عمران کے لئے سب کچھ اچھا نہیں
ہم من حیث القوم نئے فکری تہذیبی، اقتصادی اور سیاسی افق کی جانب بڑھ رہے ہیں، میں ہمارا پورا معاشرہ، انگڑیاں لے رہا ہے، ملک بھر میں مہنگائی کا سونامی آچکا، مہنگائی نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ روپیہ ڈالر کی محکومیت کا شکار ہے، اس پر سیاسی موسم بھی عجیب و غریب روپ دھار رہا ہے، حکومت ڈیلیور کرنے میں ناکام ہے، اپوزیشن حکومت کو اتار پھینکنے کی کوشش میں، خود باہم الجھ پڑی ہے، تیسرا فریق حکومت کو ڈکٹیٹ کر نے میں بے بسی کا شکاردکھائی دے رہا ہے، ہر روز منظر بدل رہا ہے، فیصلہ کن قوتوں کو اپنے شانہ بشانہ کھڑا ہونے پر مجبور کردیا اور بظاہر یہ حقیقت لگتی ہے کہ عمران خان کا یہ کارڈ حکومت کے لئے ترپ کا پتہ ثابت ہوا۔ جس نے بازی پلٹ دی، یہ بھی درست ہے کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا عمران کے دوسرے فیصلے نے اپوزیشن کو حیران کردیا اور فیصلہ کن قوتوں کو اپنے حق میں متحرک کرلیا، اس طرح عمران نے دوسراجنم لیا۔
سینیٹ میں چیئرمین کی نشست پر بھی پی ٹی آئی کی کامیابی صاف طور پر یہ پیغام ہے کہ فیصلہ کن قوتیں عمران کو پیچھے دھکیلنے پر آمادہ نہیں، آصف علی زرداری کی پی ڈی ایم کے اجلاس میں تقریر میرے لئے حیران کن نہیں تھی، انہوں نے وہ بات کہہ دی، جو ممکن نہیں، یعنی نواز شریف کی واپسی، لیکن ان کی اس تقریر سے ن لیگ تلملا کر رہ گئی، مریم نواز نے اس کا جواب فرنٹ فٹ پر آکر دیا، جس سے پی ڈی ایم کے اوپر غیر یقینی کے سائے لہرانے لگے، لیکن حقیقت یہ ہے، آصف علی زرداری سمجھتے ہیں کہ جہاں اس نظام کو دھکا لگے گا، سیاستدان کھیل سے باہر ہوجائیں گے، اس لئے انہوں نے اپنی جماعت کو استعفوں کے کھیل سے الگ کرکے خود کو پوائنٹ آف نوریٹرن کی سیاست سے الگ کرلیا ہے، بظاہر وہ اس حکمت عملی پر چلنے میں اپنی عافیت اور نئی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور شاید وہ اپنے اس فیصلے کے حق میں یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ انہوں نے 2014ء میں بھی حکومت گرانے کی عمران خان کی کوشش کو اسی حکمت عملی کے تحت ناکام بنایا تھا، ورنہ وہ نہ صرف بآسانی نواز حکومت گرانے کی پوزیشن میں تھے، بلکہ فیصلہ کن قوتوں کے ساتھ مل کر نئی ترکیبوں اور ترتیبوں سے حکومت میں ایک بڑا کردار حاصل کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے اس وقت تمام پیشکش اور ترغیبات کو ٹھکرادیا تھا اور پھر 15 جون 2015ء کو وہ صورتحال سے اتنے متاثر ہوئے کہ جذباتی ہوکر انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا بیان دے ڈالا، صورتحال کی نزاکت دیکھتے ہوئے نواز شریف نے یکدم ان سے منہ موڑ لیا، اس سے اگلے دن ز رداری صاحب اور نواز شریف کی ملاقات ہونی تھی، وزیراعظم ہائوس کے ایک اعلامئے کے ذریعے منسوخ کردی گئی، غیر جانبدار مبصرین کا خیال تھا کہ نواز شریف کو اس وقت آصف علی زرداری کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تھا اور جنرل راحیل اور زرداری صاحب کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا چاہئے تھا، آصف علی زرداری نواز شریف کے اس رویئے سے بڑے مایوس ہوئے تھے، ایسا ایک موقع اس وقت بھی آیا تھا، جب کراچی کے گورنر ہائوس میں شہر قائد میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس