طالع آزما قوتوں کا فائدہ
سینیٹ کے انتخابی معرکہ کے بعد سے وفاقی حکومت الیکشن کمیشن پر حملہ آور ہے۔ وفاقی وزراء نے پریس کانفرنس میں الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اپنا غیر جانبدارانہ کردار کھوچکا ہے۔ اب چیف الیکشن کمشنر سمیت تمام اراکین کو مستعفی ہوکر گھر جانا چاہیے۔
ان وزراء کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں اسلام آباد کی سینیٹ کی نشست پر پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی کی کامیابی سے ثابت ہوا کہ اس انتخاب میں دھاندلی ہوئی اور الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے بعد اس انتخاب میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنے میں ناکام رہا ہے مگر انھوں نے سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا حوالہ نہیں دیا۔
ان وزراء نے پہلے فرمایا تھاکہ حکومت 1973ء کے آئین کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان کے مواخذہ کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر نہیں کرے گی مگر اب حکومت توہینِ عدالت کی درخواست دائر کرنے جارہی ہے۔
اس صورتحال کے پس منظر میں محرکات کو تلاش کر کے ہی صحیح صورتحال کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ آئین میں کی جانے والی 18ویں ترمیم سے پہلے الیکشن کمیشن ایک مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ادارہ نہیں تھا۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اس کے اراکین کا انتخاب صدر پاکستان کرتے تھے۔
1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد صدر چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے وزیر اعظم کے مشورہ کے پابند ہوئے مگر جب جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کرائے اور محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم نامزد کیا تو آئین میں کی گئی 8ویں ترمیم کے تحت جہاں صدر کو وزیر اعظم کو برطرف کرنے اور منتخب اسمبلیوں کو توڑنے کا اختیار حاصل ہوا وہاں صدر چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے وزیر اعظم کے مشورہ کے پابند نہیں رہے۔
پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹوا ور میاں نواز شریف کے درمیان 2005ء میں لندن میں میثاق جمہوریت ہوا تو اس میں دونوں جماعتوں نے اور نکات کے علاوہ اس بات کا بھی عہد کیا کہ ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن قائم کیا جائے گا اور سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعہ ہونگے۔ 2010ء میں 18ویں ترمیم میں خودمختار الیکشن کمیشن کے تصور کو عملی شکل دی گئی اور یہ شق شامل ہوئی کہ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے اتفاق سے ہوگا اور کمیشن کو مکمل مالیاتی خودمختاری کے ساتھ عدالتی اختیارات بھی حاصل ہونگے۔
یہ بات بھی تحریر کرلی گئی کہ چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے دیگر اراکین کے اختیارات مساوی ہونگے۔ جمہوری اداروں کے استحکام کا خواب دیکھنے والے دانش مندوں نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم سے درخواست کی کہ وہ کمیشن کی سربراہی قبول کریں۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کی عمر 75سال سے زیادہ تھی۔ انھوں نے ساری عمر اپنے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے گزاری تھی، کبھی کسی عہدہ کے لیے جستجو نہیں کی تھی اور جنرل ضیاء الحق کے نافذ کردہ حلف کو ماننے سے انکار کیا تھا۔
انھوں نے جمہوری نظام کی خاطر اس عہدہ کو قبول کیا مگر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی کیں۔ عدالتی قوتوں نے ریٹرننگ افسروں کو ہدایات دینا شروع کیں۔ الیکشن کمیشن کے باقی اراکین نامعلوم قوتوں کے دباؤ کا شکار ہوئے۔ انتخابات کے فوراً بعد فخر الدین جی ابراہیم اپنے عہدہ سے مستعفی ہوئے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ نہ تو مسلم لیگ ن نہ پیپلز پارٹی نے حتی کہ تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی نے فخر الدین جی ابراہیم کے استعفیٰ کی وجوہات پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بحث کی۔ جسٹس ریٹائرڈ سردار محمد رضا کو وزیر اعظم نواز شریف اور قائد حزب اختلاف خور شید شاہ نے اتفاق رائے سے چیف الیکشن کمشنر بنایا۔
