وزیرستان میں پھر دہشت گردی
وزیرستان پھر دہشت گردی کی زد میں ہے۔ ووکیشنل ٹریننگ دینے والی چار خواتین کارکن اس وقت قتل ہوئیں جب وہ ایک گاڑی میں اپنے فرائض منصبی انجام دینے جارہی تھیں۔ نامعلوم قاتل حسب روایت اپنے پوشیدہ ٹھکانوں پر اطمینان سے روپوش ہوگئے۔
واقعہ کچھ یوں بیان کیا جارہا ہے کہ چار ویکسی لیٹر ارشاد بی بی، ناہید بی بی، عائشہ بی بی اور حوریہ بی بی ایک گاڑی میں سوار جنوبی وزیرستان کے ضلع میرالی میں اپنے انسٹی ٹیوٹ جا رہی تھیں۔ جب ان کی گاڑی میرالی کے قریب ایک گاؤں میں داخل ہوئی تو نامعلوم افراد کو اپنے ہدف کو پورا کرنے کا موقع ملا۔ اس حملہ میں چار خواتین شہید اورگاڑی کا ڈرائیور شدید زخمی ہوا۔
گزشتہ سال ستمبر میں اسی علاقہ میں ایک ہیلتھ ورکر ایسے ہی حملہ کا نشانہ بنی تھیں۔ ان چاروں خواتین کے قتل سے اس علاقہ میں صحت کا ایک نیا بحران پیدا ہوگیا۔ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی چلڈرن ایمرجنسی فنڈ United Nation International Children Emergency Fundجو دنیا بھر میں بچوں کی نگہداشت کے لیے کام کرتا ہے نے ان کارکنوں کے قتل کو افسوسناک قرار دیا۔
فنڈز کے ایک تعزیتی بیان میں کہا گیا ہے کہ خواتینBravo College بنوں کے عملے کی فعال رکن تھیں۔ ان کارکنوں کے قتل سے فنڈ کی سرگرمیوں کو نقصان پہنچے گا۔ ایک بین الاقوامی ادارہ نے تو ان خواتین کارکنوں کے قتل پر تشویش کا اظہار کیا مگر حکمران طبقے نے ان خواتین کارکنوں کے قتل کی سنجیدگی کو محسوس نہیں کیا۔ جنوبی وزیرستان اس صدی کے آغاز کے بعد سے مذہبی انتہاپسند دہشت گردوں کا مرکز رہا۔
2014 میں مسلح افواج نے آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تو بہت سے دہشت گرد اس آپریشن میں ہلاک ہوئے اور باقی سرحد پار کرکے افغانستان میں روپوش ہوگئے۔ یوں کچھ برسوں تک اس علاقہ میں امن رہا۔ یہ حملہ آور خواتین کارکنوں، خواتین کے اسکولوں اور قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کے جوانوں اور ان کی گاڑیوں اور دفاتر پر حملے کرنے لگے، یوں آپریشن ردالفساد شروع ہوا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل افتخار بابر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ملک میں چار برسوں کے دوران دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خاتمہ کے لیے تین لاکھ کے قریب آپریشن کیے گئے۔ یہ آپریشن ایک حد تک کامیاب رہے مگر اب وزیرستان کے دو حصوں میں مذہبی انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کی کارروائیوں میں پھر تیزی آگئی ہے اور ان دہشت گردوں نے ماضی کی روایات کے مطابق کام کرنے والی خواتین اور اسکولوں کی عمارتوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
