Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Nizami Street Baku (1)

Nizami Street Baku (1)

نظامی سٹریٹ باکو (1)

اگر کوئی مجھ سے نظامی اسٹریٹ کا تعارف پوچھے، تو میں کہوں گا: یہ وہ جگہ ہے جہاں دل اپنے خواب بیچتے ہیں اور آنکھیں عشق خریدتی ہیں، یہ بازار نہیں، محبت کی خوشبو سے مہکتا ہوا ایک جذبوں کا شہر ہے جہاں ہر قدم پر کوئی کہانی، ہر دیوار پر کوئی نظم اور ہر لمحے میں کوئی لمس چھپا ہوتا ہے، یہ باکو کا دل ہے، جہاں عشق دھڑکتا ہے اور آذربائیجان کی روح نرمی سے گنگناتی ہے، یہ صرف ایک سڑک نہیں، بلکہ وہ دنیا ہے جہاں محبت جیتی ہے، سانس لیتی اور مسکراتی ہے، انتہائی مختصر الفاظ میں "دل کی دکانوں کا مجموعہ، عشق کا بازار، محبت کا شہر باکو اور پریم کی دنیا آذربائیجان"۔

جیسے ہی میں شکیب کے دفتر کے دروازے پر پہنچا، دروازہ کھلا ہوا تھا، اندر قدم رکھا تو سامنے آذربائیجان کی خوبصورتی کا ایک چلتا پھرتا شاہکار، شکیب کی سیکرٹری، نہایت متبسم چہرے کے ساتھ بولی، "خوش آمدید، صوفے پر تشریف رکھیں" شکیب نے اسے پہلے سے میری آمد کی اطلاع دے رکھی تھی، بہرحال، میں صوفے پر براجمان ہوا، سیکرٹری نے انٹرکام اٹھا کر بات کی، اس کے انٹرکام رکھنے سے پیشتر دروازہ بجلی کی چمک کی طرح کھلا اور شکیب آذری جذبات کی آندھی بن کر نمودار ہوا، بانہیں کھول کر اس نے مجھے ایسے گلے لگایا جیسے میں کوئی بچھڑا ہوا جذباتی رشتہ ہوں اور پھر روایتی آذری انداز میں میرے دونوں گالوں پر محبت بھرے بوسے دے مارے، ایسا لگا جیسے "دو عدد پرنٹ نکلوا لیے ہوں "، ایک جپھی سے مطمئن نہ ہو کر اس نے دوسری مرتبہ زور سے جپھی ڈالی، میرا ہاتھ تھامے وہ مجھے اندر لے چلا، اندر لمبی میز کے اردگرد آذری مرد وزن محوِ گفتگو تھے، غالباً کسی ٹور پلان پر، مگر میرے لیے تو وہ منظر کسی روم کوم فلم کے سیٹ سے کم نہ تھا۔

صاف ستھرا اور پروفیشنل آفس شکیب کے کامیاب بزنس کا نظارہ دیتا تھا، ٹیبل پر امیزنگ ہالیڈے کے نام سے پمفلٹ کچھ اس شان سے رکھے تھے جیسے وہ ابھی ابھی کسی فیشن شو کی کیٹ واک کرکے آئے ہوں، دیوار پر آویزاں بڑا سا سائن بورڈ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا، "یہ آفس صرف بزنس نہیں، خواب بیچتا ہے"۔ شکیب نے سب سے میرا تعارف کروایا اور بتایا کہ ہم "سیمی پلاٹنسک" میں ساتھ پڑھتے تھے، میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا، "یار، کتنی عزت سے بتایا، پڑھائی تو محض بہانہ تھا ورنہ ہم لوگوں نے سیمی میں جو کارنامے کئے تھے وہ اگر منظر عام پر آ جائیں تو کم از کم میں منہ چھپانے لائق نہ رہوں"۔

یہ شکیب سے میری دوسری ملاقات تھی، وہ بھی تقریباً فلمی سین جیسی، جنوری 2016 میں، جب میں پاکستان میں ایک کزن کی شادی پر گیا تھا، لاہور کے پانوراما شاپنگ مال میں ویسے ہی پھرتے پھراتے اچانک شکیب اور اس کی بیوی ویلنٹینا مجھ پر ایسے جھپٹے تھے جیسے کوئی سیل میں آخری قیمتی چیز دیکھ لی ہو، مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے اور مہمان نوازی کے ڈھیر لگا دیئے تھے۔

آج کی میٹنگ میں بھی یہی محبت کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی، شرکاء نے بڑے احترام سے شکیب سے اجازت لی، میں نے ان سے کہا، "آپ لوگ پلیز میٹنگ جاری رکھیں، میں باہر انتظار کر سکتا ہوں"۔ لیکن ان کا انداز کچھ ایسا تھا "ایک معزز مہمان آئے اور ہم میٹنگ کریں، یہ آذری محبت کے آئین میں ممنوع ہے"۔ چنانچہ سب نے خوب صورت مسکراہٹوں کے ساتھ سلام کیا اور خوش اخلاقی کی سند چھوڑتے ہوئے رخصت ہوگئے۔

