الیکٹرونک مشین اور شفاف انتخابات کا ہدف
تحریکِ انصاف کی حکومت بہت جلدی میں ہے۔ کسی دانا شخص کے ذہن میں کہیں سے یہ خیال آیا ہے کہ الیکٹرونک مشین سے ووٹ ڈالے جائیں تو دھاندلی کا معاملہ دائمی طور پر حل ہوجائے گا اور پاکستان کے عوام شفاف انتخابات کی منزل حاصل کرلیں گے، حکومت نے اس وقت الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی خصوصیات بیان کرنی شروع کردی۔
بتایا جاتا ہے کہ ان مشینوں کی خریداری پر 25ارب روپے خرچ ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے اس الیکٹرونک مشین کی کارکردگی پر سخت اعتراضات کیے ہیں، مخالفجماعتوں کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ 2018 کے انتخابات میں RTS سسٹم بند ہونے، کلوز ڈورکیمروں کے تجربوں اور پریزائیڈنگ افسروں کے لاپتہ ہونے اورپولنگ ایجنٹوں کو گنتی کے وقت پولنگ اسٹیشنوں سے بے دخل کرنے کے واقعات کی تحقیقات توکرائی جائے مگر وفاقی حکومت کے مرد آہن الیکشن کمیشن اور میڈیا کی آراء کو اہمیت نہیں دیتے اور حزب اختلاف کو کرپٹ مافیا قرار دیتے ہیں۔
یوں انھوں نے جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کی روایات کی پیروی کرتے ہوئے انتخابی اصلاحات کو ایک آرڈیننس کے تحت نافذکر دیا۔ اس آرڈیننس میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین سمندر پار ممالک میں آباد پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے، سینیٹ کے انتخابات اوپن ووٹ کے ذریعہ کرانے کے معاملات شامل ہیں۔
قومی اسمبلی ان آرڈیننس کا جائزہ لے گی۔ سینیٹ اس مسودہ قانون پر غورکرے گی۔ قومی اسمبلی میں اکثریت کی بناء پر یہ مسودہ منظور ہوگا، مگر سینیٹ چیئرمین حکومتی اتحاد میں ہونے کے باوجود سینیٹ کے اراکین کی اکثریت کا تعلق حزب اختلاف کی جماعتوں سے ہے، یوں یہ مسودہ سینیٹ میں منظور نہیں ہوگا اور پھر حکومت کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا ہوگا۔ مگر بہت بنیادی سوال ہمیشہ رہے گا کہ کیا واقعی تمام اسٹیک ہولڈرز ان انتخابی اصلاحات سے مطمئن ہوجائیں گے؟
ملک میں انتخابات کے انعقاد کی بنیادی ذمے داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے۔ موجودہ الیکشن کمیشن نے آزادانہ انتخابات کے ہدف کے لیے تاریخی فیصلے کیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ الیکٹرونک ووٹنگ قابل اعتبار نہیں ہے، اس پروجیکٹ پرکئی ارب روپے خرچ ہونگے، بجلی کی فراہمی میں معطلی اور ووٹروں کی اس مشین کو استعمال کرنے کی صلاحیت سے متعلق سوالات علیحدہ سے پیدا ہونگے۔ اس الیکٹرونک مشین کو الیکشن کمیشن کے عملے نے استعمال کرنا ہے، یوں سب سے اہم رائے الیکشن کمیشن کی ہے مگر حکومت نے اس رائے کو اہمیت نہیں دی۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین اس مشین پر سخت اعتراضات کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مشین کے سوفٹ ویئرکو اسی طرح کنٹرول کیا جاسکے گا جیسے 2018کے انتخابات میں فوری نتائج کی ترسیل کے نظام RTS کو کنٹرول کیا گیا تھا، یہ مشین بجلی کے ذریعہ چلتی ہے۔ کراچی شہر میں گزشتہ ماہ بلدیہ ٹاؤن کے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں پولنگ اسٹیشن کئی کئی گھنٹے بجلی سے محروم رہے۔ مکران ڈویژن کی سرحدیں ایک طرف ایران اور دوسری طرف بحیرہ عرب سے ملتی ہیں۔ اس علاقہ میں ایران بجلی فراہم کرتا ہے۔
ایران کی بجلی کی فراہمی کے مخصوص اوقات ہیں۔ بلوچستان کے دیہی علاقوں کا ایک بڑا حصہ ابھی تک بجلی سے محروم ہے۔ ان علاقوں میں صاحب ثروت افراد جنریٹر یا سولر پینل سے بجلی حاصل کرتے ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا معاملہ صرف بلوچستان تک ہی محدود نہیں بلکہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے شہری اور دیہی علاقوں میں بجلی کا کسی وقت بھی لاپتہ ہونا معمول کی بات ہے۔ حکومت کے عزائم بلند رہے تو پھر ہر پولنگ اسٹیشن کو جنریٹر یا سولر پینل کی فراہمی ضروری ہوگی، اگرچہ ملک میں 35 فیصد افراد کے پاس موبائل فون موجود ہے اور اسمارٹ فون استعمال کرنے والوں کی تعداد اب بھی کم ہے۔
