ترین صاحب کچھ کر دکھائیں!
جب میں حکومت کے فعال دانشوروں سے بات کرتا ہوں توانہیں مطمئن اور مسرور پاتا ہوں انہیں فائلیں لہراتے بازو تھپتھپاتے اعداد و شمار کے پہاڑ کھڑے کرتے اور دعوؤں کے انبار لگاتے دیکھتا ہوں۔ ایک لمحے کے لئے خیالی دنیا سے باہر قدم رکھنے کی درخواست کرتا ہوں وہ رکتے ہیں ایک لمحے کیلئے رکتے ہیں تو میں عرض کرتا ہوں یاروں کچھ خیال کرو عام آدمی کی حالت بڑی پتلی ہے۔ تمہیں معلوم ہے تیل، گھی، آٹا، چینی، دالیں، چاول، دودھ، دہی، سبزی، بجلی، گیس کے بل، بچوں کی فیس، علاج معالجے کی سہولتیں، ادویات کی قیمتیں، میں ان سے پوچھتا ہوں یہ لوگ کیسے زندہ رہیں گے؟ یہی سوال میں وزیر خزانہ شوکت ترین سے کر رہا ہوں۔
اس حقیقت کے باوجود کہ انہوں نے معاشی ٹامک ٹوئیاں مارتی اس حکومت کو ایک سیدھے راستے پر ڈال دیا ہے۔ شوکت ترین ایک ذہین انسان ہیں۔ میں گذشتہ چالیس برس سے ان کو جانتا ہوں وہ اس وقت بھی بینکار ی میں جدتیں متعارف کرا رہے تھے۔ کلائنٹ کو بینکوں کی جانب راغب کرنے کے گْر بتا رہے تھے۔ آغاحسن عابدی کی طرح انویسٹر ز کیلئے مرا عات کے نئے نئے پیکچ پیش کررہے تھے۔ غرض شوکت ترین معاشی شعبے کے ایسے ماہرہے جن کے پاس مشکل حالات میں مختلف آپشنز اور حل موجود ہوتے ہیں۔ اور انہوں نے اس وقت بھی بند گلی میں پھنسی ہوئی معیشت کو جس کا اظہار انہوں نے یہ اہم ذمہ داریاں سنبھالنے سے چند روز قبل کیا تھاکہ ہم ایک بھٹکے ہوئے معاشی نظام کی طرف چل پڑے ہیں۔ جس میں وقت کے ساتھ ساتھ مشکلات بڑھیں گی۔ اب انہوں نے بھنور میں پھنسی اس معیشت سنبھالنے کی جو ذمہ داری لی ہے یہ بات تو پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ شوکت ترین نے وسائل اور مسائل کا ادراک اس اعتبار سے کیا ہے کہ اگر آپ لوگوں کو کمانے دیں گے تو ملک چلے گاورنہ نہیں چلے گا در حقیقت روز گار، بچت اور اخراجات میں توازن پیدا کرنے کا نام بجٹ ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ آپ یہ کام کتنی ہوشیاری سے کرتے ہیں عمران خان اور ان کے معاشی دانشور تین سال سے سچ پوچھیں تو ترقی، انفراسٹرکچر اور کاروبار کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ تمام اعدادو شمار کے گورکھ دھندے سے ہٹ کر اگر حکومت کے فعال کردار اپنی توانائی اور وقت فضول کاموں پر خرچ کرنے کے بجائے اس بجٹ اور اس کی حکمت عملی پر عملدرآمد کرنے میں کامیاب ہوگئے تو معاملات ٹریک پر آجائیں گے۔ ایک عام قاری کو سمجھانے کے لئے صرف یہ کہنا ہے کہ جس طرح شوکت ترین نے معاشی ترقی کے لئے سیدھا راستہ اختیار کیا ہے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو اس پر جوں کاتوں عمل درآمد کرنا ہوگا۔ یعنی جو کچھ لکھا گیا ہے اس پر من وعن عمل کیا جائے۔ 5800ارب روپے کا ہدف جو اس موجودہ سال کے مقابلے میں 1100ارب زیادہ ہے ایف بی آر سمجھتا ہے کہ اگر حالات معمول کے مطابق رہے تو 5300ارب روپے بآسانی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے خیال میں فرق صرف500ارب روپے کا ہے۔ جو ان لوگوں سے حاصل ہوگا جو ابھی تک ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں۔ ایف بی آر کو معلوم ہے کہ پاکستان میں تھوک فروش اور پرچون فروش ہر سال 9000ارب روپے کا دھندہ کرتے ہیں۔ لیکن وہ ایک روپے بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت اپنی دکانوں پر کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ مشینیں تک نصب نہیں کراتی۔ اس کے لئے کوئی نہ کوئی موثر طریقہ کار وضع کرنا ہوگا۔
