مقتدرین کے بچے: چند المناک داستانیں
مغربی دُنیا میں لکھی جانے والی بعض کتابیں ہمیں رشک اور حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ پاکستان میں رہتے ہُوئے ہم تو ایسے حیرت انگیزموضوعات پر مبنی کتابوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارا معاشرہ کتاب دوست نہیں رہا؛ چنانچہ کوئی اچھی اور محنت سے کتاب لکھے بھی تو کیونکر؟ مَیں جس کتاب کا تذکرہ کرنے لگا ہُوں، اس نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ نئے سال کی آمد پر جناب محمد سلیم بیگ نے یہ کتاب مجھے تحفتاً عنایت فرمائی۔ اسے پڑھ کر خوشی بھی ہُوئی ہے اور دل و دماغ پر افسردگی کا کہر بھی جم گیا ہے۔
افسردگی اس لیے کہ جدید دُنیا میں ہر شعبہ حیات کی کئی مقتدراور مشہور شخصیات کے بچے اتنے خوش بخت نہیں رہے۔ کبھی بچوں نے معروف والدین کو دکھ دیا اورکبھی مشہور عالمی شخصیات نے بوجوہ اپنی اولاد کو دکھوں میں مبتلا رکھا۔ اس بد بختی میں اصل قصور کس کا تھا، راقم تو فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ زیر نظر کتاب کا عنوان ہے:What Happened To Their Kids?یہ معرکہ آرا کتاب معروف امریکی مصنف میلکم فوربس نے لکھی ہے۔ اس کتاب میں دُنیا کی مشہور ترین 120سے زائد شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔
ان شخصیات میں سیاستدان بھی ہیں اور حکمران بھی، بادشاہ بھی ہیں اور ملکائیں بھی، فلسفی بھی ہیں اور سائنسدان بھی، شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی، کامیاب ترین کاروباری بھی ہیں اور تحقیق نگار بھی۔ مصنف نے جنوبی ایشیا سے اس ضمن میں صرف ایک مشہور شخصیت کا انتخاب کیا ہے اور وہ ہیں گاندھی جی۔
مصنف، میلکم فوربس، نے اس کتاب میں گاندھی جی کے بچوں کا تذکرہ کرتے ہُوئے لکھا ہے: "مہاتماگاندھی کے چار بیٹے تھے۔ چاروں سے وہ خوش نہ رہے۔ بڑے بیٹے ہری لال گاندھی اور مہاتما گاندھی کے درمیان کبھی نہ بن سکی۔ دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے سے متصادم رہے، چنانچہ گاندھی جی نے دکھی ہو کر اپنے ایک خط میں لکھا: مشہورمرد اچھے ہو سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہے کہ مشہور مردوں کے بچے بھی اچھے ہوں۔ گاندھی جی کی اپنی شادی بارہ سال کی عمر میں ہُوئی تھی لیکن ہری لال نے سولہ سال کی عمر میں اپنے گھر کی ایک ملازمہ کی بیٹی سے اُس وقت شادی رچا لی جب گاندھی جی جنوبی افریقہ میں تھے۔ گاندھی جی کو پتہ چلا تو انھوں نے دکھی لہجے میں لکھا:اچھا، ہری لال نے شادی کرلی ہے تو بہتر ہے اور اگر وہ شادی نہ کرتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
گاندھی جی کے باقی تینوں بیٹے والد صاحب کی اس ناراضی سے آگاہ تھے ؛ چنانچہ تینوں نے 30سال کی عمر میں ڈرتے ڈرتے شادی کی لیکن گاندھی جی نے اس کی اجازت بھی خوشی سے نہیں دی تھی۔ ڈر کے مارے ہی یہ تینوں بیٹے، باپ کا احترام کرتے تھے۔ گاندھی جی جنوبی افریقہ ہی میں تھے کہ ہری لال اپنی بیوی کو لے کر جنوبی افریقہ پہنچ گیا۔ گاندھی جی کو اُس کی یہ حرکت قطعی پسند نہیں آئی تھی۔ انھوں نے ہری لال پر دباؤ ڈالا کہ بیوی کو فوراً واپس ہندوستان بھیج دے لیکن بیٹے نے باپ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا؛ چنانچہ ناراض ہو کر گاندھی جی نے اپنی بہو سے نہایت نامناسب سلوک کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ ایک ظالم ساس کی طرح ہری لال کی بیوی سے پیش آتے تھے۔ اُس کے کھانے پینے اور لباس میں بھی نقص نکالتے اور اپنی بہو کو ذہنی اذیتیں بھی دیتے"۔
