انسانیت کی فلاح: مصطفے ﷺ
خُلقِ مُجسّم، رحمۃ للعالمین، شفیع المذنبین، مُراد المشتاقین، سیّد المرسلین، انیس الغریبین، راحت العاشقین، خاتم النبیّین، جانِ کائنات، فخر الاصفیاء، امام الانبیاء احمدِ مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیؐ پیغمبرِ امن ہیں۔ جو سب کے لیے ایک ایسا پیغام لے کر آئے، جو قیامت تک کے لوگوں کے درد کی دوا رہے گا۔
ہمارا ہر دن یومِ مصطفیؐ ہے۔ ہم تو جس کے احترام کے قائل ہیں، وہ نبی مکرّمؐ کی نسبت ہی سے ہے۔ ہم تو اگر کسی کتاب کو اپنے سر پر رکھتے ہیں اور سینے سے لگاتے ہیں، تو یہ نبی مکرّمؐ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن حکیم ہے۔ یہ تو اِن کا معجزہ ہے۔ اِن کا معجزہ سورج اور چاند پر تصرّف بھی ہے۔ اِن کا معجزہ درخت سے بات کرنا بھی ہے، اِن کا معجزہ ہاتھوں پہ کنکریوں کو اُٹھالیں، تو اُن کنکریوں کا کلمہ پڑھنا بھی ہے۔ اِن کا معجزہ جانوروں سے باتیں کرنا بھی ہے۔ اِن کی زندگی مکمّل معجزہ ہے۔ اِن کا عرشِ الٰہی پہ جانا معجزہ ہے۔
ایک شب کا ذِکر کیا اے جانے والے عرش پر
تیری ساری زندگی معراج ہی معراج ہے
قرآن حکیم میں ارشادات باری تعالی کا مفہوم ہے :
" وہ ہمارا رسولؐ جو تمہاری طرف آیا ہے، ہماری جانب سے، مگر وہ تمہارے ہی درمیان سے ہم نے بنایا ہے۔"
" وہ تمہارے درد میں مبتلا رہتا ہے۔ اُس کی پریشانیاں تمہاری پریشانیاں ہیں۔ تم پریشان رہتے ہو تو وہ پریشان ہوجاتا ہے۔"
سورۂ توبہ میں پروردگارِ عالم اپنے حبیبؐ کو رؤف بھی کہہ رہا ہے اور رحیم بھی کہہ رہا ہے۔ پروردگارِ عالم اپنے حبیبؐ کا قصیدہ پڑھ رہا ہے۔ پُورا قرآن حبیب کبریاؐ کا قصیدہ ہے۔ اللہ نے اپنے حبیبؐ کو بڑے چاؤ سے خَلق کِیا ہے۔ سورۂ توبہ کی ایک سو اٹھائیسویں آیت کے مطابق یہ سمجھ لیا جائے کہ اللہ نے اپنے حبیبؐ کو بھیجا ہے، تو یہ درحقیقت کمالِ انتخابِ کبریا ہے کہ کسے بھیج رہا ہے۔ اور جو بھیجے جانے کے بعد تمام تر کمالات پہ دُنیا کو پہنچا کر لوٹے، تو یہ معراج پہ بُلانا درحقیقت یہی تو پیغام ہے کہ ہم نے صحیح بھیجا تھا۔ آؤ، تمہیں اِنعام دینا چاہتے ہیں۔
سورۂ توبہ میں ارشادِ قدرت کا مفہوم ہے:
تمہارے ہی درمیان سے ہم اپنا رسولؐ بھیج رہے ہیں۔ جو تمہاری پریشانیوں میں پریشان رہتا ہے۔ تم یہ مت سمجھنا کہ تمہیں درد ہوتا ہے، تو اِسے معلوم نہیں ہوتا۔ یہ تمہاری مصیبتوں میں فکر مند رہتا ہے۔ یہ تمہاری پریشانیوں میں پریشان رہتا ہے۔
یہ تمہاری بہتری چاہتا ہے۔ یہ تمہاری ہدایت چاہتا ہے۔ یہ تمہاری ترقی کا آرزومند ہے۔ یہ تمہاری ہدایت کا خُوگر ہے۔ یہ تمہاری ترقی کا متمنی ہے۔ یہ تمہیں بہتر دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ تمہیں عزّت مند دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ ملتِ اسلامیہ کو کبھی ذلیل نہیں دیکھ سکتا۔ اور میرا حبیبؐ مومنین پر رؤف بھی ہے اور رحیم بھی ہے۔ حبیبِ کبریا ؐ سب کی ہدایت کے خواست گار ہیں۔ سب کی ہدایت چاہتے ہیں۔ لیکن جو مومن ہوجاتے ہیں، جو اُن کا کلمہ پڑھ لیتے ہیں، جو اُن کی بات مان لیتے ہیں، پھر اُن پہ یہ رؤف بھی ہوتے ہیں، رحیم بھی ہوتے ہیں۔
اللّٰہُ اکبر، اللہ، رسول کریمؐ کو اپنی صِفتیں دے رہا ہے۔ اللہ رؤف ہے، یہ بھی رؤف ہیں۔ اللہ رحیم ہے، یہ بھی رحیم ہیں۔ فرق اِتنا ہے کہ یہ اُس کی ذاتی صفات ہیں۔ آپؐ کی عطائی ہیں۔ اِنہیں اللہ نے عطا کِیا ہے، اللہ کی ذاتی صفات ہیں۔
نبیؐ کی ذات، سرکارِ دو عالم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ، جس پہ گفت گویا تحریر کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔
ذکرِ رسولِ پاکؐ مودّت کی بات ہے
ایمان والو بات یہ عظمت کی بات ہے
نقویؔ یہ آنسوؤں کی جھڑی نعت ہوگئی
شُکرِ خدا کی جا ہے یہ، رحمت کی بات ہے