بارش نے سسٹم کا پول کھول دیا
میں سمجھتا ہوں کہ قدرت نے بارش کے ایک جھٹکے میں ہمارے تمام اداروں کی کارکردگی اور سسٹم کاپول کھول کر رکھ ددیاہے۔ بارش کے بعد آپ جو ماتمی اداکاری کے جوہر دیکھ رہے ہیں۔ شہر کا میئر آنکھوں میں آنسو سجائے اختیار نہ ہونے کا رونا روتے اور صوبائی حکومتوں کو بد دعائیں دیتے، اپنے چار سال مکمل کر بیٹھے ہیں۔
اخبارات کی شہہ سرخیاں اور ٹی وی چینلز کی چیخ و پکار اور صاحب اقتدار اور اختیار کی بھرم بازیاں سب کچھ ایک اسکرپٹ جیسا لگتا ہے، بس سالانہ ایک نیا تڑکا لگا دیا جاتا ہے۔ سندھ خصوصاً کراچی کو سنوارنے کے لئے نہ جانے کب سے کمیٹیوں پر کمیٹیاں بن رہی ہیں مگر یہ کمیٹیاں بنتی ہیں اورپھر ٹوٹ جاتی ہے۔ جو ماہرین میدان عمل میں آئے وہ نا اہل تھے یا پھر مسائل کے اسباب سے بے خبر تھے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ کراچی کے مسائل کے اسباب زہر جیسے تلخ حقائق پر مبنی ہیں۔ دیکھیں تو سہی کہ حالیہ بارش رحمت کے بجائے ایسی زحمت بنی کہ نہ صرف غریبوں کی بستیوں کو تہس نہس کر گئی بلکہ امیروں کے علاقے بھی اس کے قہر کا نشانہ بنے۔ بارش کی تباہ کاریوں نے سرجانی ٹاؤن جیسے پسماندہ اور ڈیفنس ہاؤسنگ سو سائٹی جیسے قیمتی ماڈرن علاقے کو ایک صف میں لا کھڑا کیا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ بھری بارش میں ملک کے سب سے بڑے شہر میں لوگ پانی کو ترس جائیں گے۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ ان کے صبر اور برداشت کا امتحان لیتی رہے گی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس بارش نے شہر کو کچرے، گندگی اور تعفن کا سمندر بنا دیا۔ اس لئے میں جب بھی کراچی سمیت سندھ کا چہرہ دیکھتا ہوں تو نہ جانے ذہن میں کیوں کڑواہٹ، مایوسی اور گلے شکوؤں کی چادر تن جاتی ہے۔ پھر میں ماضی میں جھانکتا ہوں تو نہ جانے کیوں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو دوقدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم قدم بہ قدم پیچھے کھسک رہے ہیں۔
آئیے ذرا وقت کی کھڑکی کھول کر ماضی میں جھانکتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1970میں اسی شہر میں بادل خوب جم کر برسے لیکن پانی نے اپنی راہ لی۔ نالے، ندیوں نے پانی کو دھکیل کر سمندر تک پہنچانے میں ذیادہ دیر نہیں لگائی تھی۔
اس وقت شہر نہ اس طرح بے ہنگم تھا اور نہ تجاوزات نے پانی کو تالاب کی شکل اختیار کرنے دی تھی۔ اس وقت نہ یہ سیاسی کرپشن تھی اور نہ یہ نفسا نفسی، جس نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے تمام سسٹم ننگے کر دیئے۔ یوں تو اس شہر کے ایک نہیں درجنوں مسائل قطار باندھے حکمرانوں اور با اختیار لوگوں کے منہ چرا رہے ہیں۔ بے ہنگم آبادی جو مسلسل اور بد ستور بڑھتی جا رہی ہے۔
ملک بھر سے لوگ جس طرح اس شہر کا رخ کر رہے ہیں، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آپ پورے سندھ کا ہی نہیں بلکہ ملک بھر کا جائزہ لیں تو آپکو اندازہ ہو گا کہ عام آدمی کو تو بس صاف ستھرا پانی چاہیئے، با عزت روزگار، ضرورت کے مطابق تنخواہ، سستا اور فوری انصاف، آزادی، تعلیم، دوا، سڑک، بجلی، ٹیوب ویل اور ایک سیدھا سادا نظام چاہیئے۔ حالیہ کراچی کی بارش نے ہمیں سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ کوئی ایسا نظام وضع کیا جائے۔ جس میں تمام ادارے باہم مربوط کام کر سکیں۔
اس شہر میں چھ کنٹونمنٹ بورڈ ہیں، یہ ادارے کوئی بر ہمن نہیں ہیں ان کو دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر باہم اشتراک سے کام کرنا چاہیئے۔ اپنے اپنے اختیار کو اپنے پیروں کے نیچے دبا کر کڑک مرغی کی طرح ایک دوسرے سے منہ پھیر کر بیٹھ جانے سے کوئی کام نہیں ہو سکے گا۔ اپنے اپنے شہروں کو صاف رکھنے کے لئے، منصوبہ بندی وسائل اور آلات کی فراہمی کو یکجا کرے ان کی سخت نگرانی کرے اور تمام معاملات کو پوری تندہی اور دیانتداری سے کرنے والے لوگ تعینات کئے جائیں۔ گذشتہ پچاس برس میں مَیں نے سندھ کے تمام بڑے شہروں کا وقتا ً فوقتاً عملی جائزہ لیا ہے مگر کسی بھی شہر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں۔
کراچی، حیدر آباد، سکھر، میر پور خاص، لاڑکانہ اور دیگر شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا جدید تیز رفتار نظام بنانے کی ضرورت ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس ملک کی غالب اکثریت کو اس بات سے کوئی سرو کار نہیں کہ ملک کا نظام صدارتی یا پارلیمانی ہو، فیصلے عمامے پہن کر کئے جائیں یا وگ لگا کر، ملک کا سربراہ وزیر اعظم کہلائے گا یا امیر المومنین، اختیارات وفاقی حکومتوں کے پاس ہونگے یا صوبائی حکومتوں کے پاس، بل دو تہائی اکثریت سے پاس ہونگے یا سادہ اکثریت سے، ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہوگی یا اتوار کو، سود کا نام مارک اپ رکھا جائے یا انٹریسٹ، خواتین برقعہ پہنیں گی یا دوپٹہ اوڑھیں گی، تعلیم عربی میں ہو گی یا انگریزی میں۔
پاکستانی عوام کو ترمیموں، بلوں، نت نئے دعوؤں اور وعدوں سے کوئی غرض نہیں۔ انہیں کوئی سرو کار نہیں کہ کون شلوار کرتا پہنتا ہے اور کون سوٹ بوٹ، کون ورزش کرتا ہے اور کون کسرتی جسم کا مالک ہے۔ کون منحنی یا فربہ ہے اور کون کھجوریں کھاتا ہے، کون نہاری اور اورکون سندھی بریانی کھاتا ہے، کون بنی گالہ میں رہتا ہے اور کون جاتی عمرہ اور بلاول ہاؤس میں رہتا ہے۔ انہیں صرف اپنے مسائل کا حل چاہیئے۔