مسئلہ مشین کا نہیں، نیت کا ہے
شہباز شریف نے ای وی ایم کو ایک ایسی شیطانی مشین قرار دیدیا جس کے ذریعے دھاندلی کے امکانات زیادہ ہو جائیں گے۔ یہ مشین آپ کو وہی نتیجہ دیتی ہے جسے آپ ڈیزائن کرتے ہیں۔ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ اس مشین کو پہلے آپ کنٹونمنٹ کے انتخابات میں چلا کر دیکھ لیتے۔ آپ جب ٹرانسپرنسی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں زیب نہیں دیتا۔ اسے بلدیاتی انتخابات میں استعمال کر لیں۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس مشین کی افادیت کیا ہے۔ اس میں کتنی ٹرانسپرنسی آ گئی۔ مسئلہ مشین کا نہیں، ہماری نیتوں کا ہے۔
ہم ہر کام کی ابتدا اپنے مفادات کے تحفظ سے کرتے ہیں۔ اس لئے ہمارے انتخابات میں ہمیشہ دھاندلی ہوتی ہے۔ سب اتنے سچے ہیں تو پھر انتخابات سے بہت پہلے بند کمروں میں یہ کیسے پتہ چلتا ہے کہ کون سی جماعت کس شہر یا علاقے سے کتنے ووٹ لے گی، اگر اعداد و شمار اپنی مرضی کے بنانے ہیں، تو پھر مشین ہو یا سادہ نظام کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو لوگ دھاندلی کرنے پر قدرت رکھتے ہیں وہ دھاندلی کریں گے۔ خواہ اس کا فائدہ ایک کو ہو یا دوسری کو۔ نتیجہ وہی آئے گا جو حقیقی نتیجہ بنانے والے چاہیں گے۔ مشین پروگرامنگ اور آپشنز سے چلتی ہے۔ بندہ تو گواہی دے سکتا ہے مشین نہیں دے گی کیونکہ جب آپ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہیں گے تو سافٹ ویئر آپ کے ہاتھ میں ہو گا۔ اس میں جو کچھ ڈالیں گے وہ ویسے ہی آپریٹ کرے گی۔
آج ہم من حیث القوم جس مقام تک پہنچے ہیں اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے، کیا آپ جھٹلا سکتے ہیں کہ انتخابات میں ٹھپے نہیں لگتے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ نے ووٹ نہیں ڈالا اور آپ کا ووٹ پڑ گیا۔ یہ سب تماشے ہوتے رہے ہیں، آپ سمجھتے ہوں گے کہ 70ء کے انتخابات شاید فیئر تھے۔ دھاندلی اس میں بھی ہوئی تھی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں مجموعی نتائج زیادہ مختلف نہیں تھے۔ لیکن نواکھالی، چاٹگام، ڈھاکہ کے نواحی علاقوں میں عوامی لیگ کے حمایتیوں نے پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ مغربی پاکستان میں بھی دائو پیج آزمائے گئے تھے۔ باقی انتخابات میں اگر حقائق لکھے جائیں تو کتاب بن جائے گی۔
اب وزیر اعظم عمران خان سمجھتے ہیں کہ یہ مشین کوئی چھومنتر دکھائے گی تو ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ وہ جیسا چاہیں گے ویسا ہی نتیجہ آئے گا۔ ہاں انکے ذہن میں یہ بات ہو گی کہ اب وہ اتنے مقبول ہرگز نہیں ہیں جتنا وہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے تھے، انہوں نے لاتعداد وعدے کئے جو وہ پورے نہیں ہوئے۔ ان کا خیال ہے کہ غیر ممالک میں رہنے والے پاکستانی بڑی تعداد میں انہیں ووٹ دیں گے۔ یہ درست ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں نواز شریف کی پوزیشن کمزور تھی لیکن وہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ بات درست ہے کہ مرکز اور پنجاب میں حکومت میں آنے سے پنجاب میں پی ٹی آئی کی تنظیم میں بہتری آئی ہے لیکن اس کی مقبولیت کا گراف بری طرح گرا ہے۔ لوگ مہنگائی سے پریشان ہیں۔ بے روزگاری بڑھی ہے۔ بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ کاش عمران خان سیاست میں نہ آتے۔ جب وہ کرکٹ کھیل رہے تھے تو وہ ایک دیو مالائی کردار بن گئے تھے۔
