عوام علاج کے بنیادی حق سے محروم
وفاقی بجٹ میں صحت کے لیے 21.72 بلین روپے رکھے گئے۔ کورونا وبا کے ماحول میں یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے جب کہ ملک میں کورونا ویکسین کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ پاکستان، صحت کے انڈیکیٹر Health Indicatorکے تناظر میں پڑوسی ممالک سے پسماندہ ہے۔
وفاقی بجٹ سے پہلے حکومت پاکستان اکنامک سروے جاری کرتا ہے۔ اس دفعہ جاری ہونے والے اکنامک سروے میں ملک میں شعبہ صحت کی ناگفتہ بہ صورتحال کا ذکرکیا گیا ہے۔ اکنامک سروے کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2017 میں زیادہ سے زیادہ عمر 66.9 سال تھی اور 2019 میں یہ شرح بڑھ کر 67.3 سال ہوگئی مگر عمر کی حد میں اضافہ باقی پڑوسی ممالک سے کم ہے۔
اس سروے میں کہا گیا ہے کہ پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں شرح اموات 1000 ہے جب کہ افغانستان میں 55.7، بھارت میں 46، بنگلہ دیش میں 25، چین میں 7، بھوٹان میں 28اور سری لنکا میں 7فیصد ہے مگر پاکستان میں شرح پیدائش افغانستان کے مقابلہ میں کم ہورہی ہے۔ پاکستان میں شرح پیدائش 19فیصد اور افغانستان میں 24.3 فیصد، بھارت میں ایک فیصد بنگلہ دیش میں 26.6 فیصد ہے۔
اس سروے میں شایع ہونے والے اعداد و شمار کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ملک بھر میں اسپتالوں کی تعداد 1.282ہے۔ اسی طرح بیسک ہیلتھ یونٹ کی تعداد 5.472 اور دیہی ہیلتھ سینٹروں کی تعداد 670 چھوٹی ڈسپنسریوں کی تعداد 752 اور ٹی بی کے علاج کے سینٹروں کی تعداد 418 ہے۔
اس سروے میں کہا گیا ہے کہ اسپتالوں میں مریضوں کے علاج کے لیے بیڈزکی تعداد 133.707 ہے۔ پورے ملک میں کوالیفائیڈ رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد 245.987 اور رجسٹرڈ کوالیفائیڈ نرسوں کی تعداد 116.659 اور رجسٹرڈ دانتوں کے ڈاکٹروں کی تعداد 27.360 ہے۔ اس سروے میں کہا گیا ہے کہ صحت کے شعبہ پر خرچ کیے جانے والی رقوم میں 2019 سے اضافہ ہوا ہے۔ 2018 کے بجٹ میں یہ رقم 421.8 بلین تھی جو 2019 میں 482 بلین ہوگئی ہے مگر یہ رقم جی ڈی پی کا 1.2 فیصد تھی۔
ہندوستان کے بٹوارے کے بعد 14 اگست 1947کو بھارت اور پاکستان وجود میں آئے مگر نئی ریاست کے حکمرانوں اور فیصلہ ساز اداروں نے صحت کو عوام کے بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ عوام کو علاج کی بہتر اور مفت سہولتوں کی فراہمی کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوئی، صرف بڑے شہروں میں صحت کا انفرااسٹرکچر قائم کیا گیا۔
ملک کے 80 فیصد آبادی کے حصے کو صحت کی منصوبہ بندی کے دائرہ کار میں شامل نہیں کیا گیا۔ برطانوی ہند کے دور میں لاہور میں آباد ہندو مخیر حضرات نے کئی اسپتال بنائے جن میں گنگا رام اسپتال آج بھی مشہور ہے۔ کراچی میں پارسی مذہب کے مخیرحضرات نے سول اسپتال اور اوجھا سینیٹوریم کی تعمیر میں حصہ لیا۔
پاکستان کے قیام کے بعد صحت کا شعبہ بنیادی ترجیحات میں شامل نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ برسراقتدار حکومتوں نے انگریزوں کے دور سے قائم اسپتالوں کو اپ گریڈ کیا پھر ان شہروں میں سرکاری سطح پر نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ نجی شعبہ نے بھی ساری توجہ بڑے شہروں پر مرکوز کی، یہی وجہ ہے کہ کراچی کے علاوہ لاہور اور اسلام آباد میں بڑے بڑے اسپتال قائم ہوئے مگر چھوٹے شہروں اورگاؤں میں نجی شعبہ نے جدید اسپتالوں کے قیام میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ نجی شعبہ نے اسپتالوں کو منافع کمانے کے کارخانوں میں تبدیل کردیا۔
کسی بھی حکومت نے ملک میں مختلف امراض کی روک تھام کے لیے ویکسین بنانے کے کارخانوں کی طرف توجہ نہیں دی۔ صورتحال اتنی خراب ہے کہ اب وفاقی حکومت کورونا 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اسلام آباد میں ایک ویکسین بنانے کا ادارہ قائم کیا ہے۔ اس ادارہ کے قیام میں چین نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