الیکشن کمیشن نے 2018ء کے انتخابات کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان انتخابات میں خاصی رقم کلوز ڈور ٹی وی کیمروں اور اسمارٹ فون کے ذریعہ فوری انتخابی نتائج کی ترسیل کے لیے RTS کے نظام کو منظم کرنے پر خرچ ہوئی۔ انتخابات والے دن ووٹروں کی تعداد کل بیلٹ پیپرز استعمال ہونے والے ضایع ہونے والے اور چیلنج کیے جانے والے بیلٹ پیپرز اور امیداروں کے ووٹوں کی تعداد کے لیے فارم 45 کو جدید طرز پر ترتیب دیا گیا مگر انتخاب والے دن یہ سارا نظام ٹھپ ہوگیا۔ حزب اختلاف کیونکہ عدلیہ کے رویہ سے مایوس تھی اس لیے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ نہیں کیا گیا مگر پارلیمنٹ سے تحقیقات پر زور دیا گیا۔
وزیر اعظم عمران خان 2013ء سے انتخابی دھاندلی کے بیانیہ پر رائے عامہ کو ہموار کررہے تھے۔ انھوں نے U-turn لیا اور انتخابی دھاندلی کے معاملات کی تحقیقات کرانے اور انتخابی اصلاحات کے ایجنڈا کو پس پشت ڈال دیا۔ حزب اختلاف کے مطالبہ پر پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی قائم ہوئی مگر حکومتی اراکین نے مخصوص حکمت عملی کے تحت اس کمیٹی کو معطل رکھا۔
سینیٹ میں حزب اختلاف نے سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو حکومت نے وہی حربے استعمال کیے جو انھوں نے سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کے لیے اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لیے استعمال کیے تھے اور پی ڈی ایم یوسف رضا گیلانی کو کامیاب بنانے کے لیے پیپلز پارٹی نے جو حربے استعمال کیے تھے اس کی مذمت کررہے ہیں اور اس بنیاد پر الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام لگارہے ہیں۔
بعض سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ یہ Hybrid نظام ہے۔ پی ڈی ایم کی قیادت نے اپنے قیام کے بعد جارحانہ حملے کیے۔ ان حملوں کا براہِ راست نشانہ وہ افسران بنے جن کا پہلے نام نہیں لیا جاتا تھا۔ اس بناء پر مقتدرہ میں کچھ ہلچل ہوئی اور اونچے ایوانوں میں صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کیس اور فارن فنڈنگ کیس کو طویل عرصہ سے التواء میں ڈالا ہوا تھا مگر ڈسکہ کے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں الیکشن کمیشن کا آزادانہ کردار ابھر کر سامنے آیا۔
1970ء سے انتخابات کا مشاہدہ کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ پریزائیڈنگ افسروں کے اغواء اور انتخاب والے دن سے پہلے ہدایات کی داستانیں تو پرانی ہیں مگر اس دفعہ تاریخ رقم ہوئی اور الیکشن کمیشن کے پریزائیڈنگ افسروں کا اغواء ریکارڈ کا حصہ بنا۔ ڈسکہ کے قومی اسمبلی کے انتخاب دوبارہ کرانے کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر عرضداشت میں الیکشن کمیشن نے جو بیان جمع کرایا ہے وہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ اس دوران اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے مسئلہ پر پی ڈی ایم کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت نے حزب اختلاف کو جامع انتخابی اصلاحات کے لیے مذاکرات کی دعوت کی مگر دوسری طرف الیکشن کمیشن پر حملے شروع کردیے۔
حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو آئین کے آرٹیکل 209(5) کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرے۔ حکومت کی جامع انتخابی اصلاحات کے لیے حزب اختلاف کو مذاکرات کی پیشکش ایک مثبت عمل ہے۔ مگر محسوس ہوتا ہے کہ Hybrid Systemکی بناء پر وزیر اعظم عمران خان مخالفین کے لیے اپنے بیانات میں نرمی پیدا نہیں کرسکتے۔ اس بناء پر ان کے درجن بھر معاونین روزانہ حزب اختلاف پر گولہ باری کرتے ہیں۔ حزب اختلاف کے اراکین کو موقع ملتا ہے اور وہ جوابی وار شروع کردیتے ہیں۔ تین سال گزرنے کے باوجود صورتحال معمو ل پر نہیں آرہی ہے۔