معقول فیصلہ
اس سال امتحانات کے بغیر کسی طالب علم کو پروموٹ نہیں کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود اور چاروں صوبائی وزراء تعلیم پہلی دفعہ ایک معقول فیصلہ پر پہنچ گئے۔
وفاقی وزیر تعلیم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح کے ہونے والے امتحانات کا شیڈول بھی طے ہوگیا۔ کورونا وائرس نے گزشتہ سال کے آغاز پر ملک پر حملہ کیا تھا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کیا اور اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا تھا۔ تعلیم کے سلسلہ کو کسی نہ کسی سطح پر برقرار رکھنے کے لیے Online کلاسوں کا اجراء ہوا تھا۔
سرکاری تعلیمی اداروں میں انٹرنیٹ کی سہولتیں کم ہونے، غریب طالب علموں کے پاس لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون کے نہ ہونے اور بجلی کی فراہمی میں رکاوٹوں کی بناء پر اس تجربہ کے بہت زیادہ مفید نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔
بلوچستان، سابقہ قبائلی علاقوں، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اورگلگت بلتستان میں نیشنل سیکیورٹی کی بناء پر 3G اور 4G انٹرنیٹ سروس کی اجازت نہ ہونے کی بناء پر ان علاقوں کے طالب علم آن لائن کلاسوں سے محروم رہے تھے مگر وفاقی وزارت تعلیم و تر بیت کے فیصلہ ساز افسروں نے صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے ان مسائل کا حل تو تلاش نہیں کیا تھا مگر یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ کوئی امتحان نہیں ہوگا اور نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے طلبہ کو ان کی گزشتہ سال کی مارک شیٹ کی بناء پر ترقی دیدی جائے گی۔
اس فیصلہ سے لاکھوں طالب علم بغیر امتحان دیے پاس ہوئے مگر جب فائنل مارک شیٹ سامنے آئیں تو طالب علموں اور ان کے والدین کو احساس ہوا کہ یہ امتحان ان کے کیریئر پر سیادہ دھبہ بن رہے ہیں۔ جن طالب علموں نے نویں جماعت اور گیارہویں جماعت میں کم نمبر حاصل کیے تھے وہ فائنل مارک شیٹ میں کم نمبروں کی بناء پر یونیورسٹیوں میں داخلوں سے محروم رہ گئے۔
ان طالب علموں اور ان کے والدین کو یہ احساس ضرور ہوا کہ اگر طالب علم تیاری کر کے امتحان دیتے تو وہ زیادہ اچھے نمبر حاصل کرسکتے تھے اور اس طرح ان کا مستقبل بہتر ہوجاتا۔ جن طالب علموں نے گزشتہ سے پیوستہ سال کے امتحانات کے نتائج کی بناء پر اعلیٰ نمبر حاصل کیے ان میں سے کئی پروفیشنل یونیورسٹیوں کے علاوہ جنرل یونیورسٹیوں کے انٹری ٹیسٹ میں مقررہ ہدف حاصل نہ کرسکے۔ اس صورتحال میں صاحبِ نظر اساتذہ نے یہ محسوس کیا کہ بغیر امتحان دینے اور ترقی دینے کے طریقہ کار سے تعلیم کے مجموعی معیار پر فرق پڑا۔
جو طالب علم امریکا، یورپی ممالک اور چین میں اعلیٰ تعلیم کے لیے رجوع کریں گے انھیں بغیر امتحان دیے مارک شیٹ پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور معیاری یونیورسٹیاں پاکستانی طالب علموں کو داخلہ دینے سے گریز کریں گی۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں وائرس کمزور ہونا شروع ہوا تو سندھ اور بلوچستان میں وائرس کی تباہ کاریاں عروج پر پہنچ گئیں۔
سندھ میں یہ شرح صرف کراچی ایسٹ میں 20فیصد تک ریکارڈ ہوئی۔ حکومت سندھ نے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے تعلیمی اداروں کی تعطیلات میں اضافہ کردیا اور اب پورے صوبہ میں رات 8:00 بجے کے بعد لاک ڈاؤن عملی طور پر نافذ العمل ہوا۔ اس صورتحال میں حکومت نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کا شیڈول کا اعلان توکیا ہے، یہی مناسب وقت ہے کہ سالانہ امتحانی نظام کی تبدیلی کے بارے میں سوچا جائے۔
