جب رنج دیا بتوں نے تو خدا یاد آیا
الامان، الحفیظ! مہلک کورونا (کووِڈ 19) کی تازہ اور تیسری طاقتور مہلک لہر نے تقریباً ہر شخص کو خوف میں مبتلا کررکھا ہے۔ چند ہفتے پہلے ہمارے ایک نہایت قریبی عزیز، جو معروف ٹیکسٹائل انجینئر تھے، کورونا کا ہدف بن کر اﷲ کو پیارے ہو گئے۔ کسی کو قطعی اندازہ نہیں تھا کہ چنگے بھلے ہمارے یہ عزیز اتنی تیزی سے راہیِ ملک عدم ہو جائیں گے۔
کورونا کے ہلاکت خیز پنجوں نے اتنی سرعت کے ساتھ اُنہیں اپنی گرفت میں جکڑا کہ سنبھلنے ہی نہ دیا۔ ابھی چند دن پہلے ایک قریبی رشتے دار کی خبر گیری کے لیے گاؤں گیا تو وہاں بھی ہر فرد کو اِسی وبا کے کارن تشویش میں گھرا پایا۔ پیارے دوست اور میرے کلاس فیلو ضیاء الحسن، جو مقامی سرکاری کالج میں فزکس کے پروفیسر تھے، بھی کورونا کا لُقمہ بن گئے۔ اُن کی رحلت کا دل کو بے حد قلق ہے۔ ہمارے آبائی شہر کی معروف اور کہنہ مشق معالج بھی اسی ہفتے، اپنے شوہر سمیت، کورونا کے کارن، اﷲ کے پاس چلی گئیں۔
کس کس کا ماتم کیا جائے؟ کورونا کووِڈ19کی گھاتیں اور وارداتیں تقریباً ہر گھر، ہر محلے، ہر قصبے اور ہر چھوٹے بڑے شہرمیں جاری رہی ہیں۔ وطنِ عزیز میں اِس مہلک وبا نے حالات اس قدر دگرگوں کر دیے ہیں کہ عوام کو ایس او پی پر عمل کرانے اور تمام ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرانے کے لیے حکومت نے افواجِ پاکستان کی مدد لینے کا فیصلہ کیاہے۔ حکومت نے عوام کو احکامات جاری اور درخواستیں کر کے دیکھ لی ہیں لیکن مہلک کورونا بارے احتیاط برتنے کے لیے کسی کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگ رہی؛ چنانچہ فوج کی اعانت حاصل کرنے کا مستحسن فیصلہ کیا گیا ہے۔ انشاء اللہ اس فیصلے کے اچھے اور مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
ہمارے ہمسائے، بھارت، میں تو کورونا کی مہلک وبا نے واقعی معنوں میں قیامت برپا کررکھی ہے۔ ہرروز وہاں لاکھوں کی تعداد میں کووِڈ19کے متاثرہ مریضوں کی تعداد ریکارڈ کی جارہی ہے۔ روزانہ مرنے والوں کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے۔ بھارت کو قیامتِ صغریٰ کا سامنا ہے۔ بھارت نے کمال مہارت سے کورونا سے نجات حاصل کرنے کے لیے ویکسین بنا ئی تو توقع ظاہر کی گئی تھی کہ بھارتی عوام اب اس ہلاکت خیز وبا سے محفوظ رہ سکیں گے لیکن اﷲ کی مرضی اور مشیت کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔
بھارت بھر کے سرکاری اسپتالوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں کہ ہمارے پاس کورونا متاثرہ مریضوں کو مزید داخل کرنے کی گنجائش ختم ہو گئی ہے۔ بھارت میں جن کورونا مریضوں کو آکسیجن کی اشد ضروت پڑ رہی ہے، بیشتر آکسیجن سے محروم پائے جا رہے ہیں۔
مرنے والوں کی تعداد توقعات سے بھی بڑھ چکی ہے، اتنی کہ مرنے والے ہندوؤں کی چتائیں نہ تو شمشان گھاٹوں پر نذرِ آتش کی جارہی ہیں اور نہ ہی اُنہیں جلانے کے لیے بجلی کی اُن بھٹیوں میں باری آ رہی ہے جہاں ہندو مذہب کے مطابق نعشوں کو جلایا جاتا ہے۔ کورونا سے مرنے والے غریب اور نادار بھارتی ہندو شہریوں کو فٹ پاتھوں اور سڑک کنارے خالی جگہوں میں آگ کے سپرد کیا جارہا ہے۔ ایمبولینسوں میں ایسی لاتعداد نعشیں انتظار میں ہیں جنہیں جلانے کے لیے لواحقین بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ممتاز بھارتیصحافی، برکھا دَت، نے ایک چھوٹی سی ڈاکیومنٹری بنا کر دیکھنے والوں کے اوسان اُڑا دیے ہیں۔ اس مختصر فلم میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سڑک کنارے اور فٹ پاتھوں پر لاتعداد نعشوں کو جلایا جارہا ہے۔ یہ مناظر رونگھٹے کھڑے کر دینے والے ہیں۔ ان کی بازگشت ساری دُنیا تک سنائی اور دکھائی دے رہی ہیں۔ برطانیہ نے اِسی کارن بھارت کو رَیڈ لسٹ میں شامل کر دیا ہے۔