بلوچستان کے بیشتر حصے، خیبرپختون خوا کے افغانستان کی سرحد سے منسلک علاقے اورگلگت بلتستان میں اب بھی انٹرنیٹ کی فراہمی ملک کی سیکیورٹی سے منسلک ہے۔ 2018 میں قومی اسمبلی کی 270 سے زائد نشستوں کے لیے 85 ہزارکے قریب پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے۔ ان پولنگ اسٹیشنوں میں 2لاکھ 43 ہزار پولنگ بوتھ قائم کیے گئے۔
آیندہ انتخابات میں یہ تعداد بڑھ سکتی ہے مگر اگر تعداد نہ بھی بڑھی تو 2 لاکھ سے زیادہ مشینیں ضروری ہوں گی۔ ایسے لاکھوں خاندان ہیں جنھوں نے کمپیوٹر استعمال نہیں کیا، یوں مردوں اور خواتین کو اس مشین کے ذریعہ ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ کے عملہ یا کسی پولنگ ایجنٹ کی خدمات لینی پڑیں گے۔ اس طرح ان خواندہ افراد کا نام ہوگا اور ووٹ کوئی اور ڈالے گا۔ بھارت میں یہ مشین استعمال ہورہی ہے مگر اب ناقدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ انتہا پسند ہندو گروہ اس مشین کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یورپ میں کئی ممالک نے اس مشین کا تجربہ کیا مگر وہاں بھی الیکٹرونک ووٹنگ مشین زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی۔
پاکستان کے سیاسی نظام کے محققین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آسمانوں سے بجلیاں گرانے والی قوتیں الیکشن میں پسندیدہ نتائج کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ ان قوتوں سے تعلق کئی کردار اپنی عمر کے آخری حصہ میں مثبت انتخابی نتائج کے حصول کے لیے اپنے کردار کا اقرار کرچکے ہیں۔ اسی طرح یورپ، امریکا، کینیڈا اور مشرق وسطی میں آباد پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا معاملہ بھی خاصا پیچیدہ ہے۔
یہ لوگ E-mail یا WhatsApp کے ذریعہ ووٹ دیں گے یا ہر ملک میں پاکستانی سفارتخانے میں ووٹنگ مشین رکھی جائے گی۔ مختلف حلقوں کے ووٹروں کے لیے الگ الگ مشینوں کی ضرورت ہوئی یا ایک ہی مشین استعمال ہوئی تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان پاکستانیوں کے ووٹوں کی شناخت کا سوال ہمیشہ رہے گا۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے شفاف انتخابات کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔ تحریک انصاف نے 2013 کے انتخابات میں پنجاب کے چار حلقوں کو کھلوانے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا۔ تحریک انصاف کی اس مہم کے نتیجہ میں ووٹوں کی گنتی، کاؤنٹنگ شیٹ، فارم 45 اور 46 اور بیلٹ پیپر نجی چھاپہ خانوں سے شائع کرانے کے معاملات عیاں ہوئے تھے۔
ووٹر لسٹوں میں گھپلے، پولنگ اسٹیشنوں کا متعلقہ حلقہ سے دور قائم ہونا، انتخاب کی تاریخ سے ایک دن پہلے پولنگ اسٹیشنوں کی تبدیلی، انتخابی عملے اور متعلقہ امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ اورکاؤنٹنگ ایجنٹوں کی تبدیلی سے متعلق مسائل اجاگر ہوئے تھے۔
جمہوری ادارو ں کے استحکام کے لیے ملکی اداروں کے علاوہ بین الاقوامی اداروں نے بھی انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے جامع تحقیق کی ہے۔ یہ تحقیق کتابوں کی شکل میں اور ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ریٹائرڈ افسران، صحافی اور سیاسی کارکنوں کے اپنے اپنے تجربات بھی دستاویزات کی شکل میں موجود ہیں، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت نے ان دستاویزات کو نظراندازکرکے اچانک یہ فیصلہ کیا، جس سے شفاف انتخابات کا ہدف بہت دور چلا جائے گا، ابھی انتخابات میں دو سال باقی ہیں۔ حکومت کو قومی اسمبلی میں اکثریت کی طاقت کی بناء پر متنازعہ قانون بنانے کے بجائے انتخابات کو شفاف بنانے جیسے حقیقی مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