سُخن اپنا جو شُکر ریز
چھوٹی چھوٹی فتوحات اور چھوٹی چھوٹی شکست پر شور ڈالتے سیاست دان بالکل ایسے ہی لگتے ہیں جیسے سستے نشے کے زیراثر کوئی گلیوں میں بڑھکیں لگا رہا ہو ٹھرے اور کچی شراب کا زہرآلود نشہ بہت جلد اعصاب پر چڑھ کر کیا کیا کچھ نہیں کہلواتا غالب نے تو "کہلوانے" کی نزاکت کو ترک کر کے سیدھا کہا ہے۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیاکچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
غالب کو مدعا نہ سمجھنے والوں میں ر عایت کا پہلو نظر آیا جبکہ یہاں جواب آں غزل دوسروں کے گناہ گنوا کر اپنے پاک کئے جاتے ہیں ہمارے اندر جو اللہ تعالیٰ نے "تکڑی" لگائی ہوئی ہے وہ فطرتاً پورا تولتی اور سچ بولتی ہے مگر پہلی آواز پر اگر دھیان نہ دیا جائے تو بعد کی تمام آوازوں میں "جواز" شامل ہو جاتے ہیں، کہ فلاں نے بھی تو میرے ساتھ یہ کیا یا پورا معاشرہ یہ سب کر رہا، لہٰذا میں نے کر لیا تو کیا ہوا۔
غلاموں کنیزوں اور اسیروں سے جو خطائیں ہوں وہ لاعلمی اور جہالت کے باعث وہ مقام نہیں رکھتیں جو سمجھدار پڑھے لکھے عالموں کی دیدہ و دانستہ خطاؤں، غلطیوں و گناہوں کا ہے۔
میرے خیال میں اسمبلیاں اور ایوان بالا سسٹم کو چلانے کے لئے مشینری کے طور پر بنے تھے جن کا طریقہ کار وقت کے ساتھ ساتھ شفاف اور جدید ہوتا چلا جانا چاہئے تھا۔ مقصد تمام وقت انہی کے کل پرزوں کی مرمت میں گزارنے کے لئے نہیں تھا اس پر اس کو جلدازجلد نمٹا کر ملکی معاملات چلانا اصل موضوع تھا اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ اگر بارہ مہینے واشنگ مشین کی مرمت ہی کرتے رہے تو گھر میلے کپڑوں سے بھر جائے گا اور اگر مرمت میں ہی وقت گزارنا چاہیں تو پانچ سال بھی لگ سکتے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن نامی محکمہ بھی کروڑوں کی تنخواہوں و اخراجات سے چل رہا ہے ہم ایک ایسی فیکٹری میں بیٹھ گئے ہیں جہاں تمام وقت مرمت میں و باقی ماندہ ایک دوسرے پر الزامات میں گزر رہا ہے پاکستان کی کون سی بچی دنیا بھر کے ریکارڈ توڑ گئی ہمیں کوئی مطلب نہیں طب کے شعبے میں کیا کیا کچھ ہو گیا ہم لاتعلق ہیں بلکہ ہم وہ ہیں جنہوں نے کرونا کو بھی سیاست میں استعمال کر لیا۔
Stem Cell Bank کے بارے میں پڑھا سنا تو تھا مگرفیوچر ہسپتال Futur Hospital کیسے ہوں گے اس سے نابلد رہنے ہی میں عافیت سمجھی کہ روزانہ کے لائیو لڑائی شوز نے رومنٹک فلمیں بنانے والوں کا بھی بیڑا غرق کر دیا اس میں کوئی شک نہیں کہ تھرل جسے پنجابی میں "تھرتھلی" کہتے ہیں یقینی طور پر ڈپریشن سے نکالتی ہے روز نت نئی خبریں جیلیں قیدیں اور باغیانہ تقریریں دل تو لگائے رکھتی ہیں مگر اس خامی کے ساتھ کہ جلد ہی دل بھر جاتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے "مسٹر چپس، وجین آمیئر" کا خشک ناول پڑھنے کا تجربہ جو اپنی تمام تر بوریت سمیت مستقل یاد کا حصہ بن جاتے ہیں باٹا کے جوتوں کا مستقل سٹائل چھن چھن لش لش کرتے کئی برینڈز کی فراغت کر چکا ہے لہٰذا استقامت لش پش اور چھل چھل میں نہیں طویل خاموشی چپ اور بوریت میں ہے جس قدر گہرے راگ اور مشکل کتابیں پڑھنے کی عادت ڈال لیں پھر نیچے اتر کر ہلکی چیز نہ سنی جا سکتی ہے نہ پڑھی جا سکتی ہے۔