جس میں وزیراعظم نواز شریف، جنرل راحیل شریف اور آصف علی زرداری موجود تھے، آصف علی زرداری اور جنرل راحیل شریف کے مابین تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تو نواز شریف نے جو اجلاس کی صدارت کررہے تھے، نہ صرف زرداری صاحب کا جو ان کے قریب بیٹھے تھے، ہاتھ دبایا اور جنرل راحیل شریف کو بھی سمجھایا کہ تلخ ہونے کے بجائے ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ سے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے، اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا بیان دینے کے ڈیڑھ سال بعد آصف زرداری اس وقت پاکستان واپس آئے، جب نواز شریف پانامہ اسکینڈل میں پھنس چکے تھے، لیکن انہوں نے اس وقت بھی نواز شریف کے خلاف کوئی محاذ نہیں کھولا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس سے نظام ڈریل نہ ہوجائے، لیکن انہوں نے موقع ملتے ہی بلوچستان کی حکومت گرا کر اور صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنوا کر جس میں فیصلہ کن قوتوں کی حمایت حاصل تھی، حساب چکتا کردیا۔
لگتا یہی ہے کہ اس وقت تمامتر پینترے بدلنے کا جواز نہ پیپلز پارٹی پاس ہے نہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کو چھوڑے گی اور نہ پی ڈی ایم پیپلز پارٹی کو الگ کردینے کی حکمت عملی کا رسک لے گی، عمران خان کی حکومت کو پی ڈی ایم کی جارحانہ پیش قدمی سے بظاہر اتنا بڑا خطرہ نظر نہیں آتا، جتنا بڑا خطرہ انہیں اپنی پارٹی کے اندر بنتے ہوئے ایم این ایز گروپ اور اپنی کارکردگی سے ہے، ایسا لگتا ہے کہ عمران لوگوں کے مسائل، مشکلات اور مصائب کو سمجھ ہی نہیں پا رہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اور عام لوگوں کے مابین اعتبار اور اعتماد کا رشتہ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، ایسا لگتا ہے کہ وہ ان تمام باتوں کوبھول چکے ہیں، جس کا وعدہ انہوں نے 2018ء کے انتخابات سے پہلے کیا تھا، ایسا لگتاہے کہ ان کے مخالفین ہی نہیں، ان کے سپورٹر بھی عمران خان کی جانب سے عثمان بزدار کی مسلسل حمایت پر حیران و پریشان ہیں، عمران کے حمایتی سمجھتے ہیں کہ بزدار کا دفاع کرکے عمران نے بالواسطہ شریف برادران کی پنجاب میں مقبولیت کو بڑھانے کی غلطی کررہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ آگے بڑھنے اور پی ٹی آئی کے قدم مضبوط کرنے کیلئے عمران کو چاہئے کہ وہ عثمان بزدار کو فوری فارغ کردیں، عوامی مسائل کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لائیں، انہیں اپنے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کی ساکھ شہرت اور بیورو کریسی کے ساتھ ان کے رویوں پر بھی غور کرنا چاہئے اور اس بات کا بھی ادراک رکھنا چاہئے کہ اعظم خان کے رویئے اور سلوک نے عمران کے بہت سے انتہائی وفادار اور قریبی ساتھیوں کو نالاں کردیا ہے اور اعظم خان نے انتہائی چالاکی سے انتظامی فیصلہ سازی کو ہائی جیک کرلیا ہے، اسلام آباد میں عمران خان کے متعدد اہم ساتھی یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ عمران خان جتنی جلد اعظم خان کے متبادل کو ڈھونڈلیں، ان کے لئے بہتر ہوگا، شاید عمران کو یہ احساس بھی نہیں کہ کے پی کے وزیراعلیٰ محمود خان کی طرز حکومت نے پی ٹی آئی کو منتشر کرکے رکھ دیا ہے۔