ان حملوں کے حوالے سے جو کچھ ذرائع ابلاغ میں شائع ہوا اس مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان بنیادی طور پر ان حملوں کا محرک تھا۔ پولیس شمالی وزیرستان کی ایک اور دہشت گرد تنظیم شوری مجاہدین کو ان حملوں کا ذمے دار قرار دے رہی ہے۔ یہ تنظیم کام کرنے والی خواتین کے علاوہ حجاموں اور موسیقی کے آلات فروخت کرنے والی دکانوں کونشانہ بناتی رہی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہیں پاکستان اور افغانستان سے متصل علاقوں میں قائم ہیں اور یہ تنظیمیں افغانستان میں بھی دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث رہی ہیں۔
گزشتہ صدی کے آخری عشرہ میں مسلح طالبان نے ملا عمر کی قیادت میں کابل پر قبضہ کیا اور اسلامی خلافت قائم کی۔ ملا عمر کی حکومت نے یوں تو افغانستان میں امن و امان کو بہتر بنایا مگر ان کی حکومت نے خواتین اور غیر مسلمان افغان شہریوں کو اپنے انداز میں ہینڈل کیا۔ خواتین کے اسکول اور کالج بند کردیے گئے۔ خواتین کے اسپتالوں میں علاج پر پابندی عائد کردی گئی۔ اسی طرح غیر مسلمان شہریوں کو محض مخصوص لباس پہننے اور ٹیکس دینے پر مجبورکیا گیا۔
جب نائن الیون کے بعد امریکا اور اتحادیوں کے حملے میں طالبان حکومت ختم ہوئی تو القاعدہ اور طالبان قبائلی علاقوں میں روپوش ہوئے۔ اس دور میں پہلی دفعہ پولیو کے قطرے پلانے والے کارکنوں خاص طور پر خواتین ورکرز اور ڈاکٹروں کو نشانہ بنانا شروع کیا گیا۔ منظم طریقہ سے خواتین کے اسکول اور کالجوں کی عمارتوں کو تباہ کیا جانے لگا۔ سوات میں جب خواتین کے تعلیمی ادارے بند ہوئے تو ملالہ یوسفزئی کو سوات چھوڑنا پڑا۔
ملالہ نے اس دور کے حالات گل مکئی کے نام سے بی بی سی کی اردو سروس کی ویب سائٹ پر تحریر کیے۔ فوجی آپریشن کے بعد ملالہ سوات واپس آگئیں تو ان کی جان لینے کی کوشش کی گئی۔ ملالہ کی ڈاکٹروں نے جان بچالی اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ برطانیہ چلی گئیں۔ انھیں امن کا نوبل پرائز ملا۔ ملالہ یوسفزئی کو دہشت گردوں نے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر دھمکیاں دیں۔
ملالہ خوش قسمت تھیں کہ ان کی جان بچ گئی مگر یہ بدقسمت خواتین اپنے فرض پر قربان ہوگئیں۔ اس مسئلہ کا فوری حل تو فوجی آپریشن ہے مگر دائمی حل دہشت گردی کے بیانیہ کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ہے۔ چند سال قبل جب شمالی وزیرستان کے علاوہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے دوبارہ منظم ہونے کی خبریں آئیں تو کچھ سرپھروں نے اس صورتحال پر خبردار کیا، مگر المیہ یہ ہے کہ ان میں سے کچھ کے خاندان کے بیشتر افراد ان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے انتہاپسند بیانیہ کے مقابلہ میں جدید سائنسی بنیادوں پر منظم روشن خیال بیانیہ کو مدارس اور جدید تعلیمی اداروں میں رائج کرانا ہوگا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اس مذہبی بیانیہ کو نصاب کا حصہ بنانا شروع کردیا ہے۔ اس طرح کی پالیسیوں سے انتہاپسندوں کو تقویت ملتی ہے۔ حکومت کو ان چاروں خواتین کو ملک کے شہداء کی فہرست میں شامل کرنا چاہیے اور قومی سوگ کا اعلان کرنا چاہیے۔ ان خواتین کے لواحقین کو اتنا ہی معاوضہ ملنا چاہیے جتنا دیگر شہداء کے لواحقین کو ملتا ہے۔ پاکستان کا مستقبل ایک جدید روشن خیال بیانیہ میں مضمر ہے۔