Aqal o Be Aqli Do Kinare, Aik Darya
عقل و بےعقلی، دو کنارے، ایک دریا
کسی نے ایک طوطے کو ایک کوے کے ساتھ ایک پنجرہ میں بند کر دیا۔ کوے کی بدصورتی کی وجہ سے طوطے کو تکلیف ہوتی تھی وہ کہتا تھا یہ کیا مکروہ چہرہ اور غصہ کرنے کے لائق صورت ہے۔ یہ قابل لعنت منظر اور بھدے اخلاق و عادات کا مقام ہے۔ طوطا کہا کرتا کاش تجھ میں اور مجھ میں مشرق و مغرب کی سی دوری ہوتی۔ جو صبح صبح تیرا چہرہ دیکھ لے اس پر سلامتی کے دن کی صبح بھی شام غم واقع ہو جائے۔ تجھ جیسا بد نصیب ہی تیری صحبت میں چاہیے۔ لیکن تجھ جیسا دنیا میں کوئی کہاں ہوگا۔
اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ کوا بھی طوطے کے پڑوس کی وجہ سے اپنی جان سے عاجز و تنگ تھا۔ رنجیدہ ہو کر وہ لا حول ولا قوۃ پڑھتا زمانے کی گردش کی شکایت کرتا رہتا تھا اور افسوس کے ہاتھ ملتے ملتے دن رات بسر کئے جا رہا تھا اور کہتا کہ یہ میری بد نصیبی اور بدبختی ہے کہ زمانہ کی سخت گردش کے ہاتھوں لا چار گزر بسر کرنی پڑ رہی ہے۔ میرے مرتبہ کے لائق تو یہ تھا کہ میں کسی کوے کے ساتھ کسی باغ کی دیوار پر ٹہلتا پھرتا اور اڑ کر بیٹھا رہتا۔
اس حال کو کسی عقل مند نے یوں بیان کیا ہے کہ ایک پارسا کے لیے تو یہی قید و بند کافی ہے کہ وہ رندوں کی جماعت میں رہے کوا کہتا کہ معلوم نہیں مجھ سے کیا گناہ سرزد ہوا ہے، جس کی سزا میں زمانے نے مجھے اس جیسے احمق کی صحبت میں پابند کر دیا ہے۔ یہ تو اپنی تعریف آپ کرنے والا نا جنس ہے۔ بے ہودہ بکواس بازی کرتا رہتا ہے میں ایسے کے ہمراہ قید کر دیا گیا ہوں۔
شیخ سعدی کہتے ہیں یہ کہاوت در اصل میں نے اس لیے نقل کی ہے کہ تو جان لے کہ جس قدر عقل والے کو بے عقل سے نفرت ہوتی ہے، ایسے ہی ایک بے عقل کو بھی عقل والے سے نفرت اور وحشت ہوتی ہے۔ سچ ہے کہ ایک زاہد رندوں کی محفل میں تھا۔ اس محفل کا ایک فرد جو بلخ شہر کا رہنے والا تھا۔ اس نے کہا اگر تو رنجیدہ ہے تو منہ بنا کر اس محفل میں نہ بیٹھ کیونکہ تو بھی تو ہمارے اندر ایک تلخ چیز ہے۔
"پاکستان میں صاحبِ علم لوگوں کو ہمیشہ ناراض پایا، کہ لوگ ان کی عزت نہیں کرتے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ دوسرے لوگ بھی ان سے پریشان ہیں۔ اپنی مثال سے بتاتا ہوں۔ میں کسی بھی فیملی فنکشن میں وقت سے 10 منٹ پہلے پہنچ جاتا ہوں۔ اُس وقت میزبان کے علاوہ کوئی موجود نہیں ہوتا۔ لوگ آتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ 2 سے 3 گھنٹے کی تاخیر سے آتے ہیں۔ ان کے انتظار میں کھانا ابھی تک سرو نہیں کیا جاتا۔ جب وہ آ جاتے ہیں تو میزبان لاشعوری طور پر کہتا ہے، "ثاقب بھائی کو دیکھو 9 بجے سے بھی پہلے آ گئے تھے"۔ یہ بات سن کر لیٹ آنے والے مجھے سخت نظروں سے دیکھتے ہیں، کہ اس شخص کی وجہ سے ہم شرمندہ ہو رہے ہیں۔ حالانکہ میں میزبان کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ میرا حوالہ نہ دیا کریں۔