شکیب فوراً "سکندرِ اعظم" کے موڈ میں آگیا جیسے فتح کے بعد کسی سلطنت کے بادشاہ کو خوش آمدید کہہ رہا ہو، آواز میں جلال، آنکھوں میں کمال اور لہجے میں وہی والہانہ محبت جو پرانے دوستوں کے درمیان ہوتی ہے، "تو بتا، کیا کھانا پینا پسند کرے گا اے معزز مہمان"، شکیب کا یہ انداز مجھے بہت بھایا، میں دل ہی دل میں ہنسا، کہ اگر سچ مچ کا دربار ہوتا تو میری کیا فرمائش ہوتی، پھر وہ خود ہی اپنے سوال کا دوسرا حصہ بھی بول گیا "یہاں منگوا لیں یا باہر چلیں؟" میں نے ماحول کو دیکھ کر تجویز دی "باہر موسم بہت اچھا ہے، بالکل سیمی کے موسم جیسا، باہر چلتے ہیں"۔ شکیب نے سکیرٹری کو ضروری ہدایات دیں اور ہم ننھے بچوں کی طرح کھلکھلاتے باہر نکلے۔

شام کا ہلکا ہلکا اندھیرا اس طرح چھا رہا تھا جیسے آسمان پر کسی نے محبت بھری چادر پھیلا دی ہو، باتیں کرتے اچانک مجھے یاد آیا، "اوہ، میرے الیکٹرانک گیجٹس تین پن والے ہیں اور ہوٹل میں چارجنگ ساکٹ دو پن والی ہیں"۔ شکیب نے میری ڈھارس بندھائی "پریشان نہ ہو، الیکٹرونکس کا راجہ تیرے ساتھ ہے"۔ تھوڑی ہی دیر بعد چند دکانوں کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی سنگی سیڑھی چڑھ کر ہم ایک دکان میں داخل ہوئے، جہاں سے وہ "دو ٹانگوں والا جادوئی پلگ "فقط دو منات میں مل گیا، اتنا سستا، جیسے کسی محبت بھری رعایت پر ملا ہو"۔

ادائی شکیب نے زبردستی کی، میں کچھ بولنے ہی والا کہ تھا اس نے اگلی سپر مارکیٹ کی طرف بڑھنے کا اشارہ کیا، اندر جا کر اس نے دو انرجی ڈرنکس خریدے، ایک میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا، "یہ یہاں کا سب سے بہترین انرجی ڈرنک ہے، دل لگا کے پینا"۔ میں نے گھونٹ بھرا، ذائقہ گرچہ ریڈ بل جیسا تھا، مگر یہ کچھ خاص تھا، شاید دوستی، موسم، یا شکیب کے انداز کا اثر تھا جو ذائقے کو بھی رومانوی بنا گیا۔ شکیب نے اپنی مخصوص سیریس-پلس-سینیریو کریئیٹر ٹون میں پوچھا، "اب تک کہاں کہاں گھومے ہو؟" میں نے مختصر روداد سنائی تو اس نے سر ہلایا ہمممممم جیسے کوئی پروفیسر شاگرد کی تھیسس سن کر کہہ رہا ہو، اچھا ہے، مگر مکمل نہیں۔

شکیب نے میری معلومات میں اضافہ کیا "باکو کی جان، اس کے دل کی دھڑکن، نظامی سٹریٹ، اگر کوئی بندہ باکو آ کر بھی نظامی سٹریٹ نہ جائے تو سمجھو کہ وہ آیا ہی نہیں، بس یہاں وہاں گھومتا رہا ہے، آؤ، میرے ساتھ، تمہیں ایک شاندار دنیا دکھاتا ہوں"۔ آخری فقرہ بولتے اس کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں آذری ولولا امڈ آیا تھا۔

ہم کاراکارائیف میٹرو اسٹیشن کی طرف یوں بڑھے جیسے خفیہ مشن پر جا رہے ہوں، برقی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر نیچے اترتے وقت ایسا لگا جیسے ہم دنیا کے شور سے کسی اور رومانوی جہان کی طرف جا رہے ہوں، میٹرو ٹرین میں سوار ہو کر 28مئی سٹیشن پہنچے، میں نے پوچھا "کیا ہمیں ٹرین بدلنی پڑے گی؟" لیکن شکیب نے چمکتی آنکھوں اور فاتحانہ لہجے میں بتایا "یہی ٹرین سیدھی ساحل تک جائے گی اور ہم وہاں اتریں گے"۔

ساحل میٹرو سٹیشن کی بلڈنگ سے جیسے ہی باہر قدم رکھا، سامنے چوڑی سڑک اور عمارتیں دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا، ایک لمحے کو لگا، "ارے! کہیں غلطی سے پارلیمنٹ یا کسی عجائب گھر میں تو نہیں آ گیا؟"، بلڈنگ اتنی شاندار، میں سر گھما کر بلڈنگ پر نگاہ ڈالی، اتنی عظیم الشان کہ اگر اوپر

Сахиль Метро Станциясы

کا بورڈ نظر نہ آتا تو شائد میں وہیں گوگل میپ کھول لیتا۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan