چیئرمین سینیٹ کا انتخاب اور متنوع الزامات
آج کئی مسعود لمحات اکٹھے ہو گئے ہیں۔ آج جمعہ المبارک بھی ہے اور شبِ معراج بھی۔ اور آج ہی سینیٹ کے نئے چیئرمین کا انتخاب بھی ہو رہا ہے۔ صادق سنجرانی اور سید یوسف رضا گیلانی آمنے سامنے ہیں۔ آج ہی نَو منتخب سینیٹرز حلف بھی اٹھائیں گے اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی عمل میں آئے گا۔
حکومت کی کوشش ہے کہ صادق سنجرانی پھر سینیٹ کے چیئرمین بن جائیں مگر اس راہ میں متحدہ اپوزیشن المعروف پی ڈی ایم سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تین مارچ کو سینیٹ کے انتخابات میں اپوزیشن نے عمران خان صاحب کو جس طرح ٹف ٹائم دیاہے، اب پھر ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے۔ یوں سنجرانی اور گیلانی کا مقابلہ خاصا دلچسپ بن گیا ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمن نے دھمکی دی ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں "کچھ لوگ" اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کریں، بصورتِ دیگر وہ "کئی حقائق" سامنے لانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ دس دن قبل سینیٹ کے انتخابات کا یُدھ پڑا تھا تواُسی وقت پی ڈی ایم نے طے کرلیا تھا کہ وہ سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب کھلا چھوڑنے کے بجائے مقابلہ کرے گی۔
سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب سے چند دن پہلے حکومت نے اپوزیشن کے خلاف ایک حیرت انگیز "اقدام" کیا۔ وزیر دفاع، پرویز خٹک، نے جے یو آئی(ایف)کے سینیٹر مولانا عبدالغفورحیدری کو سینیٹ کا ڈپٹی چیئرمین بننے کی پیشکش کر دی۔ وفاقی دارالحکومت میں اس خبر نے خاصی ہلچل پیدا کر دی تھی۔ اور اگر مولانا حیدری فوری طور پر اس حکومتی اقدام کا تدارک کرنے کے لیے سامنے نہ آتے تو شاید پی ڈی ایم کا کوئی بڑا نقصان ہو جاتا۔ اسلام آباد میں عجب تماشے لگے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے مولانا غفور حیدری کو خصوصی پیشکش کرکے دراصل پی ڈی ایم کو این آر او دینے کی کوشش کی ہے۔ ہم اس ایک مثال ہی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت اپنی مقصد براری کے لیے کہاں تک جاسکتی ہے۔ اس مثال کو پیشِ نگاہ رکھتے ہُوئے اگر ہم اُس ویڈیو اسکینڈل کا تجزیہ کریں جس میں سید یوسف رضا گیلانی کے ایک صاحبزادے پر مبینہ طورپر سینیٹ کے ٹکٹ "خراب" کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے تو اس اسکینڈل کے خالقین کی نفسیات بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔
یہ بات بھی سمجھ میں آ رہی ہے کہ جنگ اور محبت میں "سب کچھ جائز" سمجھنے والے کیسے لوگ ہوتے ہیں اور وہ اپنے ہدف کے حصول کے لیے کیسے کیسے حربے اور ہتھکنڈے بروئے کار لا سکتے ہیں۔ اب تو مبینہ طور پر صادق سنجرانی کی بھی ایک پرانی ویڈیو نے تہلکہ مچا رکھا ہے۔
سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے لیے گھمسان کا رَن پڑا دکھائی دے رہا ہے۔ فریقین ایک دوسرے پر الزامات کی بارش برسا رہے ہیں اور یہ نہیں سوچ رہے کہ عوام کی نفسیات پر کیسے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو درخواست دی گئی کہ سید یوسف رضا گیلانی کو نااہل قراردیا جائے اور نوٹیفکیشن جاری نہ کیا جائے لیکن یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔ سینیٹ کے انتخابات میں حکومتی اُمیدوار (عبدالحفیظ شیخ)کا سیدیوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست کھانا پی ٹی آئی کے دل مجروح کر گیا ہے۔
یہ زخم بھرنے کا نام نہیں لے رہا ؛ چنانچہ پی ٹی آئی کا پوری قوت سے سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف محاذ قائم کرنا قابلِ فہم ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی اور اُن کے ایک صاحبزادے کے خلاف پی ٹی آئی والے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے تو دوسری طرف خود جناب وزیراعظم عمران خان الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بارے میں انگشت نمائی کرتے نظر آ رہے ہیں۔
یہ انگشت نمائی دراصل الیکشن کمیشن آف پاکستان پر کھلے الزام کے مترادف ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پھر ردِ عمل میں الیکشن کمیشن کی طرف سے، اس مبینہ الزام کے استرداد میں، پریس ریلیز کی شکل میں جواب بھی آیا۔ حکومت اگرچہ اس جواب پر بہت بھنائی۔ حکومت کو شاید اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس اسلوب میں الیکشن کمیشن کی طرف سے ترنت جواب بھی آ سکتا ہے۔ یاد رکھا جائے کہ الیکشن کمیشن کو متنازع بنا کر کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔
جناب عمران خان اب بھی کہہ رہے ہیں کہ "شفاف الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے لیکن سینیٹ الیکشن میں یہ ذمے داری پوری نہیں کی گئی۔" وزیر اعظم کا یہ بیان نہایت غیر معمولی ہے۔ وزیر اعظم کے تتبع میں بعض حکومتی وزرا بھی الیکشن کمیشن پر انگلیاں اٹھاتے دیکھے گئے ہیں۔
اس طرزِ عمل کو مناسب اور مستحسن نہیں کہا جا سکتا۔ اس فضا میں الیکشن کمیشن شاید دباؤ میں بھی ہو۔ اس مبینہ دباؤ میں آج سینیٹ کے چیئرمین کے لیے انتخاب ہورہا ہے تو اس فریضے کی انجام دہی سہل اور آسان نہیں ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین کے لیے سید یوسف رضا گیلانی کا کھڑا ہونا عمران خان اور پی ٹی آئی کو بہت گراں گزر رہا ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی پر الزامات کے طومار باندھے جا رہے ہیں۔ عمران خان یہ کہتے ہُوئے بار بار سنائی دیے ہیں: " نااہل شخص پیسے کے زور پر سینیٹ میں آ گیا ہے۔
اب یہ شخص سینیٹ کا چیئرمین بننے کا خواب بھی دیکھ رہا ہے۔"جواباً سیدیوسف رضا گیلانی مہر بہ لب ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر حکومت کو جوابات دیے جا رہے ہیں۔ حکومت کے الزاماتی بیانات کے ردِ عمل میں کچھ جوابات تو مریم نواز نے بھی دینے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ جوابات بھی دراصل الزامات ہی ہیں۔ جو بیانات ٹھوس حقائق کے ساتھ عدالت میں ثابت نہ کیے جا سکیں، الزام ہی ٹھہرتے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ سینیٹ میں جس پارٹی یا اتحاد کے ووٹ زیادہ ہیں، چیئرمین بھی اُسی کا منتخب ہونا چاہیے مگر ایک حکومتی وزیر کا اصراری دعویٰ ہے کہ "ہم سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب جیتنے کے لیے جو کچھ کرنا پڑا، کریں گے۔" اس "جو کچھ " میں بہت کچھ پوشیدہ ہے۔