اِن پُر آزمائش اور دلگرفتہ لمحات میں پاکستانیوں کی اکثریت بھارت اور بھارتی شہریوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے دیکھی جارہی ہے۔ یہی انسانیت کا تقاضا بھی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی ٹوئٹر پیغام میں کورونا وائرس کے سنگین حالات سے دوچار بھارتی عوام سے اظہارِ یکجہتی کیا ہے۔ ایسے غم خوار پاکستانیوں کی تعداد لاتعداد پائی گئی ہے جنہوں نے انسانیت کے ناتے حکومتِ پاکستان سے اپیل اور درخواست کی ہے کہ کورونا مصائب میں گھرے بھارت کو فوری طور پر ممکنہ آکسیجن سلنڈرز بھی فراہم کیے جائیں اور طبی اعانت بھی سرعت سے بھجوائی جائے۔
اس جذبے کی تحسین کی جانی چاہیے حالانکہ پاکستان کو خود آکسیجن سلنڈروں کی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان کی عالمی شہرت یافتہ این جی او "ایدھی فاؤنڈیشن" کے سربراہ جناب فیصل ایدھی (جو قابلِ فخر عبدالستار ایدھی مرحوم کے صاحبزادے ہیں) نے بھارتی حکومت کوبراہِ راست پیشکش کی ہے کہ وہ فوری طور پر بھارت کو جدیدطبی سہولتوں سے لَیس 50ایمبولینسیں، متعلقہ عملہ اور کورونا سے بچنے کے لیے ادویات فراہم کرنا چاہتے ہیں، اس لیے فوری طور پر اُنہیں بھارت میں داخلے کی اجازت دی جائے۔ فیصل ایدھی صاحب اپنے اور اپنے عملے کے لیے بھارت سے کسی قسم کی کوئی خوراک اور سر چھپانے کی مدد بھی نہیں چاہتے۔
وہ بس انسانیت کی اعانت اور دستگیری کے متمنی ہیں۔ یہ کالم لکھ ہی رہا تھا کہ مجھے لندن سے جناب عبدالرزاق ساجد کا فون آیا۔ رزاق ساجد صاحب لندن میں بروئے کار ممتاز اور معروف عالمی شہرت یافتہ این جی او "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ" کے چیئرمین ہیں۔ اُن کے ادارے کا نیٹ ورک پاکستان، مشرقِ وسطیٰ، افریقہ، برما اور بنگلہ دیش تک پھیلا ہُوا ہے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ہم نے آج ہی برطانیہ میں بروئے کار بھارتی ہائی کمیشن کو ایک تفصیلی خط لکھا گیاہے کہ ہمیں فوری طور پر کورونا کے متاثرین کے لیے ادویات، آکسیجن کے سلنڈرز اور خورونوش کی اشیاء لے کر بھارت جانے کی اجازت دی جائے۔ لیکن بھارت سرکار بوجوہ اجازت دینے سے احتراز برت رہی ہے۔
ابھی تک نہ تو "ایدھی فاؤنڈیشن" کو اجازت ملی ہے نہ "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل " کو۔ ایک وائرل ویڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارتی عوام کورونا وبا کے سامنے کس قدر بے بس ہو چکے ہیں۔ اس ویڈیو کلپ میں چند باوردی بھارتی پولیس افسر ایک مسلمان محلے میں میگا فون کے ذریعے اعلان کرتے یوں سنائی دے رہے ہیں: " بھارت دیش کے مسلمان بھائیو، آپ رمضان شریف کے مبارک مہینے میں روزے رکھتے، نمازیں پڑھتے اور تراویح ادا کرتے ہُوئے اپنے اﷲ سے دعا کریں کہ وہ بھارت اور بھارتی عوام کو مہلک کورونا وبا سے نجات عطا فرمائے"۔ شاعر مومن خان مومن نے کہا تھا:
چل دیے سُوئے حرم، کُوئے بتاں سے مومن
جب دیا رنج بُتوں نے تو خدا یاد آیا