Stem Cell Bank کے حوالے سے پوری دنیا میں اتنا کام ہوا کہ پیدائش کے موقع پر ہی بچوں کے سیل بینک میں رکھ دیئے جاتے ہیں کہ بعدازاں مشکلات و بیماری کی صورت میں مریض کو اسکے اپنے ہی سیلز کی پیوندکاری کر کے اس کے خلیوں کو بچپن والی تیزنشوونما دے دی جاتی ہے اور بے جان ڈیڈ سیلز میں یہ نشوونما والے اپنے ہی خلیے گھٹنوں و دیگر اعضاءکے آپریشن سے بچا کر قدرتی نشوونما کر دیتے ہیں، بہت سے موجودہ مریضوں کو ان ہی کے صحت مند حصوں سے سیل لے کر بیمار گھٹنوں ٹخنوں میں پیوند لگا کر آپریشن سے بچا لیا جاتا ہے۔
وحید زمان عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے بااخلاق انسان دوست ہیں گزشتہ دنوں انہوں نے اس حیران کن "فیوچر ہسپتال" کا گوجرانوالہ میں دورہ کرا کر حیران کر دیا نوجوان شاعر احمد حماد علی اس موقع پر تھے اور فیوچر ہسپتال کے روح رواں ڈاکٹر سرفراز مغل سے مل کر ان کی پاکستان کے لئے اور خصوصاً گوجرانوالہ کی مٹی سے محبت نے بہت متاثر کیا یہ ایک ایسا ہسپتال تھا جہاں خوف اور دوائیوں کی مہک کا نام نہیں تھا پھولوں کی خوبصورت ڈیکوریشن اور آرائش میں بسا کوئی فائیوسٹار ہوٹل یا دلکش کلب تو ہو سکتاہے ہسپتال نہیں جدید ترین مشینری جس میں امریکن روبوٹ ہیئر ٹرانسپلانٹPhoton Hair Removal لائیو سکوپی PRGF Hair Fall اہتمام حسن کے ساتھ تمام لوازمات بنا کسی تکلیف و حجت کے تھیٹر میں میسر تھے اب لب و رخسار بغیر غارہ و مشاطہ بھی سنور سکتے ہیں، دنیا میں حسن کم ہو رہا ہے مگر ایسے اچھے دل والوں کی بھی کوئی کمی نہیں جو تمام تر سہولیات پوری دنیا سے لا کر اپنے علاقے میں نصب کرتے ہیں ہم نے ڈاکٹر سرفراز مغل سے بڑی فرمائش کی کہ آپ یہ سب لاہور لے آئیں انہوں نے کہا کہ روپیہ کمانا میرا مقصد نہیں وہ خود بہت مصروف آئی سرجن ہیں اور ان کے بھائی ڈاکٹر عدنان بھی ان کے ہمراہ فیوچر ہسپتال کی ترویج و ترقی کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔
ایسا نہیں کہ وطن عزیز میں کام نہیں ہو رہا محض اداروں کو چھوڑ دیں اور پھر بھی مشکل ترین صورتحال میں بھی لوگ ایجادات کر رہے ہیں پاکستان کو دنیا سے ہم آہنگ کرنے کے لئے دن رات کاوشیں کر رہے ہیں۔ گزشتہ تین برس ملازمت کے سلسلے میں فیصل آباد میں گزرے، فیصل آبادی گواہ ہیں کہ میرے جانے سے پہلے آرٹ کونسل جتنی سنسان تھی وہاں سے واپس آنے کے بعد مزید سنسان ہو گئی ہے آرٹ سے عدم دلچسپی والے سفارشی لوگوں کی تعیناتی نااہل اور کمتر ذہنی سطح اور خوشامدی اپروچ نے حسین ترین فیصل آباد آرٹس کونسل کا حسن گہنا دیا ہے ابھی سینٹ کے انتخابات نے تکنیکی سطح پر بھی بہت مایوس کیا اس قدر بھونڈے انداز میں تو پاکستانی فلموں اور تھرڈ ریٹ گیسٹ ہاؤسز میں کیمرے نہیں نصب کئے جاتے گلی محلے کے منفی فلمی تھیٹروں میں بھی ایسی کاریگری نہیں ہوتی جو سینٹ کے ہال میں نظر آئی اتنا بڑا تنخواہ دار ادارہ ووٹر کی "ول" کو دیکھنے کے بجائے نام پر اور خانے پر مہر میں الجھا ہوا ہے یہ ایسا ہی ہے کہ اگر Show Of Hands ہو تو جس بیچارے کی چار انگلیاں ہوں اس کا ووٹ تسلیم نہ کیا جائے جدید ترین سائنسی ترقی کے دور میں "کافر" ویکسین بنانے لگے ہوئے ہیں اور ہم کرونا توہمات میں زہر کا ٹیکہ اور افواہیں ہمارا مقدر ہیں نہ جانے ہم کب ٹھیک ہوں گے؟