ایران پراسرائیل کی حملہ آورنظریں
شاہ ایران، رضا شاہ پہلوی، کے اقتدار سے رخصت ہوتے ہی اسرائیل نے ایران سے دانستہ دشمنی پال لی تھی۔ اس عناد کو اب تقریباً چار دہائیاں ہو رہی ہیں۔ یہ مخاصمت کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ اسرائیل ایک (صہیونی) نظریاتی مملکت ہونے کے باعث ایران ایسی اسلامی نظریاتی مملکت کو ایک آنکھ دیکھ نہیں پا رہا۔ اسرائیل جو خود بھی ایک غیر اعلانیہ جوہری طاقت ہے، اپنے ہمسائے میں کسی بھی ممکنہ ایٹمی طاقت کو برداشت نہیں کررہا۔ ایران نے اپنا پُرامن جوہری پروگرام شروع کیا تواسرائیل کی بھنویں تن گئیں۔
اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ ایران کی تمام ذمے دار سیاسی و عسکری شخصیات اور ادارے غیر مبہم اسلوب میں بار بار اعلان کرتے آ رہے ہیں کہ اُس کا ایٹمی پروگرام کلیتاً غیر اسلحی اور پُر امن ہے لیکن اسرائیل کا اصرار ہے کہ ایران اس پُر امن ایٹمی پروگرام کے پردے میں ایٹمی ہتھیار بنانے کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔
اسرائیل چاہتا ہے کہ امریکا، ایران کو اس راستے پر بگٹٹ بھاگنے سے روکے وگرنہ وہ خودآگے بڑھ کر ایران کے تمام ایٹمی راستے مسدود اور محدود کر دے گا۔ ایرانی قیادت اسرائیل کی تمام خفی و جلی دھمکیوں سے پوری طرح آگاہ بھی ہے اور ان کی معنویت و حقیقت سے بھی واقف۔
یہ حقیقت کسی کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہے کہ پچھلے 40برسوں کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکا کے ہاتھوں بہت زیادتیاں اور مظالم برداشت کیے ہیں۔ ان مظالم میں اسرائیل بھی پوری طرح شریک رہا ہے کہ بعض حقیقت آشناؤں کے بقول: امریکی پالیسیاں واشنگٹن میں نہیں، تل ابیب میں مرتب کی جاتی ہیں۔
شاباش دینی چاہیے مگر ایرانی قیادت اور ایرانی عوام کو کہ امریکی جبر وستم کے باوصف وہ امریکا اور اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پرتیار نہیں ہُوا۔ یہ جرأت جہاں عالمِ اسلام کو ایک نیا حوصلہ بخشتی ہے، وہیں یہ ایرانی جسارت اسرائیل کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی ہے۔
سابق امریکی صدر، بارک اوباما، کے دَورِ اقتدار میں امریکا اور ایران کے درمیان شائستگی کے ساتھ ایک معاہدہ بھی طے پا گیا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام پر عالمی تحدیدات قبول کر لی تھیں۔ یوں اوباما دَور میں ایران کے کئی منجمد اثاثے بحال بھی کیے گئے اور کئی عالمی اقتصادی اداروں کو، ایک خاص حد میں، ایران کے ساتھ کاروبار کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔
اس معاہدے سے ایرانی معیشت کو خاصا ریلیف ملا تھا۔ ایرانی عوام نے بھی نئے سرے سے اُمیدیں باندھ لی تھیں۔ ابھی ایرانی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو ہی رہی تھی کہ بارک اوباما کا دَور ختم ہو گیا اور اُن کی جگہ نسل پرست اور متعصب ڈونلڈ ٹرمپ نے جگہ سنبھال لی۔ ٹرمپ اور اُن کے یہودی النسل داماد، جیرڈ کشنر، کے باہمی گٹھ جوڑ اور اسرائیلی اشارے پر امریکا نے اوباما کے دَور میں ایران سے کیا گیا معاہدہ منسوخ کر دیا۔ یہ اقدام صریحاً عالمی سفارتی اخلاقیات کی توہین تھا۔
اسی لیے یورپین یونین کی قیادت میں پورے یورپ نے ٹرمپ کے اقدام کی مخالفت کی لیکن ٹرمپ نے اپنی طاقت کے زعم و نشے میں کسی کی بھی نہیں سُنی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا چار سالہ دَور ایرانی قیادت اور ایرانی عوام کے لیے انتہائی مشکلات کا زمانہ تھا۔ امریکا کی طرف سے ایران پر لگائی جانے والی متعدد اور متنوع پابندیوں نے ایران کو لاتعداد مصائب میں مبتلا کیے رکھا لیکن ایران نے کمرشکن مصائب و مسائل کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیل اور ٹرمپ کے یہودی دامادکے منصوبوں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔ اس دوران ہیجان کا شکار ہو کر مبینہ طور پر امریکا نے ایران پر حملے کا پروگرام بھی بنایا لیکن پھر اسے عملی جامہ نہ پہنا سکا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد اب جو بائیڈن امریکی صدر منتخب ہُوئے ہیں تو اُن کے بعض اعلانات سے ایران کو یہ اُمید بندھی ہے کہ اسرائیلی اشاروں پر ایران کے خلاف عائد کی گئی ظالمانہ اور غیر منصفانہ پابندیاں اُٹھا لی جائیں گی۔
