال چاول میسر نہیں اور اگر مل بھی جائے تو وہ آہ بھرتا ہے کہ اس کے بچے اتنی ناکافی غذا پرکیسے زندہ رہیں گے، اس کی فریاد حق بجانب ہے۔ یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ ہر شہری کو سر چھپانے کا ٹھکانہ، پیٹ بھرکھانے کو، بیمار ہوجائے تو اس کا علاج، بچوں کو تعلیم اور روزگار فراہم کرے۔
ہمارے یہاں بڑی بڑی باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جنھیں آپ پیرا ٹروپرکہیں تو زیادہ مناسب، یہ لوگ ملک کا مقدر سنوارنے کے دعوے کرتے ہوئے آسمان سے نازل ہوتے ہیں۔ ہوا میں مکے لہرا کر سب کا مزاج درست کرنے کی نوید سناتے ہیں۔ غریب تو پہلے ہی نڈھال اور بے حال ہوتا ہے، وہ ان کی بلند و بانگ باتیں سنتا ہے اور دل ہی دل میں ان دنوں کو برا بھلا کہتا ہے جب اس نے اپنے ووٹ کی طاقت کو نہیں سمجھا تھا اورکسی سیاسی جماعت کا ساتھ دینے کے بجائے گھر بیٹھا رہا تھا۔ دوسری طرف ہمارے وہ حکمران ہیں جوکھیل کے میدان سے سیاست کے میدان میں آجاتے ہیں۔ یہ لوگ حکمرانی کوکپتانی سمجھتے ہیں۔ انھیں "سلیکٹ" کرنے والے اپنا سرپیٹتے ہیں، دانت پیستے ہیں لیکن کچھ کرنا مشکل اورکچھ نہ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل۔
ہم اس جنجال میں، غربت کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں، غریب کے پاس رونے اورکھونے کوکچھ نہیں رہ گیا ہے۔ اس صورت حال میں خبر آئی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 فروری کو دال کا عالمی دن مقررکردیا ہے۔ یہ کوششیں 2013 سے چل رہی تھیں اور اب 2020 سے فروری کے مہینے میں یہ دن باقاعدہ منایا جا رہا ہے۔
دالیں، کالا اور سفید چنا، لوبیا اور اسی وضع کی چیزیں ہمیں پروٹین، فائبر، زنک اور میگنیشیم کی مناسب مقدار فراہم کرتی ہیں۔ یہ بات ان لوگوں کے سمجھنے کی ہے جو صرف گوشت، مکھن اور پنیرکو طاقت بہم پہچانے والی غذائیں تصورکرتے ہیں۔
دال پراس قدر اصرارکا سبب یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم " فائو " اور جنرل اسمبلی نے مل کر دال کی اہمیت اجاگرکرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا اناج ہے جو ساری دنیا میں پیدا ہوتا ہے، سستا ہے (ہمارے یہاں اب بعض دالیں ڈھائی سو روپے کلو سے بھی تجاوزکرگئی ہیں) اس میں وٹامن، نمکیات، پروٹین اور دوسری متعدد اشیا ملتی ہیں، اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ ساری دنیا میں اس کا چلن ہو۔ اقوام متحدہ نے 2030 کو " زیرو ہنگر" یعنی "بھوک سے مکمل نجات" کا ہدف مقررکیا ہے۔ ہندوستان، پاکستان، افریقہ کے بیشتر ملکوں میں دال کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر زور دیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی مختلف تنظیموں کا کہنا ہے کہ ہم بھوک سے اسی وقت نجات حاصل کرسکتے ہیں جب حکومتیں لوگوں کو روزگار مہیا کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر شخص کو پیٹ بھرکر روٹی میسر آئے۔ ان کا اس بات پر اصرار ہے کہ دال، چاول اور روٹی بھی اگرلوگوں کو دو وقت کی مل جائے تو ان کی غذائی ضروریات پوری ہوسکیں گے اور وہ فاقہ زدہ انسانوں کی فہرست میں نہیں گنے جائیں گے۔