مشہور مصنف "سید مہدی بخاری" کی زبانی اس اہم اصول کو سمجھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں "آج سے کئی برس پہلے سنہ 2005 تا 2006 میں میری عمر 23 سال تھی یعنی نوجوان تھا۔ نئی نئی فوٹوگرافی شروع کی تھی۔ دو چار تصویریں FLICKR پر مشہور ہوگئیں تھیں جو فوٹوگرافرز کا فورم تھا۔ جب انسان نیا فوٹو گرافر ہوتا ہے تو وہ ہر شعبہ کو کور کرنا چاہتا ہے۔ وہ وائلڈ لائف ہو، فیشن ہو، لینڈ اسکیپ ہو، پورٹریٹ ہو الغرض کچھ بھی ہو۔ اسے اپنی "پروفائل" میں ہر آئیٹم چاہئیے ہوتی ہے۔
بس ایسا ہی تھا۔ ان دنوں ٹینٹ پیٹنگ، پولو، فیشن، وائلڈ لائف وغیرہ وغیرہ کا شوق تھا۔ مجھے ایک بار ایک فیشن فوٹو گرافر دوست نے رابطہ کرکے کہا کہ تم ریمپ واک شوٹ کر سکتے ہو تو تمہارا پاس بنوا دیتا ہوں۔
اس کام میں پیسے بھی ملنا تھے۔ شوٹ ایک فیشن میگزین کے واسطے ہونا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ تو سونے پہ سہاگا ہے۔ یعنی پیسے بھی مل رہے ہیں اور فوٹو گرافی میں ایک نئی صنف بھی شوٹ ہو جائے گی تو چلو پروفائل کے لیے اچھا ہوگا۔ میں نے فوراً ہاں کر دی۔
اس زمانے میں میں نے مہرین سید، جیا علی، نادیہ حسین وغیرہ وغیرہ جیسی ٹاپ ماڈلز کو شوٹ کیا ریمپ پر تو واک ہوتی مگر بیک سٹیج یہ سب ستارے جمع ہوتے اور آپس میں گوسپس یا خوش گپیاں چل رہی ہو تیں۔
اس شعبہ میں چونکہ اکثریت "شوقین مزاج" ہوتی اس لیے وہ اپنے کام لگے رہتے مجھے سوائے سادہ سگریٹ کے کسی قسم کا شوق نہیں تھا۔ سگریٹ بھی ان دنوں نیا نیا ہی پھونکنا شروع کیا تھا۔ مجھے کئی بار جتایا جاتا کہ تم چرس بھی نہیں پیتے کیسے بورنگ انسان ہو۔ میں ہنس کے ٹالتا جاتا۔ مگر ہوتا یوں ہے کہ جب آپ کسی کا پارٹ بننے لگتے ہیں تو پھر اس کمپنی کی جانب سے فرمائشیں بھی مسلسل ہونے لگتیں ہیں۔
انکار کرنے پر مجھے عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا اور مجھ پر ہنستے ہوئے جوک یا طعنے مارے جاتے تھے جن کو میں بھی ہنس کے اگنور کر دیتا تھا اور کیا کرتا؟ کھانا بھی تو تھا۔ یہ سلسلہ ایک سال ہی چل پایا اور پھر میں نے یہ فیلڈ چھوڑ دی۔ کبھی مڑ کے دیکھا بھی نہیں۔ ساری دوستیاں سارے ناطے کٹ آف کر دئیے۔ میرے مزاج کا بندہ ویسے بھی اس ماحول میں نہیں چل سکتا تھا۔ شراب پینا یا کوکین سونگھنا میرے لیے مشکل نہیں تھا۔ نوجوانی میں ہی سب میسر آگیا تھا اور وہ بھی بالکل مفت۔ اگلوں کے خرچ پر۔ کہتے تو ہیں کہ مفت کی شراب قاضی کو بھی حلال مگر میرا دل اس جانب نہ مائل ہو پایا۔
اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میں کوئی پنج وقتی حاجی نمازی تھا یا تسبیح پھیر تا رہتا تھا۔ اس کی صرف و صرف دو وجوہات تھیں۔
اول، میری اماں نے مجھے ہوش سنبھالنے سے گاہے گاہے تاکید کی کہ کبھی نشہ نہ کرنا، نشہ یوں کر دیتا ہے نشہ ووں کر دیتا ہے، نشہ حرام ہے، نشے سے بڑھ کر دنیا میں کوئی قبیح عمل ہو ہی نہیں سکتا وغیرہ وغیرہ۔