ایک ہفتہ قبل نئی امریکی انتظامیہ نے امریکی صدر، جوبائیڈن، کی قیادت میں اعلان کیا کہ " اگر ایران عالمی برادری سے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے کیے گئے اپنے وعدوں پر کاربند رہے تو پھر امریکا بھی اُس کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کر دے گا۔" جونہی امریکا کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا، اسرائیل بپھر گیا۔ دراصل اسرائیل کو امریکی کانگریس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے ارکان کی بڑی تعداد کی شہ بھی حاصل ہے ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایران کی طرف نئی امریکی انتظامیہ کا صلح جویانہ رویہ دیکھ کر اسرائیل نے ایران کے خلاف فوجی جارحیت کی صاف دھمکی دے ڈالی ہے۔
گزشتہ روز اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل Aviv Kohaviنے تل ابیب یونیورسٹی کے "انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز" سے خطاب کرتے ہُوئے صاف الفاظ میں کہا: " ایران سے جوہری معاہدے کی بحالی امریکا کی غلطی ہوگی۔ اگر امریکا نے جوہری معاہدے کو بحال کیا تو ہم ایران کو ہدف بنائیں گے۔ ہم نے ایران پر حملے کی پوری تیاری کررکھی ہے۔ بس مقتدر سیاسی قیادت کی منظوری درکار ہے۔"اسرائیلی فوج کے مذکورہ جرنیل کی دھمکی کا مرکز ایرانی ایٹمی تنصیبات ہیں۔
ایران کے خلاف اسرائیلی جرنیل کے حملے کی دھمکی کی اصلیت اور معنویت کیا ہے، ایرانی قیادت اس سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اِسی ضمن میں ایرانی صدر جناب حسن روحانی کے چیف آف اسٹاف، محمود واعظی، کی طرف سے ترنت جواب یوں آیا ہے: " یہ نفسیات کی جنگ ہے اور ہم خوب جانتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس ایران پر حملے کا نہ تو کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی صلاحیت۔" ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر، بریگیڈئر جنرل ابوالفضل شکارچی، کا اسرائیل بارے بیان زیادہ سخت ہے۔
اسرائیلی دھمکی کے جواب میں ایران کی طرف سے آنے والا جواب اگرچہ حوصلہ مند ہے لیکن اگر خدانخواستہ اسرائیل (جس کی نفسیات میں جارحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے) اپنی دھمکی پر عمل کر گزرتا ہے تو اس کے انتہائی منفی اثرات پورے عالمِ عرب پر مرتب ہوں گے۔ ان اثرات سے ممکن ہے پاکستان بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ اسرائیل اس سے قبل نہایت جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے (چالیس سال قبل) عراقی ایٹمی تنصیبات کو تباہ و برباد کر چکا ہے۔
اسرائیل کے ایک درجن جنگی طیاروں (ایف سولہ) نے7جون1981ء کی شام بغداد سے صرف 10کلومیٹر دُوری پر واقع عراقی ایٹمی ری ایکٹر پر حملہ کر دیا تھا اور پوری دنیا سمیت امریکا کی بھی پروا نہیں کی تھی۔
اس حملے کو "آپریشن اوپرا" کا عنوان دیا گیا تھا۔ اسرائیلی جنگی طیارے اُڑتے ہُوئے بغداد پہنچے اور صرف دو منٹ میں عراقی ایٹمی سینٹر کو اُڑا کر رکھ دیا۔ اسرائیل نے اس امر کی بھی قطعی پروا نہیں کی تھی کہ حملے کے بعد عراقی ایٹمی پلانٹ سے اگر ہلاکت خیز ریڈی ایشن کا طوفان بہہ نکلا تو عراق کے آس پاس بسنے والے چھ اسلامی ممالک کا کیا بنے گا؟ اس حملے کی خبر جب امریکی صدر، رونالڈ ریگن، کو ملی تو انھوں نے خوفزدہ ہو کر اپنی ڈائری میں لکھا تھا: " عراقی ایٹمی سینٹر کی ریڈی ایشن کا تصور کرکے مَیں نے سوچا: بس اب قیامت آنے ہی والی ہے۔" اب جب کہ اسرائیل مبینہ ایرانی جوہری تنصیبات کو ٹارگٹ کرنا چاہتا ہے تو اس دھمکی کے پس منظر میں اُسے عراقی تجربے کی شہ حاصل ہے۔ لیکن واضح رہنا چاہیے کہ عراقی ایٹمی سینٹر پر اسرائیلی حملے سے تو قیامت نہیں آئی تھی لیکن اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو دُنیا میں قیامتِ صغریٰ ضرور برپا ہوگی۔