سندھ تعلیم میں بھی پیچھے
سندھ میں 1477 ارب روپے کا ٹیکس فری بجٹ پیش کر دیا گیا۔ اس بجٹ میں تعلیم کے لیے 277 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے 12سالہ دورِ اقتدار میں سندھ میں تعلیمی شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہ بحران انتظامی اور مالیاتی دونوں حوالوں سے ہے۔
سندھ حکومت کے دعوؤں کے باوجود خواندگی کا صد فی صد ہدف اگلے پچاس برسوں میں پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی دعویٰ کر رہے ہیں کہ سندھ میں 35 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔
تحریک انصاف کی صوبائی اسمبلی کی رکن رابعہ اظفر نظامی نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا ہے کہ دیہی سندھ میں خواندگی کا تناسب 34 فیصد ہے جو بلوچستان سے بھی کم ہے۔ ادارہ یونیسیف کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سندھ میں 51 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔ یہ تعداد 80 سے 85 لاکھ کے قریب بنتی ہے۔
ایچ آر سی پی سندھ کے وائس چیئرمین خضر قاضی نے ملک میں اسکولوں کی صورتحال پر خاصی تحقیق کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ حکومت سندھ کے تعلیم اور لٹریسی کے محکمہ نے گزشتہ کئی برسوں سے اسکولوں کا سروے ہی نہیں کیا، نہ ان کے پاس چائلڈ لیبر کی تعداد کے بارے میں کوئی تحقیق موجود ہے، اس بناء پر سعید غنی کے پیش کردہ اعداد و شمار حقیقی نہیں ہیں۔
اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ گھوٹکی میں ان کے گاؤں کے قریب پرائمری اسکول کی عمارت مخدوش ہونے سے بچے درخت کے نیچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
یہ صورتحال صرف ایک ضلع کی نہیں، کئی اضلاع میں یہی صورتحال ہے۔ سندھ حکومت کی سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں غیر فعال اور گھوسٹ اسکولوں کا انکشاف کیا گیا تھا۔ سندھ میں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں سائنس لیب اور لائبریری نہ ہونے، پینے کے پانی کی عدم فراہمی اور بیت الخلاء کی سہولت نہ ہونے کی شکایات عام ہیں۔
گورننس کا نظام مؤثر نہ ہونے کی بناء پر غیر حاضر استاد کا ادارہ ابھی تک موجود ہے۔ اساتذہ کے تقرر میں میرٹ کے بجائے سیاسی دباؤ اور اسامیوں کی خرید و فروخت کی شکایات عام سی بات ہے۔ حکومت نے اسکولوں میں بچوں کو مفت میں کتابیں دینے کی اسکیم شروع کی تھی مگر گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے علاوہ ورکشاپوں، کارخانوں میں کام کرنے والے بچوں اور ریڑھیاں لگانے والے بچوں اور مدرسوں کے طالب علموں کو اسکول میں داخلہ کی طرف راغب کرنے کی کوئی اسکیم اس بجٹ میں شامل نہیں۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں بچوں کو اسکول میں داخلہ کے لیے ان کے والدین کے لیے کشش پیدا کرنے کے لیے مختلف اسکیموں کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوئے۔
ان اسکیموں میں بچوں کو ناشتہ اور دودھ دینے، یونیفارم، کتابوں اورکاپیوں کی فراہمی کے ساتھ ان کو اتنا وظیفہ دینے کی اسکیمیں شامل تھیں، جو ان کے والدین کی آمدنی میں اتنا اضافہ کرتیں۔ بھارت میں ان پالیسیوں کی وجہ سے خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں 18ویں ترمیم منظور کی گئی۔ 18ویں ترمیم کی شق 25-A کے تحت ریاست ہر شہری کو تعلیم دلانے کی پابند ہے مگر اس بجٹ میں ایسی کوئی اسکیم شامل نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت اسکولوں کی تعمیر اور اسکولوں میں جدید سہولتوں کی فراہمی کے لیے ہر سال رقم مختص کرتی ہے، یہ رقم خرچ تو ضرور ہوتی ہے مگر اسکولوں میں بنیادی سہولتیں فراہم نہیں ہوتیں۔ حکومت سندھ کے سرکاری کالجوں کے حالات بہت خراب ہیں۔ ان کالجوں میں انٹر کی سطح تک تعلیم کے لیے طلبہ کا ہجوم ہوتا ہے مگر ڈگری کی سطح پر زیر تعلیم طلبہ کی تعداد روزبروز کم ہوتی جارہی ہے۔
اندرون سندھ کالجوں میں سوشل سائنس اور سائنس کے نئے مضامین کی تدریس نہیں ہوتی۔ اسی طرح بزنس ایڈمنسٹریشن اورکمپیوٹر سائنس ڈگری کی سطح کے کورس نہیں ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کالج کی سطح پر جامع اصلاحات کا منصوبہ تیارکیا تھا۔
