ایران و چین کا نیا معاہدہ : کون کون پریشان ہے ؟
مارچ2021 کے آخری ہفتے ایران اور چین نے جس 25سالہ اسٹرٹیجک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جنوبی ایشیا اور مغربی ممالک میں کئی گھنٹیاں بج اُٹھی ہیں۔ خاص طورپر امریکا اور بھارت کے کان کھڑے ہو گئے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ عالمی سطح پر ہر وہ ملک جو بوجوہ چین اور ایران کو ناپسند کرتا ہے، اس نئے معاہدے سے تشویش میں مبتلا ہے۔
یکم اپریل کو "واشنگٹن پوسٹ" میں شایع ہونے والے ایک مفصل آرٹیکل نے اگرچہ اس معاہدے بارے کہا ہے کہ یہ "الارمنگ" نہیں ہے لیکن اس کے باوجود امریکی صدر، جو بائیڈن، نے واشنگٹن میں، اِسی معاہدے کے پس منظر میں، صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہُوئے کہا: "ایران و چین کے بڑھتے تعلقات پر ہم پریشان ہیں۔" تہران میں معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد چینی وزیر خارجہ وینگ یی (Wang Yi) کی موجودگی میں کسی جانب سے یہ جملہ بھی کہا گیا:" ایران دُنیا کے اُن ممالک میں سے نہیں ہے جو ایک فون کال پر اپنی پالیسیاں بدل لیتے ہیں۔" یہ بیان کسی طرف سے بھی آیا ہو، اس کی حقانیت سے انکار شاید ممکن نہیں ہے۔
ایران و چین کے اِسی اہم ترین معاہدے کی جزئیات کا جائزہ لینے کے لیے 4اپریل کو اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک کے زیر اہتمام ویبنار بھی ہُوا ہے جس میں متعلقہ موضوع کے ماہرین نے حصہ لیا۔ اس ویبنار میں یہ کہا گیا ہے: (1) معاہدے سے ایران کی عالمی تنہائی میں کمی ہو گی (2) چین کا اثرورسوخ افریقہ اور بحرِ ہند میں مزید بڑھ جائے گا (3)خطے میں بھارتی و امریکی مفادات کو زک پہنچے گی۔
تین ماہ قبل سب سے پہلے مشہور امریکی جریدے "فارن پالیسی" (18دسمبر2020)نے اپنے عالمی شہرت یافتہ تجزیہ نگار اور محقق(Wang Xiyue) کے توسط سے یہ خبر دی تھی کہ عنقریب ایران اور چین کے درمیان اربوں ڈالرز کاایک اہم ترین معاہدہ طے پانے والا ہے۔ اب اس آرٹیکل کی تصدیق ہو گئی ہے۔
ایران اور چین نے اس معاہدے میں شامل مالی معاملات کا اگرچہ ابھی کوئی اعلان نہیں کیا ہے لیکن "فارن پالیسی" کے محقق نے اس بارے پہلے ہی اپنے انکشاف خیز آرٹیکل میں قارئین کو بتا دیا تھا کہ ایران اور چین کے درمیان ہونے والا معاہدہ 400ارب ڈالر پر مشتمل ہے اور یہ کہ اس معاہدے میں چین توانائی، ٹرانسپورٹ، انفرااسٹرکچر اور عسکری شعبوں میں ایران کو مالی معاونت فراہم کرے گا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس معاہدے سے چین باقاعدہ طور پر چین کے معروفِ عالم ترقیاتی پروگرام (بیلٹ اینڈ روڈ) میں شامل ہو گیا ہے۔ اگرچہ 2009سے چین، ایران کا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر ہے(دونوں ممالک کی تجارت 56ارب ڈالر کو محیط ہے) لیکن اگر اس تجارت کا تقابل سعودی عرب اور یو اے ای سے کیا جائے تو اس کا حجم خاصا کم ہے۔
جب کہ چین اور امریکا کی باہمی تجارت تو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران کے مجموعی حجم سے بھی کئی سو گنا زیادہ ہے: 555 ارب ڈالر۔ نئے ایران و چین اسٹرٹیجک معاہدے سے امریکا کو اصل تشویش یہ ہے کہ ایران آ گے بڑھ کر اُس کے واحد عالمی حریف، چین، کے مزید قریب ہو گیا ہے۔ ایران کا یہ اقدام دراصل امریکی ہزیمت ہے۔ کئی مغربی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران پر سابق امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کی لگائی گئی سخت معاشی پابندیوں نے اُلٹا اثرکیا ہے۔"فارن پالیسی" کے محقق نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ امریکی پابندیوں کے کارن ہی ایران، چین کے مدار (Orbit) میں داخل ہُوا ہے۔
