وہ مسیحا کب آئے گا
پی ڈی ایم کی تحریک جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے، حکومت اور حزب مخالف میں ٹکرائو اور کشیدگی میں اضافہ ہو رہاہے۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار اور اس کے بیان کی خوبصورتی اور سائستگی دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ ہم سچ مچ کسی سیاسی اور معاشی بحران سے ذیادہ اخلاقی بحران کا شکار ہو گئے ہیں۔ آپ غور فرمائیں ہم گذشتہ نصف صدی میں پنسل کاغذ سے نکل کر کمپیوٹر، سیٹلائٹ اور اسمارٹ فون کے دور میں داخل ہو گئے ہیں اور ہم نے اس عرصے میں دنیا کو سکڑتے اور سمیٹتے دیکھا ہے۔ ہماری مایوسیاں کب ختم ہونگی، آخر کار وہ مسیحا کب آئے گا۔
ہماری سوچ انداز اور ویژن میں انقلاب آ گیا ہے لیکن اخلاقی بحران کو دیکھ کر ہمیں خود اپنے آپ پر ترس آ تا ہے۔ اس وقت لگتا ہے کہ ہمارے سیاسی اکھاڑے میں دو بیانیوں کا ٹکرائو ہے، ایک طرف ووٹ کو عزت دو اور دوسری طرف کرپشن کا خاتمہ دونوں اپنے اپنے بیانئے پر سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ انصاف کی فراہمی اور کرپشن کے خاتمے کا نعرہ عمران خان کی سیاست کی بنیاد ہے۔ اس نعرے نے انہیں ایک ایسے امتحان میں بھی ڈال دیا ہے، جس میں سرخروئی کا راستہ تلاش کرکے ہی وہ اپنی کامیابی پر مہر ثبت کر سکتے ہیں۔ اس بحرانی کیفیت میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ ملکی سیاست میں جمہوری ثمرات کی عوام تک رسائی کی راہ میں مہنگائی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انہیں زندگی کی بہت ساری تلخ حقیقتوں کے ادراک اور حکومتی اقدامات کے یقینی ہونے پر شکوک کے بگولے گھیر لیتے ہیں مگر کوئی سماج، بھوک غربت اور مہنگائی پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا کیونکہ جمہوریت کے نعروں سے بہر حال آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا۔ آپ سینکڑوں مسائل کے حل کے لئے درجنوں موڑ کاٹیں لیکن جمہوری نظام کی بنیاد اس عوامی رائے پر استوار ہوتی ہے کہ عوام کو آسودہ رکھنا حکومت کی اولین ترجیح ہونا شرط ہے۔
یہ آج کا پاکستان ہے، غربت اور امارت کے اتنے قصے ہیں جتنی کھانے کی ڈشیں ہیں۔ یہ قسمت کی بات ہے کہ کسی گھر میں رات کا کھانا نہیں ہوتا اور کہیں ناشتے کے لئے نوجوان صرف چار بسکٹ چائے میں ڈبو کر ڈیوٹی پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ کئی گھرانے غربت اور تنگدستی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، ان چہروں سے غربت جھلکتی ہے اور اداسی گھر کی دیواروں پر بال کھولے سو رہی ہوتی ہے۔ ایک جہاں دیدہ جمہوری حکومت اور ماں جیسی ریاست کو ایسے تمام غریبوں کی دست گیری کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے نظام کا ہونا نا گزیر ہے جو اقتصادی نظام کو عوام کی دہلیز تک لے جائے اور کوئی بھوکا نہ سوئے۔ ریاست مدینہ کے دعویدار وں کے لئے کرنے کا پہلا کام تو یہی ہے جو وہ اب تک وہ نہیں کر سکے ہیں۔ معاشی حقیقت کی تلخیاں اظہر من الشمس ہیں۔ کورونا نے سب کچھ بے نقاب کر دیا ہے۔ کسی نے طنزاً کہا ہے کہ ماسک نے دنیا کے شہریوں کو بے چہرہ کر دیا ہے۔ مجرم بھی ماسک کی آڑ میں زیادتی کے مجرم بن کر پولیس کو چکمہ دے رہے ہیں۔ لوگ علاج سے محروم ہیں دوائوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور غریب اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلواسکتے۔