برصغیر میں دالیں جس طرح پکائی جاتی ہیں۔ ان کی ترکیبیں بھی بیان کی جارہی ہیں۔ کہیں تڑکے سے ذائقہ دار پنجابی دال کا نسخہ ہے اورکہیں راجھستانی پنچ میل دال کا ذکر ہے۔ اس میں مونگ، دھلی مونگ، ارہر، دھلی ارد، چنے کی دال ملا کر پکائی جاتی ہے پھر اس میں ہینگ، میتھی، زیرہ، کلونجی اور سونف کا تڑکا لگایا جاتا ہے۔ تڑکے میں اصلی گھی استعمال کیا جائے تو سبحان اللہ۔ آپ بنگالی دال کا لطف اٹھا سکتے ہیں اور لکھنوکی سلطانی دال کے کیا کہنے۔ دودھ، بالائی اور دہی میں پکاتی جاتی ہے۔
جنرل اسمبلی اور فائو نے دنیا بھر سے دالیں پکانے کی نت نئی ترکیبوں کی بھرمارکردی ہے۔ انھیں پکائیں اور دال چاول، دال روٹی یا دال پراٹھے سے لطف اٹھائیں۔ اس موقع پر مجھے مولوی اسماعیل میرٹھی یاد آتے ہیں۔ جنھوں نے غزلیں لکھیں لیکن ان غزلوں سے کہیں زیادہ وہ اپنی نظموں کے لیے مشہور ہوگئے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں، انھیں میں سے ایک "دال کی فریاد" تھی۔ یہ میں نے بچپن میں پڑھی تھی اور اس کے کئی بند زبانی یاد تھے۔ اگر جنرل اسمبلی کو اس نظم کے بارے میں معلوم ہوتا تو وہ ا سے ترجمہ کروا کر ساری زبانوں میں پھیلا دیتی۔ یہ نظم دال کے دن آپ کی نذر ہے۔ پڑھیے اور سر دھنیے:
ایک لڑکی بگھارتی ہے دال…دال کرتی ہے عرض یوں احوال…ایک دن تھا ہری بھری تھی میں … ساری آفات سے بری تھی میں … تھا ہرا کھیت میرا گہوارہ…وہ وطن تھا مجھے بہت پیارا… پانی پی پی کے تھی میں لہراتی…دھوپ لیتی کبھی ہوا کھاتی… مینہ برستا تھا جھونکے آتے تھے…گودیوں میں مجھے کھلاتے تھے…یہی سورج زمیں تھے ماں باوا…مجھ سے کرتے تھے نیک برتاوا…جب کیا مجھ کو پال پوس بڑا…آہ ظالم کسان آن پڑا…گئی تقدیر یک بہ یک جو پلٹ…کھیت کا کھیت کر دیا تلپٹ…خوب لوٹا دھڑی دھڑی کرکے…مجھ کوگونوں میں لے گئے بھرکے… ہوگئی دم کے دم میں بربادی…چھن گئی ہائے میری آزادی!…کیا بتاؤں کہاں کہاں کھینچا… دال منڈی میں مجھ کو جا بیچا…ایک ظالم سے واں پڑا پالا…جس نے چکی میں مجھ کو دل ڈالا…ہوا تقدیر کا لکھا پورا…دونوں پاٹوں نے کر دیا چورا…نہ سنی میری آہ اور زاری…خوب بنیے نے کی خریداری…چھانا چھلنی میں، چھاج میں پھٹکا…قید خانہ مرا بنا مٹکا… پھر مقدر مجھے یہاں لایا…تم نے تو اور بھی غضب ڈھایا…کھال کھینچی الگ کیے چھلکے… زخم کیوں کر ہرے نہ ہوں دل کے…ڈالیں مرچیں، نمک لگایا خوب…رکھ کے چولھے پہ جی جلایا خوب… اس پہ کف گیرکے بھی ٹھوکے ہیں … اور ناخن کے بھی کچوکے ہیں … میرے گلنے کی لے رہی ہو خبر… دانت ہے آپ کا مرے اوپر…گرم گھی کرکے مجھ کو داغ دیا…ہائے تم نے بھی کچھ نہ رحم کیا… ہاتھ دھو کر پڑی ہو پیچھے تم…جان پر آ بنی حواس ہیں گم… اچھی بی بی تمہیں کرو انصاف … ظلم ہے یا نہیں قصور معاف … کہا لڑکی نے میری پیاری دال … مجھ کو معلوم ہے ترا سب حال… تو اگر کھیت سے نہیں آتی… خاک میں مل کے خاک ہو جاتی… یا کوئی گائے بھینس چر لیتی… پیٹ میں اپنے تجھ کو بھر لیتی…میں تو رتبہ ترا بڑھاتی ہوں …اب چپاتی سے تجھ کو کھاتی ہوں …نہ ستانا نہ جی جلانا تھا…یوں تجھے آدمی بنانا تھا…اگلی بیتی کا تو نہ کر کچھ غم…مہربانی تھی سب، نہ تھا یہ ستم۔