مرغِ خوش نوا خاموش ہو گیا
پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب نے فون پر لرزتی، ٹوٹتی اور کپکپاتی آواز میں مجھے اطلاع دی:برادرم رؤف طاہر صاحب اﷲ کے پاس چلے گئے۔ یہ اطلاع نہیں تھی، ایک اشک بھرا پیغام تھا۔ پنجاب یونیورسٹی سے پروفیسر وقار ملک اور رؤف طاہر کے دوست حکیم راحت نسیم سوہدروی کا فون آیا۔
انھوں نے بھی اس ناگہانی مرگ کی تصدیق کر دی۔ سُن کر معاً یوں لگا جیسے دل کی گہرائیوں میں کچھ چھناکے سے ٹوٹ گیا ہے۔ آنکھوں کے سامنے بلند قامت، بلند آہنگ اور بلند کردار برادرِ مکرم رؤف طاہر کی شخصیت کے کئی نقوش اور خدو خال ابھرتے چلے گئے۔ یادوں کا ایک ہجوم تھا جو یلغار کیے آتا تھا۔
پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران اچانک ہی صحافت کے کئی ستون زمین بوس ہو گئے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ اُن کے چھوڑے گئے خلا کو پُر کرنے والا بھی کوئی نظر نہیں آرہا۔ عجب بیچارگی ہے۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، سعود ساحر اور عبدالقادر حسن یکے بعد دیگرے رخصت ہو گئے اور اب رؤف طاہر نے بھی اچانک ہی آنکھیں موندھ لی ہیں۔ دل اور کانوں کو ابھی تک یقین نہیں آرہا۔
برسہا برس تک رؤف طاہر کو ہم نے قلمکاری کے میدان میں شہسواری کرتے دیکھا۔ مایوسی اور پژ مردگی سے اُن کا کوئی علاقہ نہیں تھا۔ وہ کبھی نجی یا قومی معاملات پر دلگیر دیکھے بھی گئے تو چند ہی لمحوں میں اُن کا فلک شگاف قہقہہ سنائی دیتا۔ دل و دماغ پر افسردگی کی جمی گرد لحظہ بھر میں اُڑ جاتی۔ ذوالقرنین، عطاء الرحمن اور رؤف طاہر ایک مثلث کے تین معروف اضلاع تھے۔
اللہ عطاء الرحمن صاحب کو صحت کے ساتھ زندگی دے لیکن اس مثلث کے دو ضلعے اب ٹوٹ چکے ہیں۔ اسلام آباد سے مختار حسن اور کراچی سے ادریس بختیار لاہور تشریف لاتے تو یہ "مثلث" خوبصورت مخمس بن جاتی۔ رؤف طاہر کئی سال لاہور میں کراچی کے ایک اخبار کے بیوروچیف رہے۔
یہ اُن کے کردار کی عظمت اور کمٹمنٹ کی ایک جھلک ہے کہ جب یہ اخبار مالی طور پر سخت دباؤ میں تھا اور ورکرز کو تنخواہیں دینا مشکل ہو گیا تھا، رؤف طاہر صاحب نے اخبار سے علیحدہ ہونا مناسب نہ سمجھا، حالانکہ اُنہی ایام میں لاہور سے جاری ہونے والے ایک نئے روزنامہ کی جانب سے انھیں اچھے مشاہرے کی آفر ہُوئی تھی۔ جب مخلص دوستوں نے اس نئے اخبار کو جوائن کرنے پر زور دیا تو رؤف طاہر لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ طاری کیے کہتے: " نہیں بھائی۔ ان بُرے حالات میں اپنے اخبار کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ ہاں اگر یہ اخبار خود ہی مجھے فارغ کر دے تو وہ جد ا معاملہ ہوگا۔"
جماعتِ اسلامی اور مولانا سید مودودیؒ سے اُن کا عشق زمانہ طالبعلمی سے شروع ہو گیا تھا اور یہ عشق دمِ واپسیں تک جاری رہا۔ وہ مگر ایسے عشاق میں سے نہیں تھے جو جماعت کے ہر فیصلے اور اقدام پر آنکھیں بند کرکے "ہاں " کہہ دیں۔ وہ تقریری اور تحریری اسلوب میں بعض فیصلوں اور اقدامات پر کڑی تنقید بھی کرتے لیکن نہایت شائستگی اور تہذیب کے ساتھ۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے وہ، مضبوط دلائل کے ساتھ، نواز شریف کے ہمنوا بن گئے تھے۔
جن دنوں راقم ایک معروف ہفت روزہ سے وابستہ تھا، رؤف طاہر کراچی کے ایک روزنامہ سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے ہفتہ وار اخبار میں سیاسی ڈائری بھی لکھتے تھے۔ یوں ہفتے میں دو تین دن تو اُن سے باقاعدہ ملاقات رہتی تھی۔ لکھا ہُوا مسودہ اُن کے ہاتھ ہی میں گول مول کیا ہوتا۔ ایم اے او کالج سے متصل ہمارے دفتر تشریف لاتے تو میرے کمرے میں داخل ہوتے ہی بلند آواز سے السلام علیکم کہتے اور پھر مسودے کو سیدھا کرتے ہُوئے فرماتے: یہ رہی برادرم اس ہفتے کی ڈائری۔ اُن کا سوادِ خط بہت صاف، دلکش اور تحریر کا انداز غیر مبہم ہوتا۔ یہی اوصاف اُن کے کردار میں بھی سما گئے تھے۔