تو میں آپ کو بتانا چاہ رہا تھا کہ میں نے فیشن انڈسٹری کیوں چھوڑی۔ جوکس یا طعنوں کو ایک سائیڈ پر رکھ کر چل تو رہا تھا مگر ایک دن ایسا ہوا جس نے میری عزت نفس کو توڑ دیا۔ ایک ایونٹ کو بھگتا کر سب ایک ہال میں جمع تھے۔ محفل چل رہی تھی۔ کاک ٹیلز بن رہے تھے، دھوئیں اُٹھ رہے تھے۔ یکا یک ایک مشہور برائیڈل ڈیزائنر نے مجھے اونچا مخاطب کرتے کہا "مہدی، تم نے نہیں پینی تو ہال سے باہر نکل جاؤ۔ یہاں تمہارا کوئی کام نہیں۔ اگر کچھ پینا ہو تو ویلکم"۔ یہ سن کر سب قیقے لگانے لگے۔ میں نے اپنا کیمرا بیگ سمیٹا اور باہر نکل گیا۔
باہر نکل کر مجھے لگا کہ یہ میری انسلٹ ہے۔ میں یہاں کیوں ہوں۔ اس دن قسم کھائی کہ اب بس۔ اب یہ کام نہیں کرنا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں نے کبھی واپس جانے کی سوچی بھی نہیں۔ بھئی انسان کو آخر کیا چاہئے ہوتا ہے؟ عزت شہرت اور دولت، یہی ناں؟ چلو ٹھیک ہے میں نے اس دن فیشن انڈسٹری چھوڑ کر جو راہ منتخب کی وہ کافی لمبی تھی اور یہاں تک آتے ڈیڑھ دہائی بیت گئی اور جس قدر مشکل سے بیتی میں ہی جانتا ہوں جاب ہوئی تو فارنرز کو لیگز میں، ڈپلومیٹس کے ساتھ اور ایسی ہی تقریبات کا حصہ بننا مجبوری بن گئی۔ جب بھی مجھے کوئی آفر کرتا میں بول دیتا "نہیں، شکریہ، میں نہیں پتا"۔ کچھ لوگ جواب سن کر مجھے عجیب نظروں سے گھورتے اور کچھ اگنور کر دیتے۔ میں سوچتا کہ آخر میں نے ایسی کیا غلطی کر دی ہے کہ اگر میں نہیں پیتا تو مجھے اگنور کیا جائے؟ پھر ایک دن مجھے اس کا جواب مل گیا۔
صاحبو، فارنرز کا، بیرونی دنیا کا یا ایسی محافل کا جو لوگ حصہ ہوتے ہیں یہ ان کا کلچر ہوتا ہے۔ یہ ان کا معمول ہوتا ہے۔
الکوحل کا استعمال ان کے کھانوں سے قبل اور کھانوں کے بعد کا روزمرہ ہے۔ وہاں اس کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ جب ان کے سامنے یا محفل میں صاف جواب دے دیا جائے "میں نہیں پیتا" تو یہ ان کے واسطے انسلٹ ہوتی ہے۔ یعنی آپ انہیں دوسرے لفظوں یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ یہ غلط کام ہے اور میں نہیں کرتا۔ ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے وہ کچھ غلط کر رہے ہیں اور انہیں ایک شخص جج کرتے ہوئے ایسا کہ رہا ہے۔ ایک دفعہ جب ایسی ہی محفل میں مجھے پیشکش ہوئی تو میں نے کہا "شکریہ، مگر میں چھوڑ چکا ہوں۔
"I Quit"۔
وہ سب خوش ہو کر میری جانب متوجہ ہو گئے اور کہنے لگے "واہ، زبردست۔ یہ کیسے کر لیا یار؟ ہم سے تو نہیں ہو پاتا۔ مگر تم کمال ہو"۔ اس دن کے بعد یہ معمول بنا لیا کہ جب کوئی آپ کو آفر کرے اور اس جگہ موجود رہنا آپ کی جاب یا بزنس کی مجبوری ہو تو آپ سمپل اتنا کہ دیں "Thanks but i quit"۔
یہ بنیادی مینرز ہیں۔ ان کو سیکھتے اک عمر لگ جاتی ہے۔ اس طرح کوئی ناراض نہیں ہوتا بلکہ وہ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں"۔
محترم دوستو، اس اصول کو سمجھ لیں گے تو زندگی آسان ہو جائے گی آپ کی خوبی آپ کی پہچان ہے اور اسے برقرار رکھنا اہم ہے لیکن یاد رکھیں جس قدر عقل والے کو بے عقل سے نفرت ہوتی ہے، ایسے ہی ایک بے عقل کو بھی عقل والے سے نفرت اور وحشت ہوتی ہے۔