بینظیر بھٹو کی برسی میں مریم نواز کی شرکت
13 برس قبل ستمگر دسمبر کے یہی سرد ایام تھے جب پاکستان اور عالمِ اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔ شام کے سائے دھیرے دھیرے نیچے اُتر رہے تھے۔ اُس سیاہ دن مَیں لاہور کے ریگل چوک میں، مسجدِ شہدا کے سامنے، کھڑا تھا۔ اچانک دیکھا کہ مال روڈ کی بڑی بڑی دکانوں کے شٹرز گرائے جانے لگے ہیں۔
سامنے ہال روڈ کا الیکٹرانک بازار تیزی سے بند ہورہا ہے۔ برقی قمقمے گُل کیے جارہے تھے۔ افراتفری میں اضافہ ہُوا تو راقم نے ایک راہ گیر سے پوچھا: بھائی صاحب، کیا ہو گیا ہے؟ افراتفری کیوں ہے؟ یہ دکانیں اچانک کیوں بند ہورہی ہیں؟ اُس نے مجھے اچنبھے سے دیکھا اور تقریباً بھاگتے ہُوئے کہا: "آپکو یہ بھی نہیں پتہ؟ راولپنڈی میں بے نظیر پر قاتلانہ حملہ ہُوا ہے "۔ دل دھک سے رہ گیا۔ یوں لگا جیسے دماغ میں ایک جھماکا سا ہُوا ہے۔ بھاگم بھاگ دفتر پہنچا۔ تھوڑی دیر بعد یہ منحوس خبر آگئی: محترمہ بے نظیر بھٹو اب دُنیا میں نہیں رہیں۔ یہ27دسمبر2007 کی سیاہ شام تھی۔ ناقابلِ فراموش شام!اور اب رواں ہفتے کے آخر میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی 13ویں برسی منائی جا رہی ہے سندھ کے شہر گڑھی خدا بخش میں۔
گڑھی خدا بخش میں دفن ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، شاہ نواز بھٹو کو اللہ تعالیٰ بخششوں سے نوازے۔ یہ گھرانہ بھی کیا قسمت لے کر آیا۔ زیڈ اے بھٹو پھانسی پر چڑھائے گئے۔
نصرت بھٹو کا سر ایک آمر کے دَور میں پھاڑا گیا۔ شاہ نواز بھٹو اپنے ملک سے دُور فرانس کے ایک ساحلی شہر میں پُراسرار حالت میں قتل ہُوئے۔ میر مرتضیٰ بھٹو اس حالت میں کئی گولیوں کا نشانہ بن کر موت کا لقمہ بنے کہ ہمشیرہ محترمہ اس ملک کی وزیر اعظم تھیں۔ خود محترمہ بے نظیر بھٹو نہایت بھیانک اور ظالمانہ اسلوب میں ایک آمر کے دَور میں قتل کر دی گئیں۔
قاتلوں کا آج تک سراغ اور سرا نہیں مل سکا۔ یہ بھٹو خاندان کا المیہ تو ہے ہی، دراصل پاکستان اور پاکستان کے عوام کی بدقسمتی بھی ہے۔ اگر بے نظیر بھٹو کے قاتل ڈھونڈے نہ جا سکے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک عام پاکستانی کے قاتل اگر نہیں ملتے تو کس کا گریباں چاک کیا جائے؟ بے نظیر بھٹو کے بہیمانہ قتل کے بعد مرکز میں محترمہ کی پارٹی اور محترمہ کے شوہر کی حکومت بنی۔ پانچ سال گزر گئے لیکن افسوس قاتل پھر بھی نہ مل سکے۔
تو کیا یہ شکوہ کیا جا سکتا ہے کہ جناب آصف علی زرداری کو بھی قاتلوں کو ڈھونڈنے اور انھیں کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کوئی خاص دلچسی نہیں تھی؟ محترمہ کے قاتلوں کا کُھرا تلاش کرنے کے لیے کچھ غیر ملکی ٹیمیں بھی پاکستان آئیں۔ پاکستان کا اس پر زرِ کثیر خرچ ہُوا مگر نتیجہ صفر ہی رہا۔ مقتول و شہید محترمہ کی یاد اور قاتلوں کی نشاندہی میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ لیکن یہ کتابیں بھی بھٹو کی معروفِ عالم بیٹی کے قاتلوں کو کٹہرے میں لانے میں قطعی ناکام رہیں۔ یہ عجب سفاک اتفاق ہے کہ دونوں باپ بیٹی کی موت کے وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوری حکومتیں نہیں تھیں۔
