ہجر کی رات کا ستارہ
گزشتہ صدی کی اسی کے دہائی کے مارکسی دانشور محمد میاں زندگی کی اکناوے بہاریں گزار کر دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ مزدوروں کے بین الاقوامی ترانے " انٹرنیشنل "کو اردومیں شکل دینے والے، غریبوں کی حالت کار میں تبدیلی کا خواب دیکھنے والے میاں صاحب اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے پرعزم رہے۔
انھوں نے کبھی مصلحت کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ مراعات یافتہ طبقے میں شامل ہونے کی نا کبھی خواہش کی اور نہ ہی کبھی جستجو۔ ان کے والدکا شمار ہندوستان کے اہل حدیث کے ممتاز علماء میں ہوتا تھا۔ ان کے والد محمدیوسف شیخ الحدیث تھے۔
محمد میاں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد کی نگرانی میں حاصل کی، یہ مذہبی تعلیم تھی۔ پھر دہلی کے فتح پور مسلم اسکول سے میٹرک کیا اور سینٹ اسٹیفن کالج میں داخلہ لیا۔ محمد میاں کے بڑے بھائی انڈین رائل ایئرفورس میں ملازم تھے۔ میاں صاحب اپنے خاندان والوں کے ہمراہ رائل ایئرفورس کے طیارے میں پشاور اترے اور پھر کراچی آگئے۔
50کی دہائی کراچی کے طلبہ کے لیے جدوجہد کی دہائی تھی۔ ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے بچوں کے علاوہ پورے ملک سے نوجوان کراچی آنے لگے تھے۔ شہر میں اسکول اور کالجوں کی کمی تھی اورکراچی یونیورسٹی کی فیس زیادہ تھی۔ نوجوانوں میں ترقی پسند خیالات پھیل رہے تھے، کمیونسٹ پارٹی نے اپنے طلبہ کی فرنٹ دیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کر دی تھی۔
ڈی ایس ایف کے نمایندے کالجوں کے علاوہ اسکولوں میں قائم ہونے والی انجمنوں کے عہدیدار منتخب ہوچکے تھے۔ جماعت اسلامی نے اپنے نظریات کی ترویج کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ قائم کردی تھی۔ ڈاکٹر منظور احمد اور پروفیسر خورشید وغیرہ جمعیت کو منظم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ محمد میاں کے آباؤ اجداد نے انگریزوں کے خلاف تاریخی جدوجہد کی تھی۔ ان میں انقلابی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
محمد میاں نے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈی ایس ایف کے عہدیداروں کے ساتھ مل کر تعلیم کو سستا کرنے کی جدوجہد میں حصہ لینا شروع کیا۔ 8جنوری 1953 کو کراچی کے طلبہ نے تعلیم کو عام اور سستا کرنے اور نئی تعلیمی پالیسی کے قیام کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ اس وقت کے وزیر داخلہ مشتاق گورمانی کی ہدایت پر پولیس نے طلبہ پر گولی چلا دی۔ اس کے نتیجے میں کئی طلبہ شہید ہوئے۔ طلبہ نے وزیر داخلہ کی کارکو نذرآتش کر دیا۔ اس دن ڈی جے کالج سے بندر روڈ تک کا علاقہ جنگ کا میدان بنا رہا۔ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے اس تحریک کی قیادت کرنے والے رہنماؤں سے مذاکرات کیے اور طلبہ کے مطالبات منظور کیے گئے۔
اس تحریک کو چلانے کے لیے ایک ایکشن کمیٹی قائم کی گئی تھی جس میں اسلامی جمعیت طلبہ کی نمایندگی کرنے والے وفد میں محمد میاں شامل تھے۔ محمد میاں نے ایس ایم کالج سے فلسفہ میں بی اے آنرز اور انگریزی میں ایم اے کیا اور کالج کے پرنسپل پروفیسر غلام مصطفی شاہ نے انھیں لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت دے دی۔ اس تحریک کے دوران محمد میاں اور بائیں بازو کے رہنماؤں کے درمیان طویل مباحثہ ہوا۔ 60 کی دہائی میں محمد میاں اعلیٰ تعلیم کے لیے پہلے دمشق اور پھر برطانیہ گئے جہاں انھوں نے لندن یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات میں داخلہ لیا مگر اب میاں صاحب ڈارون کے نظریہ ارتقاء، کارل مارکس اور اینگلز کے مادی جدلیات کے فلسفہ سے بہت متاثر ہوچکے تھے۔
انھوں نے کیریئر بنانے کا خیال دل سے نکال دیا۔ محمد میاں ایک جرمن خاتون کی زلفوں کے اسیر ہوئے۔ کچھ عرصہ لیبیا میں انگریزی اخبارکے ایڈیٹر رہے اورکچھ عرصہ لندن میں بی بی سی اردو سروس میں کام کیا۔ وہ لندن میں فلسطینی اور جنوبی افریقہ کے عوام کی تحریکوں کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں حصہ لینے لگے۔ اسی طرح ویتنام کے خلاف ا مریکی سامراج کی فوج کشی کے خلاف جلسوں اور جلوسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ معروف فلسفی برٹرینڈرسل اور فرانسیسی دانشور ژاں پال سارتر ویتنام میں امریکی فوج کے خلاف مظالم کے خلاف تحریک کے ہر اول دستہ میں شامل تھے۔