میں دعویٰ کر سکتا ہوں کہ اس دور میں ان کے لئے جتنے توصیفی مضامین میں نے لکھے شاید منیر حسین مرحوم نے بھی نہ لکھے ہوں گے۔ لوگ انہیں ہیرو کے طور پر مانتے تھے۔ یہ اس وقت ان کی کرشماتی شخصیت کا کمال تھا کہ جب وہ کینسر ہسپتال کی تعمیر کے لئے عطیات کے لئے نکلے، تو لوگوں نے ان کو سر آنکھوں بٹھایا۔ دل کھول کر عطیات دیے۔ اس مہم میں عجیب جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔ انہوں نے اس عوامی محبت کے سہارے اپنے خواب پورے کر لئے انہوں نے نمل یونیورسٹی بنائی۔ اس کی شاندار فیکلٹی بنائی۔ تاریخ بڑی سنگدل ہے۔ اسے حکمرانوں کی ذاتی ایمانداری اور انفرادی کردار سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ یہ صرف بڑے لوگوں کے کارنامے دیکھتی ہے۔
سیدنا فاروق اعظمؓ کا آپ بہت تذکرہ کرتے ہیں لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ حضرت عمرؓ کی دوپہریں صحرا میں گزریں لیکن امیر المومنین حضرت عمرؓ کے کارناموں سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ خالد بن ولیدؓ کیا کھاتے تھے کیا پہنتے تھے کس گھر میں رہتے تھے، ان کی اولاد کتنی تھیں، ان کی سواریوں کے نام کیا تھے۔ تاریخ بالکل خاموش ہے لیکن سیف اللہ کی عسکری حکمت عملی دنیا کی تمام فوجی اکیڈمیوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ کتنے لوگ جانتے ہیں کارل مارکس نے اپنے بچے کو کاغذ میں لپیٹ کر دفن کیا تھا۔ لیکن کمیونزم کے خالق کو پوری دنیا جا نتی ہے۔ مائوزے تنگ سائیکل پر دفتر جاتا تھا۔ دو کمروں کے مکان میں رہتا تھا۔ دو سلائس سے لنچ کرتا تھا اس کے پاس صرف کپڑوں کے دو جوڑے اور جوتوں کی ایک جوڑی تھی۔
کون جانتا ہے؟ کیا عوامی جمہوریہ چین کے "بانی" مائوزے تنگ کو کون نہیں جانتا۔ وہ شخص کہاں پیدا ہوا، کہاں رہا اور کہاں دفن ہوا۔ دنیا میں کتنے لوگ جانتے ہیں لیکن ترکی کے معمار اعظم"اتاترک" کسی کے دماغ سے محو نہیں ہوا۔ اور وہ بھی تو چمڑا بیچنے والوں کا کمزور اور دھان پان سے بچہ تھا، جو گورنر جنرل بنا تو صرف ایک روپیہ تنخواہ لی، بوسیدہ سوٹ پہنے، ایک وقت کا کھانا کھایا اپنے سٹاف کو ذاتی جیب سے تنخواہ دی۔ اسے کون جانتا ہے لیکن پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کو کون نہیں جانتا۔
تاریخ کے نزدیک حکمرانوں کی انفرادی ایمانداری اور شخصی شرافت کی کوئی اہمیت ہوتی تو اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ جب قائد ملت لیاقت علی خان کو لیاقت باغ راولپنڈی میں گولی لگی تو انہیں ہسپتال لے جایا گیا اس وقت اچکن کے نیچے انہوں نے پھٹا ہوا بنیان پہنا ہوا تھا۔ خان صاحب شہید ملت کرنال کے نواب تھے۔ اس ملک کا ایک وزیر اعظم وہ بھی گزرا ہے کہ کچن کے برتن مانجھتے مانجھتے جس کی اہلیہ کے ہاتھ پھٹ گئے تھے، وہ شخص بھی اس ملک کا وزیر اعظم تھا جس کا پوری دنیا میں مکان نہیں تھا۔ وہ بھی اس ملک کا صدر تھا۔ وہ بھی اسی ملک کا لیڈر تھا جو فلائنگ کوچ کے حادثے میں مرا تو جیب سے برآمد ہونے والی رقم سے اس کی تدفین بھی ممکن نہیں تھی اور اسی ملک میں ایک ایسا مطلق العنان حکمران بھی گزرا ہے جو امریکہ کے دورے پر پی آئی اے کی عام فلائٹ میں عام مسافروں کے ساتھ گیا۔
تاریخ صرف حکمرانوں کے کارنامے دیکھتی ہے۔ ورنہ تاریخ صرف یہ لکھ کر اپنی ذمہ داری پوری کرتی ہے کہ ایسے حکمران کو ایک اتفاق ایوان اقتدار تک لائے اور دوسرا اتفاق بہا لے گیا۔ تاریخ صرف انہی قبروں پر رکتی ہے، جہاں انسانوں کے نجات دھندہ سوئے ہوتے ہیں۔ تاریخ کسی سے ناانصافی نہیں کرتی۔ یہ لیڈروں کی فرانزک لیبارٹری ہے۔ یہ بہت معمولی باتیں ہیں کہ جوڑ توڑ سے اقتدار کو مضبوط کرلیا جائے، کسی مشین کو متعارف کراکے اپنے لئے بہتر مواقع حاصل کر لیے جائیں، سب کچھ کریں لیکن خلق خدا کا خیال کریں، آ پ کے ووٹرز نے بڑی امیدیں باندھی تھیں اوربڑھ چڑھ کر آپ کا ساتھ دیا تھا لیکن یہ تو مانیں کہ وہ اس وقت مایوس ہیں۔ اس مشین کو متعارف کرانے سے پہلے حزب مخالف سے مشاورت کرنی چاہیے تھی۔ سیاست ایسا کھیل ہے جس میں اپنے ہمدردوں چاہنے والوں سے بھی بات کرنی پڑتی ہے اور ساتھ ساتھ مخالفین کو سننے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