عمران خان کی نئے امریکی صدر سے توقعات
دو دن پہلے(20جنوری کو) جو بائیڈن حلف اُٹھا کر باقاعدہ امریکی صدر بن گئے ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بائیڈن کی صدارتی راہ کھوٹی کرنے کی تمام تر ممکنہ کوششیں کر ڈالیں لیکن مقدر اور امریکی قانون نے اُن کا ساتھ نہ دیا۔
ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو مشتعل کرکے امریکی پارلیمنٹ (Capitol Hill) پر حملہ کرنے پر بھی اُکسایا لیکن بات پھر بھی نہ بن سکی بلکہ اُلٹی بد نامی ہی کمائی۔ ٹرمپ جاتے جاتے بھی ایک ضدی بچے کا کردار ادا کر گئے۔ بیس جنوری کو جب جو بائیڈن صدارت کا حلف اُٹھا رہے تھے، ٹرمپ نے حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے کے بجائے اپنا طیارہ پکڑااور فلوریڈا چلے گئے۔
اس پر متحمل مزاج جو بائیڈن نے کہا: " اچھا ہی ہُوا کہ موصوف نے ہماری صدارتی تقریبِ حلف برداری میں شرکت نہیں فرما ئی"۔ سابق تین امریکی صدور (بش جونئیر، بل کلنٹن، بارک اوباما) اور ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی، ایوانکا ٹرمپ، بہرحال اس تقریب میں شریک ہو ئے۔ نامور امریکی اداکاروں اور صدا کاروں نے بھی مذکورہ تقریب میں اپنے اپنے رنگ باندھے۔
اب نئے امریکی صدرجو بائیڈن پر ساری دُنیا کی نظریں ٹکی ہُوئی ہیں۔ ہر ملک اپنے اپنے انداز میں نئے صدر اور اُن کی انتظامیہ سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوششوں میں لگا ہُوا ہے۔ جیسا کہ عرب لیگ کے سربراہ، احمد ابو الغیط، نے کہا ہے:" ہمیں اُمید ہے کہ جو بائیڈن کی آمد سے مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسیوں میں بدلاؤ پیدا ہوگا۔" جب بھی کوئی نیا امریکی صدر وائٹ ہاؤس کا مکین بنتا ہے، وہ نئی پالیسیوں کے تحت دُنیا کو چلانے اور امریکی مفادات کے تحفظ کی کوشش کرتا ہے۔ اس پس منظر میں جو بائیڈن بھی سابقہ امریکی صدور سے مختلف نہیں ہوں گے۔
امریکا دُنیا کا اکلوتا چوہدری ہے، اس لیے اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کی ہر ملک کوشش کرتا ہے۔ پاکستان اور اس کے حکمران بھی اسی کوشش میں ہوں گے تاکہ گلوبل ویلیج میں پاکستانی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بڑی تگ و دَو کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کا اعتماد حاصل کیا تھا۔
خصوصاًافغانستان اور افغان طالبان کے معاملات میں پاکستان نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو بہتر راستہ دکھا کر ایک غیر معمولی کارنامہ انجام دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا، افغانستان سے پِنڈ چھڑا کرفوجی انخلا کرنا چاہتا تھا لیکن یہ پاکستان ہے جس نے ٹرمپ کو بتایا کہ کس طرح عزت کے ساتھ وہ یہاں سے نکل سکتا ہے۔ بائیڈن کے نامزد وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی افغانستان کے پس منظر میں کہا ہے کہ "پاکستان، افغان امن عمل میں امریکا کے لیے ناگزیر ہے۔" یہ پاکستان کے لیے مثبت اشارہ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش اور کوشش تھی کہ وہ افغانستان کی "فتح" کو صدارتی انتخابات میں پرچم بنا کر جیت سے ہمکنار ہو سکیں گے لیکن اُن کی خواہش اور کوشش ناکام رہی۔ اب میدان جو بائیڈن کے سامنے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو بائیڈن صاحب، ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں پاکستان کو زیادہ بہتر اسلوب میں جانتے پہچانتے ہیں۔