موسمِ گرما میں اُن کا عمومی لباس سیاہی مائل سفاری سوٹ ہوتا تھا۔ چونکہ وہ زیادہ تر پیدل ہی چلنے کو ترجیح دیتے تھے، اس لیے دفتر تشریف لاتے تو یہ سفاری سوٹ پسینے میں بھیگا ہوتا۔ اس سراپے کے ساتھ میرے سامنے بیٹھتے، تھوڑی دیر کے لیے پاؤں ہلاتے رہتے اور پھر اُٹھ بیٹھتے۔ وضو کرتے اور نماز ادا کرنے کے لیے مصلے پر کھڑے ہو جاتے۔ باقاعدہ نمازی ہونے کے ناتے اُن کی پیشانی پر سجا داغِ سجود مثال ِ ماہ چمکتا رہتا تھا۔
رؤف طاہر مجلسی تھے۔ مجلس اُن کے دَم سے آباد بھی ہوتی اور گونجتی بھی رہتی۔ لاہور میں سینئر صحافیوں کے ایک تھنک ٹینک کے وہ روحِ رواں تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کسی سیاسی، صحافتی یا ادبی مجلس میں وہ شریک ہوں اور خاموشی سے اُٹھ کر رخصت ہو جائیں۔ پریس کانفرنسوں میں، بلند لہجے کے ساتھ، اُن کا سوال انوکھا اور منفرد ہوتا۔ اس سوال کے پیچھے اُن کا سیاسی مطالعہ اور تازہ مشاہدہ بولتا۔ قلم کے دھنی اور مضبوط یادداشت رکھنے کے ناتے اُن کی تحریریں ہمیشہ معتبر اور وقیع رہیں۔ انھوں نے کئی ہفتہ وار اور روزنامہ اخبارات میں ملازمت بھی کی، کالم بھی لکھے اور تدوین بھی کی لیکن اپنے قلم کو آلودہ نہ ہونے دیا۔
کئی بار ایسا ہوتا کہ ہم دونوں بعد از دوپہرایم اے او کالج سے نکلتے اور پیدل ہی پرانی انار کلی روانہ ہو جاتے۔ راستہ بھر اُن کی گفتگو جاری رہتی۔ اخبارات پر بھی، صحافتی سیاست پر بھی اور ہمعصر ہفت روزہ اخبارات پر بھی۔ کبھی مَیں نے مگر اُن کی زبان سے کسی کی برائی نہیں سُنی۔ باتیں کرتے کرتے ہم پرانی انار کلی پہنچ جاتے اور وہاں عبدالرحمن کے ریستوران سے کھانا کھاتے۔ پرانی انار کلی سے وہ پیدل ہی اپنے اخبار روانہ ہو جاتے اور راقم واپس اپنے دفتر کی جانب پلٹ جاتا۔ یہ الفاظ لکھتے ہُوئے میری آنکھوں کے سامنے اُن کا اپنی پشت پر ہاتھ باندھ کر پیدل چلنا اور وقتاً فوقتا دائیں کلائی پر بندھی گھڑی کو ایک خاص ادا سے جھٹکنا ایک فلم کی طرح گھوم رہا ہے۔
کسی شکوے، شکایت کے بغیر رؤف طاہر نے زندگی بِتا دی۔ ایک مردِ مومن کی طرح۔ صدمے ملے مگر بہادری سے سہہ گئے۔ ڈاکو تین بار اُن کے گھر پر حملہ آور ہُوئے اور سارے گھر میں ہونجا پھیر گئے۔ افسوس تینوں بارپولیس کو ڈاکو ملے نہ مالِ مسروقہ۔ اسلام آباد میں جہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صاحبزادی کے گھر دن دیہاڑے ڈاکا پڑتا ہے اور ڈاکو پھر بھی پکڑے نہیں جاتے، وہاں لاہور میں رؤف طاہر کس سے شکوہ کرتے؟ وہ کئی برس لاہور کے علامہ اقبال ٹاؤن میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہائش پذیر رہے۔
یہ مکان دوسری منزل پر تھا۔ مجھے بھی کئی بار اُن کے اس مکان پرحاضری دینے اور وہاں چائے پینے کا اعزاز ملا۔ جس صبر، وقار اور تہذیب کے ساتھ وہاں وہ زندگی گزار رہے تھے، دیکھ کر رشک آتا تھا۔ بعد ازاں وہ لاہور کے نسبتاً بہتر علاقوں میں بھی اپنے ذاتی اور پیارے مکان میں رہے لیکن وہاں بھی اُن کے صبر و شکر کا دامن کبھی چھٹنے نہ پایا۔
اللہ تعالیٰ نے کتنے لوگوں کو اس نعمتِ کبریٰ سے سرفراز فرما رکھا ہے؟ پرنٹ میڈیا کے ساتھ انھوں نے الیکٹرانک میڈیا میں بھی اپنے نقوش مرتب کیے۔ آجکل وہ دوستوں سے مل کر مولانا ظفر علی خان ؒ کے بارے میں ایک کتاب مرتب کررہے تھے کہ بلاوا آ گیا۔ دل کی باتیں دل ہی میں رہ گئیں۔ جنوبی پنجاب کی مٹی لاہور میں پیوندِ خاک ہو گئی۔ رؤف طاہر پر اللہ تعالیٰ کی لاکھوں رحمتیں ہوں۔ (آمین۔)