چین نے ماہرین اور مشینیں فراہم کی ہیں اور چین سے برآمدکیا جانے والا ویکسین کی تیاری کے لیے خام مال فراہم ہورہا ہے۔ یہ سینٹر چین سے آنے والے مال کو پروسیس کرے گا۔ پاکستان کو چین نے کورونا کی ویکسین عطیہ کے طور پر دی تھی، حکومت نے برطانیہ اور امریکا سے بھی یہ ویکسین درآمد کرنے کا فیصلہ کیا مگر جب لوگوں کی بڑی تعداد ویکسین سینٹر پہنچنے لگی تو یہ ویکسین کم پڑگئی۔ پاکستان میں اب بھی کتے کے کاٹنے کے تدارک کی ویکسین تیار نہیں ہوتی۔
اخبارات میں ہر دوسرے دن یہ خبر شایع ہوتی ہے کہ کئی بچے اور بڑے اس مرض سے ہلاک ہوگئے، یہ ویکسین بھارت سے آتی ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں بھارت سے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے ملک میں اس ویکسین کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد روپے کی حیثیت میں کمی کردی، یوں دوائیوں کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا۔ جن ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ان میں جان بچانے والی ادویات بھی شامل ہیں۔
اس وقت مارکیٹ میں شوگر، بلڈ پریشر، خون کو پتلا کرنے اور اینٹی بائیوٹک ادویات کی قیمتوں میں کئی سوگنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف شوگر ٹیسٹ کرنے والی اسٹرپ کی 50 اسٹرپ کی قیمت 600 روپے سے 800روپے کے درمیان بازار میں دستیاب ہے۔ اگر مڈل کلاس کا کوئی فرد ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق روزانہ عمل کرے تو اس کو صرف شوگر کے ٹیسٹ پر ماہانہ 15سے 20 ہزار روپے خرچ کرنے پڑیں گے۔
پاکستان کے صحت کے نظام کی ایک خوبی عوام کی فیاضی بھی ہے۔ شوکت خانم اسپتال، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (S.I.U.T)، انڈس اسپتال، کوجی گوٹھ اسپتال اور گمبٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ صحت کے شعبہ میں اعلیٰ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان اسپتالوں میں کیش کاؤنٹر نہیں ہیں۔ حکومت کو ان اسپتالوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
ملک میں گزشتہ دو برسوں سے کورونا وباء نے تباہی مچائی ہوئی ہے مگر پاکستان میں اس وباء کا پھیلاؤ پڑوسی ممالک اور یورپی ممالک سے کم رہا۔ اس وباء کی روک تھام کے لیے ڈاکٹروں نے مشورہ دیا تھا کہ ملک بھر میں مکمل لاک ڈاؤن کیا جائے۔
وزیراعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن کی مخالفت کی، یوں سندھ میں حقیقی طور پر لاک ڈاؤن ہوا مگر بقول ڈاکٹروں کے نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ وائرس کمزور پڑا مگر اس وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد اتنی بڑھ گئی تھی کہ تمام سرکاری اور پرائیوٹ اسپتالوں میں تمام بیڈ بھرگئے تھے۔
تمام اسپتالوں کے آئی سی یوز میں جگہ نہیں تھی، اس صورتحال سے نجی اسپتالوں نے خوب فائدہ اٹھایا تھا اور ہر مریض سے کم سے کم تین دن داخل کرنے اور آئی سی یو میں رکھنے کے 10، 10 لاکھ روپے وصول کیے۔ کچھ بدقسمت خاندان ایسے بھی تھے کہ انھوں نے اپنے پیاروں کی جانیں بچانے کے لیے 80لاکھ سے ایک کروڑ تک رقم خرچ کی مگر مریض زندگی کی جنگ ہار گئے تھے۔
پاکستان میں اب بھی پولیوکے مرض کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ جب بھی پولیو کی مہم چلائی جاتی ہے تو کئی ویکسیلیٹر اور پولیس کے جوان نامعلوم افراد کے حملوں میں شہید ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پولیوکی مہم میں بھرپور تعاون کیا ہے مگر جب تک رجعت پسند قوتوں کا قلع قمع نہیں ہوتا، اس کے اثرات صحت کے نظام پر پڑتے رہیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ صحت کارڈ کے ذریعہ عام آدمی کو علاج کی سہولت حاصل ہوجائے گی۔ ابھی اس دعویٰ کے نتائج آنے باقی ہیں۔ بھارت میں صحت کا انفرااسٹرکچر پاکستان سے بہت بہتر ہے مگر کورونا 19 نے اس انفرا اسٹرکچرکو توڑدیا۔ پاکستان میں صحت کے انڈیکیٹر ابھی مایوس کن ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحت کے بجٹ میں 40 فیصد اضافہ کیا جائے اور حکومت عوام کے علاج کے حق کو تسلیم کرے۔