ایران کو دوسرا بڑا دھچکا: عالمِ اسلام مگر خاموش!
اِس ایک برس کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کو دوسرا بڑا دھچکا اور صدمہ پہنچا ہے۔ رواں سال کو طلوع ہُوئے ابھی چنددن ہی ہُوئے تھے کہ بغداد ایئر پورٹ پر موجود نامور ایرانی جنرل، قاسم سلیمانی، کو امریکی ڈرون نے میزائل مار کر شہید کر دیا۔ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل سے ایران بھر میں صفِ ماتم بچھ گئی لیکن ایرانی قیادت نے حوصلے اور جرأت سے اسے برداشت کیا اور کسی مناسب موقعے پر جواب دینے یا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔
قاسم سلیمانی کو قتل کرکے امریکا نے دراصل ایرانی عسکری قیادت کے قلب کو ہدف بنایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، نے براہِ راست اس حملے کا حکم دیا تھا اور اب تقریباً11ماہ بعد ایک بار پھر مبینہ طور پر صہیونی و امریکی ملی بھگت سے ایران کے نامور ایٹمی سائنسدان، محسن فخری زادہ، کو ہدف بنایا گیا اور اُنہیں قتل کر دیا۔ 27 نومبر2020 کو ایرانی دارالحکومت سے کچھ فاصلے پر واقع ایرانی شہر "آبِ سرد" میں دشمنوں نے محسن فخری زادہ پر نہایت کاریگری سے حملہ کیا۔ اسرائیلیوں اور امریکیوں کی طرف سے مسلسل الزام عائد کیا جارہا تھا کہ محسن فخری زادہ کی نگرانی اور رہبری میں ایران ایٹم بم بنا رہا ہے، حالانکہ ایران اس بارے مسلسل تردید کرتا آ رہا ہے۔
اسرائیل خود تو غیر علانیہ ایٹمی طاقت ہے لیکن وہ اپنے آس پاس کسی عرب ملک کو ایٹمی طاقت بنتا نہیں دیکھ سکتا۔ صدر صدام حسین کی قیادت میں عراق نے ایٹمی قوت بننا چاہا لیکن اسرائیلی طیاروں نے عراقی ایٹمی تنصیبات ہی تباہ کر ڈالیں۔ اس جارحیت پر کوئی مسلمان ملک اسرائیل کے خلاف احتجاج نہ کر سکا تھا۔ لیبیا کے مرحوم کرنل قذافی نے بھی ایٹمی ملک بننے کا خواب دیکھا تھا، کچھ قدم اٹھائے بھی لیکن پھر مغربیوں نے اُس کی گردن ہی مار ڈالی اور اب ایرانی ایٹمی سائنسدان کا بہیمانہ قتل ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
ایرانی صدر جناب حسن روحانی نے اپنے نامور، لائق اور قابلِ فخر جوہری سائنسدان، محسن فخری زادہ، کے قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے۔ اُنہوں نے بڑے محتاط لہجے میں اس بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہُوئے کہا: "ایک مرتبہ پھر عالمی استعمار کے ناپاک ہاتھ اور مادہ پرست، غاصب صہیونی حکومت کے ہاتھ خون سے داغدار ہیں۔ شہید فخری زادہ کا قتل ہمارے دشمنوں کی مایوسی اور نفرت کو ظاہر کرتا ہے، ان کی شہادت ہماری کامیابیوں کو کم نہیں کرے گی۔
ایک مرتبہ پھر عالمی مغرور کے فاسق ہاتھ غاصب صہیونی حکومت کی بطور زرخرید مدد سے قوم کے بیٹے کے خون سے رنگے ہیں " ممتاز ایرانی علما اور عسکری حکام نے محسن فخری کے قتل کا بدلہ لینے کی دھمکی بھی دی ہے۔ اس سے پہلے جب جنرل قاسم سلیمانی کو امریکی ڈرون کے ذریعے بغداد ایئر پورٹ پر شہید کیا گیا تو بھی ایرانی علما اور عسکری قیادت نے اس کا ترنت بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا لیکن آج تک بدلہ نہیں لیا جا سکا۔ اُلٹا امریکی صدر نے ظالمانہ اقدامات کرتے ہُوئے ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دیں۔ شاید اِسی لیے اب ایرانی ایٹمی سائنسدان کے قتل پر اعلیٰ ترین ایرانی قیادت واضح لہجے میں امریکا کو للکارنے سے گریزاں ہے۔
ایرانی لیڈرشپ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم صہیونی و امریکیوں کے بچھائے گئے دام میں نہیں پھنسیں گے اور سوچ سمجھ کر مناسب موقعے پر اپنے محسن سائنسدان کی شہادت کا بدلہ لیں گے۔ ایران کے رہبر اعلیٰ، محترم آیت اللہ علی خامنہ ای، کے عسکری مشیر، حسین دیغان، نے بھی کہا ہے کہ وہ اس حملے میں ملوث افراد پر گہری چوٹ لگائیں گے۔ حالات و واقعات کا تسلسل بتاتا ہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں خاصے عرصے سے محسن فخری زادہ کے تعاقب میں تھیں۔ محسن فخری زادہ کی جوہری کامیابیاں اسرائیل کے لیے ناقابلِ برداشت ہو رہی تھیں ؛ چنانچہ طاغوت نے اُنہیں راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ تقریباًدو سال قبل اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو نے اعلان کیا تھا کہ ان کے ملک کی سیکیورٹی فورسز ایران کے جوہری ذخیرے چوری کرنے اور اس کے راز سیکھنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔
اس خبر کا اعلان کرتے ہوئے نیتن یاہو نے دھمکی دیتے ہُوئے کہا تھا:"ہاں، محسن فخری زادہ، یہ نام یاد رکھنا!۔"گویا اسرائیلی وزیر اعظم نے پہلے ہی ایرانی ایٹمی سائنسدان، محسن فخری زادہ، کوصفحہ ہستی سے مٹانے کا پروگرام طے کررکھا تھا؛ چنانچہ اسرائیل (بظاہر) نومبر 2020 کو اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گیا۔ کیا اب بھی کوئی شک رہ جاتا ہے کہ اسرائیل دُنیا کا مستند غنڈہ نہیں ہے؟ اُسے امریکا کا گماشتہ کہا جاتا ہے تواس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے۔ افسوس مگر یہ ہے کہ صرف ایک سال کے دوران دو بار ایران پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی اور امریکی ظلم پر عالمِ اسلام کے درجنوں ممالک کے حکمران خاموش کھڑے ہیں۔
ایرانی میڈیاخبریں دے رہا ہے کہ ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل میں نہایت ترقی یافتہ ہتھیار استعمال کیے گئے اور اس حملے میں سیٹلائیٹ کی اعانت بھی بروئے کار لائی گئی۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اسرائیل نے جارحیت اور وحشت کا اقدام کرکے ایرانی سائنسدان پر حملہ کیا ہے۔ مبینہ طور پر اس سے قبل بھی اسرائیل، ایران کے نصف درجن نوجوان اور تجربہ کار ایٹمی سائنسدانوں کو شہید کر چکا ہے۔ ان کے نام کچھ یوں ہیں:(1)مسعود علی محمدی(2) ماجد شہر یاری (3) فریدون عباسی دوانی(4) داریوش رضائی (5)مصطفی احمدی روشن۔
محسن فخری زادہ کا سانحہ ایسی خبر ہے جس کا جائزہ لینے اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے مختلف النوع اثرات کو جاننے کے لیے ہر اہم ملک میں بحثیں ہو رہی ہیں لیکن عالمِ اسلام کے میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو وہاں تقریباً ایک گمبھیر خاموشی چھائی ہے۔ لگتا ہے عالمِ اسلام اس سانحہ سے محض لاتعلق ہے اور اسے صرف ایران کا نجی دکھ اور المیہ قرار دے کر خاموشی کی ردا اوڑھ لی گئی ہے۔
ہمارے ہاں جن لوگوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ صدارتی انتخابات میں شکست کھانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ خاموشی سے چلے جائیں گے، محسن فخری زادہ کا قتل بتاتا ہے کہ جاتے جاتے بھی یہ نسل پرست امریکی صدر بہت کچھ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ساری دُنیا میں اس امر پر اتفاق کیا گیا ہے کہ(1) محسن فخری زادہ کا قتل عالمی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے، (2) یو این او کے طے شدہ ضوابط کے مطابق بھی یہ ماورائے عدالت قتل ہے (3) سابق سی آئی اے سربراہ، جان برینن، نے بھی اس اقدام کو سرا سر ناجائز قرار دیا ہے۔ اگرچہ اس سانحہ کی ذمے داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی ہے لیکن امریکی ذرائع بتارہے ہیں کہ یہ "موساد" کی کارستانی ہے۔
امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، نے اس پر فی الحال کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ اُن کی خاموشی خاصی معنی خیز ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہے تھے لیکن اُن کے مشیروں نے یہ سنگین غلطی نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ امریکی صدر کے ایران مخالف اقدامات نے ایرانی مزاحمتی قوتوں کو مزیدتقویت بخشی ہے۔ عالمی سطح پر امریکی اعتبار کو ضعف بھی پہنچا ہے۔ ایران پر امریکی ظالمانہ پابندیوں نے اگرچہ عام ایرانی کی معاشی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے لیکن شاباش دینی چاہیے ایرانی عوام کو کہ صبر کی سلیں سینے پر رکھ کربہادری سے امریکی طاغوت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے بھی ہیں اور اپنی حکومتوں کا ساتھ بھی نبھا رہے ہیں۔ ایرانی قوم کا یہ اجتماعی کردار جہاں پوری ملتِ اسلامیہ کے لیے ایک درس ہے، وہیں محسن فخری زادہ کا بہیمانہ قتل دراصل اسرائیل کی طرف سے پورے عالمِ اسلام کو کھلی دھمکی بھی ہے۔