بے نظیر بھٹو کو اپنے سیاسی کیریئر کے زیادہ تر حصے میں میاں محمد نواز شریف کی سخت مخالفت کا سامنا رہا۔ یہ ہماری سیاسی اور صحافتی تاریخ کا نہایت تلخ باب ہے۔ نواز شریف کو جب خود مصائب کا سامنا کرنا پڑا تو لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ "میثاقِ جمہوریت" کرلیا گیا۔ رُوح اور دلوں پر لگائے جانے والے زخم مگر مندمل نہیں ہو سکے تھے۔ پچھلے دنوں پی ٹی آئی کے ایک معروف رہنما نے اِنہی باتوں کی پھر سے یاددہانی کرکے نون لیگ، پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش فی الحال کامیاب نہیں ہو سکی ہے لیکن پی ٹی آئی کے اس مقتدر شخص نے نواز شریف کی طرف سے، برسوں قبل، بے نظیر بھٹو کے خلاف جن متنوع زیادتیوں کا ذکر کیا، بے جا اور بے حقیقت نہیں تھا۔ یہ بات بھی مگر قابلِ ذکر ہے کہ محترمہ کو جب شدید زخمی حالت میں راولپنڈی کے ایک اسپتال پہنچایا گیا تو وہاں سب سے پہلے نواز شریف پہنچے تھے۔ وقت اور ضرورتوں کے جبر نے اب میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی اولادوں کو "پی ڈی ایم" کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا ہے۔
مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بڑی احتیاط سے حکمرانوں کے خلاف ایک ہی لہجے میں بات کررہے ہیں۔ شنید ہے کہ محترمہ مریم نواز شریف 27دسمبر2020 کو گڑھی خدا بخش جائیں گی اور مرحومہ بے نظیر بھٹو کی برسی میں شریک ہوں گی۔ یہ ایک عجب منظر ہوگا۔ جمہوریت کا نیا باب لکھا جائے گا۔ پی ڈی ایم کے دیگر رہنما بھی برسی میں شریک ہو رہے ہیں۔ یوں اس بار یہ برسی گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ متنوع اور زیادہ پیغامات کی حامل ثابت ہوگی۔ مہلک کورونا کا ڈر تو ہے لیکن بے نظیر بھٹو کو چاہنے والے اس ڈر کو پاؤں تلے مسل کر برسی میں شریک ہونے کا اعلان کررہے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں پاک امریکا تعلقات نے ایک نئی کروٹ لی تھی۔ محترمہ کو امریکا کی طرف سے خصوصی بلاوے آئے تھے۔ ہمارے ہر منتخب اور غیر منتخب حکمران نے ہمیشہ یہ خواہش کی ہے کہ اُسے واشنگٹن سے سرکاری بلاوا آئے۔ اسے خواہ کوئی نام دے دیا جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے ہر حکمران نے امریکی آشیرواد اور امریکی خوشنودی کی آرزُو کی ہے۔
ہمارے تو بعض غیر منتخب حکمرانوں کا یہ حال بھی رہا ہے کہ ملک میں منتخب حکومت اور منتخب وزیر اعظم کا تختہ اُلٹنے کے بعد فوری طور پر اپنے کتوں کے ساتھ سرکاری تصاویر جاری کرواتے رہے ہیں تاکہ امریکا بہادر کو اپنے لبرل اور سیکولر ہونے کے بارے میں یقین دلایا جا سکے۔ ہمارے صدور اور وزرائے اعظم "اسٹیٹ وزٹ" پر بھی امریکا گئے ہیں اور "آفیشل وزٹ" پر بھی۔ سفارتی پروٹوکول میں درجے کے اعتبار سے "آفیشل وزٹ" کو بلند ترین مقام حاصل ہے۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی دو بار امریکا کی طرف سے "آفیشل وزٹ" کی دعوت ملی اور اُن کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو بھی دو بار۔ جنرل ایوب خان دو بار "اسٹیٹ وزٹ" پر امریکا گئے اور جنرل ضیاء الحق ایک بار۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دَورِ اقتدار میں 9بار امریکی صدور سے ملاقاتیں کیں لیکن یہ ملاقاتیں کبھی "آفیشل ورکنگ" اور کبھی "ورکنگ وزٹس" کے پروٹوکول میں شامل کی گئیں لیکن جنرل مشرف کو ایک بار بھی امریکا کی طرف سے "اسٹیٹ وزٹ" یا " آفیشل وزٹ" کی دعوت نہیں ملی تھی۔
پاکستان کے سویلین اور منتخب حکمرانوں میں نواز شریف کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہُوا جنھوں نے اپنے دَورِ اقتدار میں 6بارامریکی صدور سے ملاقاتیں کیں۔ ایک ملاقات بھی مگر "آفیشل وزٹ" نہیں تھی۔ سبھی ملاقاتیں "آفیشل ورکنگ وزٹس" کے پروٹوکول کا حصہ تھیں۔ یوں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ زیڈ اے بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو امریکی سفارتی پروٹوکول کی زبان میں کیا مقام حاصل تھا۔ المختصر یہ کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی بے نظیر یادوں کو دلوں سے محو کرنا ممکن نہیں ہے۔