Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Sohail Danish/
  3. Haqooq e Niswan, Aurat March

Haqooq e Niswan, Aurat March

حقوق نسواں۔عورت مارچ

8مارچ حقوق نسواں کا عالمی دن منایا گیا۔ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں عورت مارچ ہوئے، مختلف تقریبات اور سیمینار منعقد کئے گئے۔ عورت کے حقوق عورت کی آزادی اور عورت کی برابری کے نعرے لگائے گئے۔ پاکستانی عورت کی مظلومیت ثابت کرنے کے لئے امریکہ یورپ آسٹریلیا اور مشرق بعید کی رپورٹوں کے حوالے دیے گئے۔ زچگیوں کے دوران مرنے والی خواتین، خاوندوں سے پٹنے والی عورتوں، دفاتر میں جنسی ہراسانی کے واقعات، گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والی ظلم و زیادتیاں، مجبوری کے عالم میں گھروں سے بھاگنے والی لڑکیوں کی داستانیں، ساتھ ساتھ غیر ملکی خوشبویات سے معطر الٹرا ماڈرن خواتین کے ہاتھوں میں خواتین کے حقوق سے متعلق پلے کارڈز اور ان پر درج بعض ناقابل بیان نعرے بھی درج تھے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر پڑھ کر اور سن کر میں سوچنے لگا کہ ایسا ملک جو غربت میں دنیا کے ملکوں میں 159ویں نمبر پر ہے جس کی 22کروڑ آبادی میں سے 10کروڑ سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور اس کی متمول گھرانے سے تعلق رکھنے والی خواتین ہماری خواتین کا تقابل مسں یورپ سے کر رہی ہیں لیکن ان میں کوئی بھی خاتون مقرر فاطمہؓ بنت محمدؐ سے نہیں کر رہی۔ ہم تقابل یورپ اور امریکہ کی آزادی اور حقوق سے کر رہے ہیں۔ تو چند سال قبل انہی کے پوپ نے ایک چھوٹے پادری کا امتحان لینے کے لئے اسے حضرت مریم ؑ کی تعریف کا حکم دیا۔ پادری پوپ کے سامنے کھڑا ہوا۔ گائون کی پیٹی کھول کر دوبارہ باندھی سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور پھر آنکھیں بند کر کے مخاطب ہوا۔ فادر!عیسیٰؑ کی ماں ہونے کے بعد مقدس مریم کو کسی دوسرے تعارف کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح جب ایک بار ڈاکٹر علی شریفی سے اس سے ملتا جلتا سوال کیا گیا تو مفکر ایران نے مسکرا کر کہا"حضرت فاطمہؓ کے مقام نے ایک مدت تک مجھے پریشان رکھا میں نے سوچا، فاطمہؓ محمدؐ کی بیٹی ہیں لیکن پھر سوچا کہ آپ کا اس کے علاوہ بھی ایک مقام ہے سوچا فاطمہؓ حضرت علیؓ کی بیوی ہیں لیکن پھر سوچا آپ کا اس کے علاوہ بھی ایک مقام ہے۔ سوچا فاطمہؓ حسینؓ کی والدہ ہیں لیکن پھر سوچا فاطمہؓ خاتون جنت ہیں لیکن پھر سوچا آپ کا اس کے علاوہ بھی ایک مقام ہے۔ قصہ مختصر میں سوچتا چلا گیا۔ سوچتا چلا گیا۔ جب تھک گیا تو بات یہیں پر آ کر ختم ہوئی۔

