شیریں گفتاری
قرآنِ مجید سورۂ بقرہ میں ارشادِ ربُّ العزت کا مفہوم ہے : " لوگوں کے ساتھ اچھی طرح (نرمی) سے بات کرنا۔" انسان کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: " کوئی بات اِس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اِس کے پاس تیار رہتا ہے۔"
سیّد و سردارِانبیاء حضرت محمد مصطفیؐ ارشاد فرماتے ہیں : "جمال (زیبائی) زبان میں ہے۔" یعنی فصاحت میں انسان کا جمال ہے۔ سرکارِ دو عالمؐ ایک اور موقع پر فرماتے ہیں : "مرد کا جمال اُس کی زبان میں ہے۔" حضرت علی کرم اللہ وجہہ، فرماتے ہیں : "تمہاری زبان سے تمہاری عقل کی ترجمانی ہوتی ہے۔۔ جن چیزوں کے طریقوں کو پہچانتے نہیں ہو اور جن چیزوں کی حقیقت کو جانتے نہیں ہو، اُن کے بارے میں بالکل منہ نہ کھولو، کیوں کہ تمہاری باتوں سے تمہاری عقل کا اور تمہاری عبادت سے تمہاری معرفت کا پتا چلتا ہے۔"
امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ، ارشاد فرماتے ہیں : " انسان کی دس خصوصیات ایسی ہیں جنہیں زبان ظاہر کرتی ہے: زبان ایسا گواہ ہے جو ضمیر سے باخبر کرتا ہے۔ ایسا حاکم ہے جو خطاب کے درمیان فیصلہ کرتا ہے۔ ایسا ناطق ہے جس کے ذریعے جواب دیا جاتا ہے۔ ایسا شفیع ہے جس کے ذریعے ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ ایسا تعریف کنندہ ہے جس کے ذریعے اشیاء کی پہچان ہوتی ہے۔ ایسا امیر ہے جو اچھی باتوں کا حکم دیتا ہے۔ ایسا واعظ ہے جو بُرائیوں سے روکتا ہے۔ ایسا تسلّی دینے والا ہے جس کے ذریعے دُکھوں میں تسکین ملتی ہے۔ ایسا حاضر ہے جس کے ذریعے کینہ کو دُور کیا جاتا ہے۔ اور ایسا پسندیدہ متعلّم ہے جس سے کانوں کو لذّت حاصل ہوتی ہے۔"
حضرت امام زین العابدینؓ فرماتے ہیں : " زبان کا حق یہ ہے کہ اُسے فحش کلامی سے پاک رکھا جائے۔ اُسے خیر کا عادی بنایا جائے۔ فضول و بے فائدہ باتیں اس سے چھڑائی جائیں۔ اس سے لوگوں کے ساتھ نیکی کرائی جائے اور اُن کے بارے میں اچھی باتیں کہی جائیں۔" زبان، پوری مملکت جسم کی ترجمانی کرتی ہے۔ اِس مملکت میں داخل ہونے کے تو بہت سے رستے ہیں۔ آنکھ اِس مملکت میں داخلے کا ذریعہ ہے۔ کان اِس مملکتِ بدنیہ میں داخلے کا رستہ ہیں۔ شامّہ، ذائقہ، لامِسہ، باصرہ، سامعہ۔ یہ تمام وہ قوتیں ہیں، جو اِس جسم کی مملکت میں داخلے کا کام کرتی ہیں، مگر جب عقائد و نظریات کا مجموعہ تیار ہوجائے تو زبان ہے، جو ترجمانی کررہی ہوتی ہے۔
امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ، نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں : "مجھے انسان کی خلقت پر تعجب ہے کہ اللہ نے کیسا شاہ کار بنایا ہے۔" اور فرماتے ہیں : "مجھے اس انسان کی خلقت پر تعجب ہے۔ یہ گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے اور سوراخوں سے سونگھتا ہے اور چربی سے دیکھتا ہے اور ہڈی سے سُنتا ہے۔"