وہ نائب امریکی صدر ہونے کی حیثیت میں بھی کئی بار پاکستان کا دَورہ کر چکے ہیں۔ یہ وہی جو بائیڈن ہیں جن کی کوششوں سے "کیری لوگر بل" منظور ہُوا تھا اور یوں پاکستان کو چار سال تک امریکا سے دو ارب ڈالر کی نقد امداد ملتی رہی تھی، اگرچہ اس بِل سے ہمارے ہاں کے کچھ طبقات اور حلقے زیادہ خوش نہیں تھے۔ مطلب یہ ہے کہ نئے امریکی صدر صاحب کسی لابی، شخص یا گروہ کے توسط یا سفارش کے بغیر ہی پاکستان کو خوب جانتے بھی ہیں اور ہمارے جملہ معاملات کو بھی خوب سمجھتے ہیں۔ ایسے شخص سے معاملات طے کرنا بسا اوقات مشکل تر ہو جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نئے امریکی صدر سے کیونکر بہتر تعلقات استوار کر سکیں گے؟ اندازہ یہ ہے کہ افغانستان کے بارے میں نئے امریکی صدر، جو بائیڈن، کی پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے مختلف نہیں ہوگی، اس لیے جناب عمران خان کو زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ افغانستان سے نکلنے کے لیے پاکستان نئے امریکی صدر کی مدد کر سکتا ہے۔ یوں ممکن ہے کہ عمران خان اور جو بائیڈن کے باہمی تعلقات میں بھی خوشگوار عنصر داخل ہو سکے۔ پاکستان کی معیشت کمزور بھی ہے اور امریکا پر انحصار بھی کرتی ہے۔
ہماری ٹیکسٹائل ملز جو بھی بنا رہی ہیں، اس کا نصف حصہ امریکی منڈیوں میں جاتا ہے۔ اگر جو بائیڈن کے دَور میں پاک امریکا تعلقات خدانخواستہ خراب ہو جاتے ہیں تو غریب پاکستان کی معیشت خصوصاً ٹیکسٹائل صنعت کو ناقابلِ برداشت دھچکا لگ سکتا ہے۔ اس لیے نئے امریکی صدر سے تعلقات استواری دراصل تنی ہُوئی سفارتی رسّی پر چلنے کے مترادف ہے۔ پھر ہمیں قرض کے حصول کے لیے مسلسل آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈولپمنٹ بینک کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ تینوں مالیاتی ادارے امریکی گرفت میں ہیں چنانچہ ہماری مالی اور عالمی سفارتی ضرورتوں کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ عمران خان صاحب اب امریکا اور چین سے معاملہ کرتے وقتBalancing Actکا مظاہرہ کریں گے۔ یہ آسان اور سہل نہیں ہے۔
نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی آمد پر بھی پاکستان کا مقابلہ مسلسل بھارت سے رہے گا۔ جو بائیڈن ڈیمو کریٹ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ ڈیموکریٹک امریکی صدور کا جھکاؤ بالعموم بھارت کی طرف رہتا ہے۔ جو بائیڈن کی پہلی تقریر بھی ایک بھارتی نژاد امریکی (ونے ریڈی) نے لکھی ہے۔
اندازہ ہے کہ جو بائیڈن بھی پچھلے ڈیموکریٹک امریکی صدور ہی کا راستہ اپنائیں گے کہ انھیں "چینی اژدہے" کے مقابلے میں "بھارتی ہاتھی" کی ضرورت پڑے گی۔ واشنگٹن میں بروئے کار کئی دانشور اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ رواں لمحوں میں امریکی دارالحکومت میں اسرائیل کے بعد بھارتی لابی سب سے زیادہ تگڑی اور مضبوط ہے۔ اسی لابی کا یہ کمال ہے کہ امریکی میڈیا میں اسرائیل کے بعد بھارت کا نام مثبت انداز میں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
ایسے میں ہمارے محبوب وزیر اعظم جناب عمران خان نے یہ کہا ہے کہ " نئے امریکی صدر، جو بائیڈن، پر لازم ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت سے معاملات کرتے وقت دونوں ممالک کو ایک ہی آنکھ سے دیکھیں۔"20جنوری کو خان صاحب نے اپنی ٹویٹ میں کہا: "پاک امریکا تعلقات کو فروغ دینے کا خواہاں ہُوں۔"
بات تو درست اور ہمارے آدرشوں کے عین مطابق ہے لیکن زمینی حقائق ساتھ ہی یہ بھی بتا رہے ہیں کہ امریکی دارالحکومت میں یہودو ہنود کو جو اکٹھ اور ایکا ہے، کیا عمران خان صاحب کی حکومت اس کا مقابلہ اور توڑ کر سکے گی؟ کیا ہمارے وزیر اعظم نئے امریکی صدر سے بلند توقعات وابستہ کرتے ہُوئے اپنے پاس ایسا میکانزم اور ایسے افراد رکھتے ہیں جو نہایت مشاقی سے واشنگٹن میں پاکستانی مفادات کا تحفظ ممکن بنا سکیں؟ ہماری وزارتِ خارجہ کے بابو اِن سوالات پر بھی غور فرما لیں۔
۔۔۔