میلکم فوربس اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں: "ہری لال ساری عمر کوئی ڈھنگ کا کام نہ کر سکا۔ وہ اچانک ایک روز بیوی بچوں کے ساتھ جنوبی افریقہ چھوڑ کر ہندوستان واپس آ گیا۔ یہاں اُس نے کئی کاروبار کیے لیکن ناکام رہا۔ وہ اپنے مشہور باپ کے نام پر لوگوں سے پیسے ٹھگتا رہتا۔ کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اُسے عظیم باپ کی وجہ سے ہندوستان ٹائمز کا مدیر منتظم بھی بنایا گیا لیکن یہاں بھی چل نہ سکا۔ وہ کثرت سے بادہ نوشی کرتا۔ جوا بھی کھیلتا تھا اوربُری عورتوں کے پاس بھی جا پہنچتا۔ سات بار وہ جیل گیا۔ کئی لوگوں کا مقروض ہو گیا تھا۔
ایک بار اُس نے ایک مشہور کاروباری شخصیت کے 30ہزار روپے چوری کر لیے لیکن گاندھی جی کی وجہ سے اُس کے خلاف پرچہ نہ کاٹا گیا۔ گاندھی جی کو بیٹے کی ان گندی حرکتوں کا پتہ چلا تو انھوں نے ہری لال کو لکھا: تم جب پیدا ہونے والے تھے تو مَیں ایک بُرا آدمی تھا لیکن پھر رفتہ رفتہ مَیں نے خود کو سدھار لیا، پتہ نہیں تم کب سدھرو گے؟ ایک بار ہری لال نے اسلام بھی قبول کر لیا تھا۔ گاندھی جی کو خبر ہُوئی تو انھوں نے لکھا:میرے اس بیٹے کی حرکات سے سب واقف ہیں، اس کے ہندو مذہب چھوڑنے سے ہندوؤں کا کوئی نقصان نہیں ہُوا ہے، یہ غیر مستقل مزاج ہے، جلد واپس لَوٹ جائے گا۔ اور ہُوا بھی ایسا ہی۔ کچھ عرصے بعد ہری لال دوبارہ ہندو بن گیا۔ گاندھی جی کی نعش کو جلایا جا رہا تھا جب ہری لال نشے میں ڈگمگاتا ہُوا تاخیر سے وہاں پہنچا۔ کسی نے اُس کا نوٹس ہی نہ لیا۔ ماں جب مررہی تھی، ہری لال تب بھی نشے میں دھت گرتا پڑتا ماں کو دیکھنے گیا تھا۔ گاندھی جی کے قتل کے چھ ماہ بعد بدقسمت ہری لال بھی ممبئی کے ایک سینی ٹوریم میں ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر مر گیا۔"
مہاتماگاندھی جی، جو بھارت کے بابائے قوم ہیں، کے گھر کے اندر کیا ہورہا تھا اور اُن کے اپنی اولاد سے کیسے تعلقات تھے، پڑھ کر دل پر بوجھ پڑ جاتا ہے۔ زیر نظر کتاب میں امریکی صدر، تھیوڈر روزویلٹ، اور مشہوربرطانوی سیاستدان و وزیر اعظم، ونسٹن چرچل، کی اولادوں کا جو المناک ذکر کیا گیا ہے، یہ داستانیں بھی دل پر پتھر رکھ کر پڑھنا پڑتی ہیں۔ تھیوڈر روز ویلٹ کے بارے میں میلکم فوربس نے لکھا ہے:"روز ویلٹ کے چھ بچے تھے۔ پہلی بیوی سے ایک اور دوسری بیوی سے پانچ بچے پیدا ہُوئے۔
پہلی بیوی سے پیدا ہونے والی بیٹی کا نام ایلس تھا۔ ایلس اتنی بگڑ گئی تھی کہ ہر لمحہ اپنے صدر باپ کا ناک میں دَم کیے رکھتی ؛ چنانچہ ایک بار تھیوڈر روز ویلٹ نے ایلس کی حرکتوں سے عاجز آ کر لکھا: یا تو مَیں صدارت کے فرائض انجام دے سکتا ہُوں اور یا پھر ایلس کو کنٹرول کر سکتا ہُوں، دونوں کام بیک وقت انجام دینا میرے بس کی بات نہیں۔ ایلس نے اپنے صدر باپ کو اُس وقت سخت صدمہ پہنچایا جب اُس نے اپنی عمر سے 14سال بڑے ایک کانگریس مین (نکولس لانگ ورتھ) سے شادی کر لی۔ شادی کے 19سال بعد ایلس نے ایک بیٹی (پاؤلینا) کو جنم دیا اور جب کئی سال بعد پاؤلینا شادی کررہی تھی تو اُس کی والدہ (ایلس) نے اچانک اُسے بتایا کہ تم دراصل ایک ناجائز بیٹی ہو اور تمہارا باپ کانگریس مین نکولس لانگ ورتھ نہیں بلکہ سینیٹر ولیم بورا ہے۔ اس انکشاف کے بعد دونوں ماں بیٹی کے تعلقات کبھی اچھے نہ رہے۔ اسی کشیدگی کے کچھ عرصہ بعد پاؤلین ایک بچی چھوڑ کر مر گئی جسے ایلس محبت سے پالتی رہی۔ امریکی میڈیا نے لکھا: ایلس اچھی ماں تو نہ بن سکی لیکن نانی اچھی بن گئی ہے"۔
(جاری ہے)