ایران نے امریکا کی طرف سے عائد کردہ متعدد و متنوع معاشی عالمی پابندیوں کا جس استقامت، تدبر اور حکمت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے، اس پس منظر میں ایرانی قیادت واقعی شاباش کی مستحق ہے۔ سابق امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، نے بارک اوباما کے دَور میں ایران سے کیے گئے جوہری و امن معاہدے کو جس بیہودگی اور بیدردی سے توڑا، اس اقدام نے صرف اسرائیل کو تو خوش کیا لیکن اس معاہدہ شکنی کے نہایت منفی اثرات سامنے آئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات بھی ہار گیا، ایران کو اپنے ارادوں کے مطابق گھٹنے ٹیکنے پر مجبور بھی نہ کر سکا اور ایران کا پُر امن جوہری پروگرام بھی آگے بڑھتا رہا۔ اس بحرانی دَور میں شدید امریکی پابندیوں کے باوصف چین نے جس طرح آگے بڑھ کر ایران کی اعانت کی، ایران برسرِ مجلس اس کا اعتراف بھی کرتا ہے۔
تازہ ترین ایران و چین معاہدہ کے بعد بھی ایرانی وزیر خارجہ، محمد جواد ظریف، نے چین کا اس ضمن میں پھر شکریہ ادا کیا ہے۔ اگرچہ ایرانی شکریے کے الفاظ بعض ممالک کو بڑے گراں بھی گزرے ہیں۔ ایران اور چین اب بھی امریکی پابندیوں کے حصار میں ہیں لیکن حیرانی کی بات ہے کہ اس کے باوجود ایران اور چین نے ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں حمائل کر دی ہیں۔ تیل کے حوالے سے عالمی تجارت پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ماہِ مارچ میں، امریکی پابندیوں کے باوجود، ایران کی طرف سے چین کو تیل کی فروخت میں خاصا اضافہ ہُوا ہے۔
یوں یہ بات بھی قابلِ فہم ہے کہ ایرانی صدر، حسن روحانی، کھلے الفاظ میں American Unilateralism کے باوجود چین کا شکریہ کیوں ادا کررہے ہیں؟ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ایران بھر میں ایران و چین کے نئے معاہدے کو مکمل طور پر پسند کیا گیا ہے۔ برطانوی اخبار "گارڈین" کے رپورٹر (پیٹرک ونٹور) نے خبر دی ہے کہ ایران کے اندر کئی اپوزیشن دھڑے اس معاہدے کو ایرانی سلامتی کے منافی قرار دے رہے ہیں۔ ایرانی اپوزیشن اپنی حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ اس معاہدے کی تفصیلات میڈیا میں لائی جائیں۔
ایران و چین کا مذکورہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے اسقدر اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل ہے کہ جب27مارچ 2021 کو ایرانی دارالحکومت میں اس معاہدے پر، چینی وزیر خارجہ کی موجودگی میں، دستخط ہُوئے تو وہاں ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ ایرانی سپریم لیڈر، جناب آیت اللہ علی خامنہ ای، کے نمایندہ خاص، علی لاریجانی، بھی بنفسِ نفیس موجود تھے۔ معاہدے سے قبل چینی وزیر خارجہ نے ایرانی صدر جناب حسن روحانی سے بھی مفصل ملاقات کی تھی۔ یہ معاہدہ راتوں رات اچانک طے نہیں پایا گیا۔ اس پر فریقین نے خوب سوچ بچار کیا ہے اور اس کی تمام ممکنہ جزئیات پر تفصیلی بحثیں بھی ہُوئی ہیں۔" الجزیرہ" میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس معاہدے میں 600ارب ڈالرز کی مالیات شامل ہیں۔ گویا یہ معاہدہ اپنے حجم اور دائرے کی وسعت کے لحاظ سے " سی پیک" سے بھی کئی گنا بڑا معاہدہ ہے۔
ایرانی قیادت کی مسرت اور اطمینان دیدنی ہے۔ اگرچہ بھارتیوں اور امریکیوں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس معاہدے کی بنیاد اُس وقت رکھی گئی تھی جب پانچ سال قبل چینی صدر، جناب ژی جنگ پنگ، نے تہران کا سرکاری دَورہ کیا تھا۔ مغربی ماہرینِ سیاسیات کا کہنا ہے کہ اس معاہدے نے ایران کی عالمی طاقت میں قابلِ قدر اضافہ کیا ہے اور اب امریکا سے مکالمہ کرنے کے لیے ایران کی برگیننگ پوزیشن مضبوط ہو گئی ہے۔ یہی عنصر امریکی انتظامیہ کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ کووِڈ 19المعروف کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے امریکا جہاں ایران کا ناطقہ بند کرنا چاہتا ہے، وہیں چین آگے بڑھ کر ایران کی دستگیری کررہا ہے۔ معاہدہ ہوتے ہی چین نے ایران کو ڈھائی لاکھ خوراکوں پر مشتمل کورونا ویکسین مفت فراہم کی ہے۔