اس منصوبہ کے تحت کالجوں میں ایسوسی ایٹ بی ایس پروگرام شروع ہونا تھا۔ یہ پروگرام سمسٹر سسٹم کی بنیاد پر ہوگا۔ اس پروگرام میں سوشل سائنس، ایگریکلچرل، نیچرل سائنس، کامرس، بزنس ایڈمنسٹریشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مضامین شامل ہونگے۔ حکومت سندھ نے ایچ ای سی کے اس پروگرام پر عمل درآمد کرنے پر توجہ نہیں دی۔
اس سال جب ایچ ای سی نے فیصلہ کیا کہ اگلے سال کے بعد بی اے، بی ایس سی اور بی کام کی ڈگری کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تو تعلیم کے مشیر نثارکھوڑو نے تعلیم کو صوبائی خود مختاری کا مسئلہ بنایا اور اعلان کیا کہ حکومت سندھ اس پروگرام کو نافذ نہیں کرے گی مگر بعد میں سندھ یونیورسٹی سمیت اندرون سندھ میں قائم یونیورسٹیوں کی انتظامیہ نے اس پروگرام پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا۔
ایسوسی ایٹ بی ایس کے پروگرام کے لیے کالجوں کے انفرا اسٹرکچرکو بہتر بنانا اور نئے مضامین کے اساتذہ کا تقرر شامل ہے، اگرچہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنی بجٹ تقریر میں اس پروگرام کے لیے علیحدہ سے مختص رقوم کا ذکر نہیں کیا مگر یہ شفاف حقیقت ہے کہ سندھ میں سرکاری کالجوں کو تباہی سے بچانے کے لیے ایسوسی ایٹ بی ایس پروگرام کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے اورکالجوں کے انفرا اسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے وافر مقدار میں فنڈز دیے جائیں۔
سندھ کی سرکاری یونیورسٹیاں انتظامی اور مالیاتی بحرانوں کا شکار ہیں۔ اب بھی متعدد یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلر کا وجود نہیں ہے۔ قائم مقام وائس چانسلرکی مدد سے برسوں سے عارضی نظام چلایا جا رہا ہے۔ سندھ میں ایک ہائر ایجوکیشن کمیشن موجود ہے مگر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرکا تقرر اس کا دائرہ کار نہیں ہے۔
وائس چانسلر اور ڈائریکٹر فنانس کا تقرر وزیر اعلیٰ کی قائم کردہ تلاش کمیٹی کی سفارش پر ہوتا ہے۔ اب سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر عاصم نے وزیر اعلیٰ کی سندھ کی یونیورسٹیوں کے لیے تشکیل دی گئی وائس چانسلر تلاش کمیٹی کے فیصلوں پر سوال اٹھا دیا ہے۔ انھوں نے وزیر اعلیٰ کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ تلاش کمیٹی نے چار یونیورسٹیوں میں جن وائس چانسلروں کے تقرر کی سفارش کی ہے وہ وائس چانسلر ایچ ای سی کے معیار پر پورے نہیں اترتے مگر حکومت سندھ نے ان افراد کو وائس چانسلر مقرر کردیا ہے۔
سندھ کی سرکاری یونیورسٹیاں شدید مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد سے یہ گرانٹ پہلے کم کی گئی اور اب اخراجات کے تناظر میں اس میں اضافہ نہیں ہوا۔ حکومت سندھ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 10فیصد اضافہ کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اعلان خوش آیند ہے مگر حکومت سندھ اپنے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے یونیورسٹیوں کو گرانٹ دینے کو تیار نہیں، یہی وجہ ہے کہ سندھ کی قدیم سندھ یونیورسٹی سمیت کئی یونیورسٹیاں شدید مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔
سندھ یونیورسٹی ریٹائرڈ اساتذہ اور عملہ کو پنشن کی ادائیگی کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ سندھ یونیورسٹی، ٹیچرز سوسائٹی کی صدر ڈاکٹر عرفانہ ملاح کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے خصوصی گرانٹ جاری نہ کی تو سندھ یونیورسٹی اپنے ملازمین کو پنشن ادا کرنے کے قابل نہیں ہوگی، یہی صورتحال کراچی یونیورسٹی کی ہے جس کا انفرا اسٹرکچر پسماندہ ہوچکا ہے۔ یہ یونیورسٹیاں ابھی تک مکمل طور پر اسمارٹ کلاس روم تعمیر نہیں کرسکی ہیں۔
فنڈز کی کمی کی وجہ سے یونیورسٹیوں کے تحقیقی پروجیکٹ شدید متاثر ہوئے ہیں، اگر یونیورسٹیاں اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی اور ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی ادائیگی میں ناکام رہیں تو صوبے میں ایک نیا بحران پیدا ہوگا۔ حکومت نے تھر میں ایک مکمل یونیورسٹی کا اعلان کیا تھا مگر عملی طور پر اس بارے میں کچھ نہ ہوا۔ اسی طرح کراچی کے منتخب نمایندوں کا کہنا ہے کہ اورنگی ٹاؤن کی آبادی میں خواندگی کا تناسب دیگر علاقوں سے زیادہ ہے، اس لیے اورنگی ٹاؤن میں ایک مکمل یونیورسٹی قائم ہونی چاہیے۔