وزیر اعظم خود با رہا گرانی کا تذکرہ کر رہے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ گرانی نے میری راتوں کی نیند اڑا دی ہے۔ یعنی حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ عوام کس مشکل میں گرفتار ہیں لیکن اس وقت حیرانی ہوتی ہے، جب حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے ٹائیگر فورس کو ذمہ داریاں سونپتی ہے۔ اپنے قیام کے منفرد مقاصد کے اعتبار سے ٹائیگر فورس کے ذمے ایک پیچیدہ ٹاسک ہے۔ جو ایک ایسی فورس کے حوالے کیا جا رہا ہے جس کے بارے میں خود وزیر اعظم، بزنس کمیونٹی، عوام، صنعتکار، تاجر اور لاکھوں دکانداروں کو کوئی آگاہی نہیں ہے۔ فورس کی سر براہی کس کے ذمہ ہے، اس فورس کی رضاکارانہ حیثیت کیا ہے، دوسرے پیشہ ورانہ انتظامی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کس حد تک یہ منفرد کاکرکردگی دکھائے گی اور اس کا عوامی رسپانس کیا ہو گا۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ عوام اس فورس کا خیر مقدم کرینگے یا کاروباری طبقے کا رد عمل غیر مفاہمانہ ہو سکتاہے۔ جمہوریت کی گاڑی اپوزیشن کے بغیر آگے نہیں چلتی، اپوزیشن دو سال تک خاموش رہی اور حکومت کو فری ہینڈ دے دیا گیا اور اس عرصے میں حکومت اگر چاہتی تو ملک میں پانسہ پلٹ دیتی۔
ملک میں تبدیلی کے لئے سمتوں میں کام کیا جاتا، متعدد اہم ترقیاتی منصوبے مرتب کئے جاتے ہیں اور انہیں مقررہ وقت میں شفافیت کے ساتھ مکمل کیا جاتا۔ اگر لوگوں کی زندگی میں بہتری کے امکانات نظر آنے لگتے تو یقین جانیں اپوزیشن کے احتجاج پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ اب حکومت کے لئے صائب راستہ یہی ہے کہ وہ سنجیدگی سے عمل کے میدان میں اپوزیشن کو پسپا کر لے، بیان بازی اور الزام تراشیوں سے گریز کرے کیونکہ بیان بازی اور تصادم کا راستہ اختیار کرنے میں حکومت کی کمزوری اور پسپائی نظر آئے گی۔ وہ جلسے جلسوں سے کسی مخمصے کا شکار نہ ہو، اگر آپ کے ساتھی ذہین، دور اندیشن اور بہی خواہ ہیں تو انہیں آپ کو اس دبائو سے نکالنا چاہیئے۔ وہ عوام سے رابطہ کریں، ان کے مسائل کو سمجھیں اورعوام کو یقین دلائیں کہ انہیں تنہانہیں چھوڑا جائے گا۔ ایک جمہوری اور عملی لکیر کھینچ لیں وہ اپوزیشن کی سیاسی جا ر حیت کا جواب اپنی عملی کاکر دگی سے دیں۔ وقت بہت نازک ہے اور احتیاط لازم ہے، دونوں فریقین اپنی گفتگو، تقریروں اور بیانات میں تدبر سائستگی اور میانہ روی اختیار کریں۔
مجھے تو تشویش ہے کہ ہمارے میڈیا اور شوشل میڈیا بڑے قائدین ایک دوسرے کے خلاف جو لہجہ، جو زبان اختیار کر رہے ہیں، یہ منظر نامہ کسی مہذب سماج کی تصویر پیش نہیں کرتا۔ یہ سیاسی اور معاشی سے زیادہ اخلاقی بحران ہے، جس میں ہم غیر محسوس طریقے سے پھنستے جا رہے ہیں۔ یاد رکھیں، اخلاق باختہ معاشرے اپنا استحکام کھو دیتے ہیں۔ آج پاکستان کے ہر شخص کے چہرے پر صرف یہ سوال ہے کہ اس کے دکھے دلوں اور مایوسیوں کا علاج کون کرے گا اور آخر کار وہ مسیحا کب آئے گا۔