سالانہ امتحان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1858میں ہندوستان میں پہلی دفعہ میٹرک کا امتحان منعقد کیا۔ برطانوی ہند حکومت نے طے کیا کہ ہندوستان میں امتحان پاس کرنے کے لیے کم از کم 32.5 نمبر ہونے چاہئیں، اس وقت برطانیہ میں کم از کم 65 فیصد نمبر امتحان پاس کرنے کے لیے ضروری ہوتے تھے۔
2 سال بعد 1860 میں اساتذہ کی آسانی کے لیے کم از کم نمبر 33فیصد کردیے گئے۔ پاکستان میں یہ نظام میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح پر اب تک قائم ہے مگر سرکاری یونیورسٹیوں میں سالانہ امتحانات میں کم از کم نمبر 45 فیصد اور سمسٹر سسٹم میں 50فیصد کردیے گئے ہیں، مگر پرائیوٹ یونیورسٹیوں میں 40 فیصد کے قریب نمبر حاصل کرنے والا طالب علم بھی پاس قرار پاتا ہے۔ تعلیم کے ماہرین کہتے ہیں کہ امتحانی نظام کو عملی طور پر تبدیل ہونا چاہیے۔
سالانہ نظام کو متروک کردینا چاہیے اور سمسٹر سسٹم نافذ ہونا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ ہر کلاس کے طلبہ کے لیے مختصر سینٹر قائم کیے جائیں اور ہر امتحانی سینٹر میں SOPsکے تحت عملدرآمد کیا جائے۔ حکومتوں کو اس صورتحال میں طلبہ کے ہجوم کو روکنے کے لیے امتحانی سینٹروں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ کرنا ہوگا اور ہر سینٹر میں طلبہ کی مختصر تعداد کو امتحان دینے کے لیے مدعو کرنا ہوگا اور سینٹروں کی جدید خطوط پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید آلات کے ذریعہ نگرانی کا طریقہ کار وضح کرنا ہوگا۔ یہ پروجیکٹ خاصا بھار ی ہوگا اور اس پروجیکٹ پر خطیر رقم خرچ ہوگی مگر تعلیم کا معیار بلند کرنے کے لیے یہ رقم بہت معمولی ہوگی۔
ابلاغیات کے استاد اور محقق ڈاکٹر عرفان عزیز اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے امتحانی نظام کی تبدیلی کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں اور بین الاقوامی معیار کے امتحانات GRE اور Toffil کے طریقہ کار کو اپنانے پر غور کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں اسمارٹ کلاس رومز کی طرح اب اسمارٹ امتحانی مراکز بھی قائم ہونے چاہئیں۔ ان اسمارٹ امتحانی مرکز میں طالب علم کی کرسی کے سامنے ایک اسکرین آویزاں ہونی چاہیے اور مختلف امتحانی مراکز کے لیے مختلف امتحانی پرچے تیار ہونے چاہئیں بلکہ ہر کلاس میں مختلف امتحانی پرچہ اس اسکرین پر نمودار ہونا چاہیے اور یہ پرچے امتحان شروع ہونے سے ایک دو گھنٹے قبل تیار ہونے چاہئیں تاکہ پرچوں کے آؤٹ ہونے کی روایت ہی ختم ہوجائے۔ امتحانی مراکزکی کلوز ڈور کیمروں سے نگرانی ہونی چاہیے۔ جس امتحانی مرکز میں کوئی غیر معمولی سرگرمی کی اطلاع ہو تو انتظامیہ کو فوری طور پرکارروائی کرنی چاہیے۔
بعض صاحبان علم و دانش کی رائے ہے کہ طالب علموں میں محنت کی عادت ڈالنے، ان کی صلاحیتوں کو ابھارنے اور میرٹ کا نظام نافذ کرنے کے لیے نیا امتحانی نظام ضروری ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر عرفان عزیز کہتے ہیں کہ تعلیم ریاست کی ترجیح نہیں ہے۔ حکمران مخصوص مفادات کے حصول کے لیے بعض پالیسیاں نافذ کرتے ہیں اور ہر حکومت معاشرہ مذہبی انتہاپسند گروپوں کی تسکین کے لیے نصاب میں تبدیلی کرتی ہے۔ تعلیم کے بجٹ میں قیامِ پاکستان کے بعد سے بہت معمولی اضافہ ہوا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کا تعلیمی سالانہ بجٹ بھارت، سری لنکا اور بنگلادیش سے بھی کم ہے جس کے نتیجہ میں پاکستان میں ناخواندہ افراد کی تعداد ان ممالک سے بہت زیادہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مقصد کے لیے وفاقی اورصوبائی حکومتوں کو اپنے سالانہ بجٹ کی ترجیحات میں تبدیلی کرنی ہوگی، مگر جب وفاقی اور صوبائی حکومتیں ماضی کی روایت سے ہٹ کر امتحانات کے انعقاد کا فیصلہ کرسکتی ہیں تو امتحانی نظام میں انقلابی تبدیلیاں بھی ہوسکتی ہیں۔