اس سلسلے میں حکومت مقتدر اداروں سے تعاون بھی حاصل کر سکتی ہے۔ میرے خیال میں اگر تھوک فروش اور پرچون فروش اس طرح ٹیکس ادا کریں جس طرح تنخواہ دار ٹیکس ادا کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ حکومت ٹیکس وصولی کے اہداف حاصل نہ کر پائے۔ اس کے علاوہ حکومت نے چھوٹے کاروبار کرنے والے اور کسانوں کیلئے آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کا اعلان کیا۔ ملک کی ترقی کے لئے یہ ایک سود مند آپشن ہے لیکن حکومت کی گذشتہ تین سال کی کارگردگی دیکھ کر یقین نہیں آرہا کہ ایسا ہو جائے گا۔ اس لئے بھی کہ گذشتہ 74سال میں بھی ہماری کارگردگی بتارہی ہے کہ ہمارے ادارے اور کسی پالیسی پر عمل درآمد کرانے والے لوگ محنت کے عادی نہیں رہے۔ بعض کام ذہانت، محنت، ایمانداری اور جانفشانی سے ہوتے ہیں۔ یہ اہلیت وقت کے ساتھ ساتھ تحلیل ہوتی جارہی ہے۔ اگر گورنر اسٹیٹ بینک کو یہ معلوم ہوتا کہ چھوٹے کاروباری اور کاشتکاروں کی پاکستانی معیشت میں کیا اہمیت ہے تو وہ اب تک بہت کچھ کر کے دکھا چکے ہوتے جن اہداف اور ترغیبات کا بجٹ پیش کیا گیا ہے اس میں اسٹیٹ بینک کا منشی والا رویہ رکاوٹ تو ڈال سکتا ہے ان کی مدد نہیں کر سکتا۔ جوادارہ اپنی زیر نگرانی چلنے والی بینکوں کی سروس کے معیار کو بہتر نہ کر سکا۔ وہ اس صورتحال کو بہتر کرنے میں کیا مدد کرے گا۔ بجٹ کا ایک اہم حصہ ترقیاتی پروگراموں کا بھی ہوتا ہے لیکن آپ کو ہر سال یہ خبر سنائی جاتی ہے کہ مالی سال کے آخر میں بجٹ کے اس حصے کا 60سے 65فیصد بمشکل خرچ ہوسکا ہے۔ صرف آپ کو صاحب اقتدار بیورو کریسی کے اللے تللے، نالائقی اور نت نئے اسکینڈلز کے علاوہ کچھ نہیں مل رہا۔ پھر بھلا ہو نیب کا جس نے بیوروکریسی اور سرکاری مشینری کو اپنی نالائقی سے اس قابل بھی نہیں چھوڑا ہے کہ وہ کسی ترقیاتی منصوبے پر عمل درآمد کر سکے۔ راولپنڈی رنگ روڈابھی شروع بھی نہیں ہواتھا کہ اسے تباہ کر ڈالا گیا۔ اس لئے بہتری کی امید وتوقع بے وقوفی ہو گی کہ تحریک انصاف کی حکومت پر بھروسہ کیا جائے۔ جو کچھ بجٹ میں تجاویز دی گئی ہیں اس کے لئے بھی مقتدرہ کو ہی مدد کیلئے آگے آنا ہوگا اگر کوئی کچھ نہیں کرتا تو پھر جنرل مشرف کے نافذ کردہ نظام کو نافذ کر دیں یہ کام خود کرنا ہے یابلدیات کے ذریعے کرایا جائے فیصلہ کرنا پڑے گا۔ ترین صاحب سچ پوچھیں تو آپ کی تمام دانشوری، ذہانت اعداد و شمار میں توازن پیدا کرنے کا کمال آگے بڑھنے اور ترقی کا خواب سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ اگر اس کا ثمر غریب کے چولہے تک نہیں پہنچے گا۔ اعداد و شمار کے چسکے سے نہ بہلائیں مان لیں غربت بڑھی ہے۔ مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ بے روز گاروں کی تعداد خطرے کی نشان تک پہنچ گئی ہے۔ تعلیم اور صحت کے حوالے سے اس کی محرومیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ یقین جانیے میں جب بھی حکومت کے ذمہ داروں سے بات کرتا ہوں اسد عمر اور حماد اظہر کی باتیں سنتا ہوں تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ لوگ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے بھوک کو بہلاوا دے رہے ہیں اور اندر برتن کھڑک رہے ہیں۔ روٹیاں پلٹی جارہی ہیں۔ نان گرم کئے جارہے ہیں اور سلاد کاٹا جارہا ہے لیکن باہر کچھ نہیں آرہا۔ میز پر بدستور ایک خالی جگ اور درجن بھر گلاس دھرے ہیں کچھ مہمان نقاہت سے اوندھے ہو چکے ہیں چند بیٹھ کر جا چکے ہیں اور باقی لوگ پیٹ پر ہاتھ باندھیں پر امید بیٹھے ہیں اور میزبان بار بار کہہ رہا ہے کہ کڑھی کے پکوڑے تلے جارہے ہیں کھانا بس آیا ہی جاتا ہے اور کھانے کے منتظر لوگ بھوک کی بے بسی سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں۔
جناب وزیر خزانہ! ہم نے آپ سے بڑی امیدیں باندھ لی ہیں۔ ہم آپ کی صلاحیتوں کو جانتے ہیں۔ خدارا اس قوم کو مایوس مت کیجئے اپنے حکومتی ساتھیوں کو بھی سمجھائیں کہ وہ معاشی کارناموں کے بھاشن نہ دیں، کام کریں۔