Be Maqsad Viral Mawaad Aur Tameeri Rawaiyon Ki Zarurat
بے مقصد وائرل مواد اور تعمیری رویوں کی ضرورت
گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کا ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے جاپان کے ایک منفرد احتجاج کا ذکر کرنا سوشل میڈیا پر زبردست وائرل ہوا۔ اس کلپ کی گلی محلوں تک بازگشت نے ایک بات واضح کر دی کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو فضول مواد کو پلک جھپکتے ہی مقبول بنا دیتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ علمی یا تخلیقی مواد کو کبھی اس سطح تک وائرل نہیں کیا گیا۔
کیا آپ نے کبھی کسی پروفیسر کو فزکس کے اصول سمجھاتے یا کسی ادبی نقاد کو اشعار کی شرح کرتے وائرل ہوتے دیکھا؟ بدقسمتی سے، ہماری ترجیحات اس حد تک بگڑ چکی ہیں کہ ہم تعمیری اور فائدہ مند چیزوں کے بجائے سطحی اور بے معنی مواد کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
پاکستان میں احمد جاوید اور پرویز ہود جیسے عظیم اسکالرز موجود ہیں، جن کی قابلیت عالمی سطح پر تسلیم کی جاتی ہے۔ لیکن ان کے علم و فضل کے کلپس کو عوامی سطح پر وہ پذیرائی نہیں ملتی جو ایک مزاحیہ ویڈیو یا طنزیہ کلپ کو ملتی ہے۔ وجہ واضح ہے، ہم اپنی زندگی کو شغل اور تفریح کی نذر کر چکے ہیں اور یہی رویہ ہمیں علمی ترقی سے دور رکھتا ہے۔
وزیراعظم کی گفتگو میں احتجاج کے منفرد انداز کا ذکر قابل غور ہے۔ احتجاج ضرور کیا جانا چاہیے، مگر یہ احتجاج ایسا ہو جو واقعی مؤثر ہو اور نظام کو جھنجھوڑنے کا سبب بنے۔ بازار بند کرنے، سڑکیں بلاک کرنے یا ہڑتالیں کرنے سے نقصان صرف عام آدمی کو ہوتا ہے اور معیشت پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔
اگر ہم احتجاج کو تعمیری اور تخلیقی انداز میں تبدیل کریں، جیسے منتخب نمائندوں کے گھروں کے سامنے پرامن دھرنے دینا، تو یہ زیادہ نتیجہ خیز ہوگا۔ ہمیں اپنی تعلیم کے نظام پر بھی غور کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر، موجودہ موسم سرما کی تعطیلات اگر جنوری کے آغاز سے دی جاتیں تو بچوں کی تعلیم پر کم منفی اثر پڑتا، خاص طور پر خیبرپختونخوا کے طلباء جو مارچ میں امتحانات دیں گے۔
ہمارے بچے انٹرنیٹ کے دور میں زیادہ وقت ضائع کرتے ہیں، کیونکہ تعلیمی نظام میں انہیں خود پڑھنے کی ترغیب نہیں دی جاتی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان میں تخلیقی سوچ اور تحقیق کی عادت ڈالیں، تاکہ وہ تعلیمی اور سماجی مسائل کو بہتر طور پر حل کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔
اختلاف رائے کا اظہار ایک مثبت عمل ہے، لیکن اسے تخریبی رویے کے بجائے تعمیری انداز میں پیش کرنا چاہیے۔ ہم اختلاف کو ذاتی دشمنی سمجھنے کے عادی ہو چکے ہیں، جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ اگر وزیراعظم کے بیان سے اختلاف ہے، تو تخلیقی اور مؤثر انداز میں اس کا جواب دیں، تاکہ معاشرتی بہتری کا دروازہ کھلے۔
ہم بے مقصد وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنی توانائی کو ایسے کاموں میں صرف کریں جو واقعی فائدہ مند اور نتیجہ خیز ہوں۔