یہ زبان، اللہ کی عجیب و غریب خلقت ہے۔ اسے اللہ نے بڑا عجیب بنایا ہے۔ بہ ظاہر تو یہ چار اِنچ اور دو اونس کی ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے: "زبان پورے بدن کے اعضاء سے پوچھتی ہے، تمہارا کیا حال ہے؟ " تو اعضائے بدن جواب دیتے ہیں : "اگر تم صحیح رہیں تو ہم بھی اچھے رہیں گے۔ اور اگر تم اپنی حدوں سے نکل گئیں تو ہمارے لیے بھی عذاب تیار ہوجائے گا۔"
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ، فرماتے ہیں : "انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے۔" جب یہ چلنے لگتی ہے تو معلوم ہوتا ہے، انسان کتنا پڑھا لکھا ہے، کون سی زبان بولتا ہے، کس ماحول میں بیٹھتا ہے، کتنا شعور ہے، کتنی تعلیم ہے، اِس کی مادری زبان کون سی ہے؟ جو انسان بول کر سوچتے ہیں، وہ نقصان میں ہیں اور جو سوچ کر بولتے ہیں، وہ فائدے میں ہیں۔ اللہ نے عجیب یہ اِک طاقت رکھی ہے زبان میں! یہ زبان اُس وقت تک کام کرتی رہے گی جب تک جان میں جان ہے۔ ساری طاقتیں بدن کی ناکام ہوجاتی ہیں، جب بُڑھاپا آتا ہے۔
سماعت، بصارت، ساری چیزیں ایک مرتبہ عفول کی طرف، نزول کی طرف، اپنے تنزّل کی طرف ہوتی ہیں، سِوائے اِس واحد طاقت کے، جو زبان کی طاقت ہے۔ جب تک اسلام کے احکامات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا واجب موجود ہے، زبان کا کردار باقی رہے گا۔ ایک اسلامی معاشرے کی بہتری اور نکھار کے سلسلے میں شخصیت، اپنی زبان کا کردار ادا کررہی ہوتی ہے۔ جہاں بُرائی کو بُرائی نہ کہا جائے، وہ معاشرہ کبھی ترقّی نہیں کرسکتا۔ انسان کی سیرت اور کردار جس قدر پاک ہو، بات میں اُتنی ہی تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ تقریر اور تحریر میں اثر پزیری بھی کردار کی بلندی ہی سے عبارت ہے۔ فارسی زبان میں ایک کلّیہ بہت معروف ہے: " زبانِ شیریں ملک گیری" یعنی جس کی زبان میٹھی ہو، وہ حکومت کرسکتا ہے۔
اگر کوئی گناہ کرے اور مثلاً خاموش رہے، تو وہی گناہ لکھا جاتا ہے۔ جو کیے ہوئے گناہ لوگوں کے سامنے دہرائے تو کتنا عذاب ہوگا! جب تک انسان یہ کہے، میں یہ کروں گا، میں وہ کروں گا، کوئی گناہ نہیں ہے۔ ارتکابِ جرم سے پہلے کوئی گناہ نہیں ہے۔ لیکن سوچ لیجیے کہ اب ہماری باتوں پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اِتنی کڑی نگرانی ہے، تو ہمیں سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے۔
فرشتے ہمارا کہا ہُوا ہر لفظ لکھ رہے ہیں، لہٰذا ہمیشہ اچھی بات کرنی چاہیے اور نامناسب باتوں سے بہ ہر طور بچنا چاہیے۔ سب سے بڑی آفت زبان ہے۔ لہٰذا زبان پر قابو رکھیں، اِسے آزاد ہرگز مت چھوڑیں۔ زبان تمام تر اعضاء کی وِکالت کرتی ہے۔ لوگ اِس زبان سے بچ جاتے ہیں اور پھنس بھی جاتے ہیں۔ قیامت میں زبان بند ہوجائے گی تو اعضاء خود بولیں اور گواہی دیں گے۔ ہمارا ہر نیک و بد عمل ہمارے اعضاء بتائیں گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ہمیشہ زبان کے بہتر استعمال کی توفیق و سعادت کرامت فرمائے، تاکہ ہمارا انجام بخیر ہو۔