فاطمہؓ از فاطمہؓ سچی بات تو یہ ہے کہ "مردوں کی برتری" کے معاشرے میں آج عورت کو وہ مقام حاصل نہیں۔ جو حضرت ابوبکرؓ سے لے کر حضرت علیؓ تک کے ادوار میں حاصل تھا۔ لیکن اس کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ اس کو جو پروٹوکول خواتین کویہاں دیا جاتا ہے۔ وہ بھی شاید یورپ کی عورت کو ایک ہزار سال بعد بھی نصیب نہ ہو۔ آج بھی لوگ پرائی عورت کو دیکھ کر نظریں نیچے کر لیتے ہیں۔ بسوں میں ان کے لئے نشست خالی کر دیتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں سگریٹ نہیں پیتے، ان سے عزت و احترام سے پیش آتے ہیں۔ آج بھی لوگ گھر میں بیٹی پیدا ہونے پر شراب چھوڑ دیتے ہیں، جوا اور بری صحبت ترک کر دیتے ہیں۔ آج بھی لفظ "بھائی" سن کر لوگوں کی آنکھیں جھک جاتی ہیں۔ آج بھی لوگ عورت سے زیادتی پر باہر آ جاتے ہیں۔ آج بھی لوگ ایک "زنانہ چیخ" پر اپنے ہم جنس کو پیٹتے دیر نہیں لگاتے۔ آج بھی لوگ بیوی کو طلاق دینے اور ماں بہن بیٹی سے تلخ کلامی کرنے والے مرد کو پاس نہیں بیٹھنے دیتے، آج بھی گھروں میں بوڑھی مائوں دادیوں اور نانیوں کو نیو کلس کی حیثیت حاصل ہے۔ ہاں آج بھی اس قدامت پسند معاشرے میں عورت اتنی محفوظ ہے جتنی یورپ کے جنگلی معاشروں میں کبھی نہیں تھی۔

پھر ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ ہمارے ہاں یہ خواتین آزادی طلب کر رہی ہیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ ان میں آگاہی کا فقدان ہے۔ ان علاقوں میں صحت عامہ کی سہولتیں بھی کم ہیں۔ ان سارے مسائل کا سدباب ہونا چاہیے۔ لیکن یورپ اور امریکہ والی آزادی کا نعرہ درست نہیں۔ جہاں عورت، عورت نہیں انڈسٹری ہے، جہاں مرد وراثت میں حصہ داری ٹیکس اور اخراجات کے ڈر سے پوری زندگی کے بعد بھی عورت کو بیوی کا درجہ نہیں دیتے۔ جہاں ایک ہی عورت کے تین بچوں کے رنگ اور ناک نقشے آپس میں نہیں ملتے۔ جہاں عورت بیٹی، بہن، بیوی اور ماں نہیں پارٹنر ہے۔ جب میں مقام فاطمہؓ کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے حیات اقبال کا وہ واقعہ یاد آ جاتا ہے جب شاعر مشرق نے اپنے استاد میر حسن کا نام شمس العلماء کے خطاب کے لئے پیش کیا۔ کمیٹی نے پوچھا ان کی تصنیف کیا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا"میں ہوں ان کی تصنیف۔ آپ اس واقعہ کی روشنی میں مقام فاطمہؓ کی جستجو کریں۔ تو آپ کو کربلا کے میدان میں کھڑے حسینؓ حضرت فاطمہؓ کے مقام کا تعین کرتے نظر آئیں گے۔ جس کے دس دن آج تک چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں ہاں میں ہوں فاطمہؓ کی تصنیف۔ کسی بھی خاتون کا ذکر کرنا ہو تو پھر یہ ذکر فاطمہؓ بنت محمدؐ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ جو جب بچی تھی تو نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان کے زخم دھوتی تھیں۔ جو لڑکی تھیں جو اپنے دور کے سب سے بڑے شجاع کو زرہ بکتر پہناتی تھیں اور جو خاتون تھیں تو تاریخ کے سب سے بڑے شہید کی پرورش کرتی تھیں اور جس نے زندگی سے، وقت سے معاشرے سے عمر بھر دکھ نہیں لیا اسے صرف دیا ہی دیا۔

آج جب چند ناسمجھ خواتین اس مغرب جیسی آزادی طلب کرتی ہیں۔ جس میں طلاق جنس اور ناجائز بچوں کے سوا کچھ نہیں۔ ہاں ہماری خواتین کو یاد رکھنا چاہیے۔ ان کی تاریخ میں ایک فاطمہؓ بھی تھیں اصلی اور سچی خاتون۔ خاتون جنت۔

Check Also

Pakistan Aur Bharat Ke Election Par Aik Nazar

By Gohar Rehman