محمد میاں نے سوشل ازم کے نفاذ کے لیے چلنے والی مزاحمتی تحریک کا حصہ بننے کے لیے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ میاں صاحب کے لیے غیر ملکی خبررساں ایجنسیوں اور دیگر اداروں میں ملازمت کے خاطرخواہ مواقعے موجود تھے مگر انھوں نے پاکستان کے غریب عوام سے یکجہتی اور جدوجہد کو درست راستہ جانا اور کراچی آگئے۔ یہاں انھیں انگریزی اخبار دی سن میں ملازمت مل گئی۔
جب 1969 میں اسرائیل نے لبنان میں پی ایل او کے دفاتر پر حملہ کیا اور اردن کے شاہ حسین کی ایماء پر جنرل ضیاء الحق نے اردن میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا تو اخبار نے رپورٹنگ کے لیے محمد میاں کو بیروت بھیج دیا۔ وہ واحد پاکستانی صحافی تھے جو بیروت گئے جہاں انھوں نے فلسطینی گروپوں سے یکجہتی کا بھی اظہار کیا۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی سے روزنامہ مساوات شایع کیا تو اس کے ایڈیٹر شوکت صدیقی کے اصرار پر محمد میاں روزنامہ مساوات میں اسسٹنٹ ایڈیٹر ہوگئے مگرپالیسی اختلافات کی بناء پر چند دن بعد مستعفی ہوگئے۔ محمد میاں نے مزدور کسان پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے تفصیلی دورے کیے۔ خیبر پختونخوا کے علاقہ ہشت نگر میں چلنے والی کسانوں کی تحریک میں حصہ لیا اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں جا کر کسانوں کے حالات کا مطالعہ کیا اور کسانوں میں طبقاتی شعور پیدا کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے بھٹو دور میں سائٹ اور لانڈھی میں چلنے والی مزدور تحریکوں کی حمایت میں فضاء ہموار کی۔ محمد میاں لانڈھی میں چلنے والی تحریک کو چلانے والے خفیہ سیل کے متحرک رکن تھے۔ میاں صاحب نے جنرل ضیاء الحق کے خلا ف کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کو متحرک کرنے کے لیے سخت محنت کی۔ بائیں بازوکے طلبہ کا اتحاد یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس فرنٹ قائم ہوا۔ میاں صاحب اساتذہ کے رہنما ڈاکٹر ظفر عارف کے اس مشکل دور میں ہمرکاب تھے جب سندھ کے گورنر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لیفٹینٹ جنرل جہانداد نے کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ظفر عارف کو چارج شیٹ جاری کی تو اس کے جواب کا مسودہ ظفر عارف اور محمد میاں نے مشترکہ طور پر تیارکیا تھا۔
ڈاکٹر ظفر عارف کا یہ جواب پاکستان اور دنیا بھر میں بہت مقبول ہوا۔ میاں صاحب نے انگریزی کے رسالہ آؤٹ لک اور روزنامہ صداقت میں معرکتہ الآراء اداریے تحریر کیے۔ انھوں نے فوجی آمریت کے خلاف اردو میں کئی اصطلاحات تخلیق کیں۔ میاں صاحب ہمیشہ سائنس کے پھیلاؤ کے لیے کوشاں رہے۔ انھوں نے 80 کی دھائی میں حیات کے نام سے اردو میں ایک ماہنامہ شایع کیا۔ حیات میں سائنسی موضوعات پر آسان اور سادہ زبان میں مضامین شایع ہوتے تھے۔ گردش زمانہ کی بناء پر حیات کچھ عرصہ بعد بند ہوا مگر میاں صاحب کے جذبہ میں فرق نہ پڑا۔ محمد میاں کا آخری کارنامہ اردو میں شایع ہونے والا رسالہ " علم وحرفت " تھا۔
علم وحرفت کے پبلشر کے اچانک لاپتہ ہونے سے یہ رسالہ بند ہوگیا۔ میاں صاحب نے ماہر امراض قلب ڈاکٹر سید اسلم کی اردو میں شایع ہونے والی طبی لغت میں کمپیوٹر کے بارے میں ایک باب تحریر کیا، وہ آخری عمر میں طالبان کی تحریک سے متاثر ہوئے، مگر سائنٹیفک سوشل ازم کو ہمیشہ انسانیت کی بقا قرار دیتے رہے۔ کراچی کی مضافاتی بستی مچھر کالونی میں مزدوروں کو مارکس ازم کادرس دینے والے اس دانشور کی رحلت اس ملک کے مظلوم عوام کا نقصان ہے۔ ناصر کاظمی نے شاید محمد میاں ہی کے لیے کہا تھاکہ!
وہ ہجر کی رات کا ستارہ، وہ ہم نفس، ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مرگیا وہ